ایک کار مکینک ، دو سے تین سال میں اپنے پاس کام سیکھنے
آنے والے کو کاریگر بنا دیتا ہے ۔
ایک موٹر سائیکل مکینک ، اپنے پاس آئے چھوٹے کو تین سال بعد اپنا روزگار
خود کمانے کے قابل کر کے اپنے گھر کا بڑا بنا دیتا ہے ۔۔
میں ایسے حجام کو جانتا ہوں جس نے اپنے پاس کام سیکھنے آنے والے کو دوسال
بعد اٌسے کام سیکھا کر خود کا سیلون بنانے کے قابل کر دیا ۔
ایسے درزی میرے جاننے والوں میں کثیر تعداد میں ہیں جنھوں نے تین سال کی
ٹریننگ دینے کے بعد اپنے شاگردوں کو اپنے اپنے گھر کا چولہا گرم رکھنے کے
قابل بنا دیا ۔
معمار حضرات اپنے ساتھ مزدوری کرتے تعمیرات میں دلچسپی لینے والے فرد کو دو
سے تین سال میں ایک اچھا معمار بنا کر بڑی بڑی بلڈنگ کھڑی کرنے کے قابل کر
دیتے ہیں ۔
ڈرائیونگ سیکھانے والے ایک مہینے میں ڈرائیونگ سیکھا کر نوجوان کو پروفیشنل
ڈرائیور کے طور پر رزق حلال کمانے کے قابل بنا دیتے ہیں ۔
الیکٹرانکس کا کام سیکھانے والے نوجوانوں کو چار سے پانچ سال میں موبائل ،
ٹی وی ، فریج ،اے سی اور دیگر الیکٹرانک اشیاء کی مرمت میں ماہر کر دیتے
ہیں جس کی بدولت ہنر مند افراد باعزت طریقہ سے روزگار کما سکتے ہیں ۔
باورچی سے لے کر ویب ڈیزائنر ، ویب ڈیویلپر اور کمپوزرز جیسے لا تعداد ایسے
ہنر مند ہیں جو اپنے پاس آنے والے فرد کو پانچ سال سے بھی کم عرصہ میں
متعلقہ شعبہ میں ضروری مہارت دے کر میدان عمل میں کارکردگی دکھانے کے قابل
کر دیتے ہیں ۔
اس کے برعکس
کیا وجہ ہے کہ تعلیمی اسناد میں اتنے اتنے نمبرات کے حامل ہماری معمار قوم
کی اکثریت عملی میدان میں معمولی سے معمولی نوکری کے لیے دربدر ہوئی پھرتی
ہے ۔
درجہ چہارم کی نوکری کے لیے ماسٹرز ڈگری ہولڈرز کے ساتھ ساتھ ایم فل اور پی
ایچ ڈی امیدواران اکثر وبیشتر دیکھنے کو ملتے ہیں۔
سب سے زیادہ تکلیف دہ بات
ہمارے طلباء سکولز و کالجز میں کم از کم 12 سے 15 سال تعلیم و تربیت اور
جدید علوم سیکھنے کی غرض سے سالہا سال بھاری فیسیں ادا کرتے ہیں۔
لیکن
کارکردگی ہمارے سامنے ہے کہ کتنے ماہر لسانیات ہیں جو انگش ، عربی و فارسی
پر دسترس رکھتے ہیں ؟
اس نظام کے تحت بننے والے کتنے انجینئرز ہیں جنھوں نے سول ، مکینیکل و دیگر
شعبہ جات میں خاطر خواہ کارکردگی دکھائی ہے۔
کلاس ون سے سائنس پڑھ کر ماسٹرز ڈگری حاصل کرنے والے عملی سائنسدان ہمارے
اس معاشرے میں کتنے پائے جاتے ہیں ۔
قصہ مختصر
ہمیں اپنے آپ کو اپ کو عملی طور پر اپ گریڈ کرنا ہو گا۔
|