ارشادِ ربانی ہے:’’اے نبیؐ، اپنے رب کے
راستے کی طرف دعوت دو، حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ، اور لوگوں سے مباحثہ
کرو ایسے طریقہ پر جو بہترین ہو۔ تمہارا رب ہی زیادہ بہتر جانتا ہے کہ کون
اس کی راہ سے بھٹکا ہوا ہے اور کون راہ راست پر ہے‘‘۔داعی کی اہم ذمہ داری
دعوت کی قبولیت میں آڑے آنے والی رکاوٹ کو دور کرنا بھی ہے۔ انسانی وجود
کے تین اہم مقامات پر یہ رکاوٹ قیام کرتی ہے ۔دماغ اور دل کے علاوہ انسانی
نفس بھی اس کا مسکن ہے۔انسانی وجود کے یہ تینوں مقامات الگ الگ مزاج کے
حامل ہوتے ہیں جیسے روئے زمین پر پائی جانے والی مٹی کی کیفیت جدا جدا ہوتی
ہے۔ کہیں پر وہ ریتیلی تو کہیں پتھریلی ہوتی ہے۔ ان دونوں سے مختلف نرم اور
چکنی مٹی بھی کرۂ ارض کی سطح پر موجود ہوتی ہے۔
ان مختلف زمینوں پر چلتے ہوئے الگ الگ قسم کا احتیاط درکار ہوتا ہے۔ ریتیلی
زمین پر انسان اس طرح نہیں چل سکتا جیسے پتھریلی زمین پر چلتا ہے اور چکنی
مٹی پر چلنے کے لیے انسان کو بہت زیادہ محتاط ر ہنا پڑتا ہے۔ اس داخلی
کیفیت کے علاوہ موسم کا بھی اثر مختلف ہوتا ہے ۔ گرمی میں ریت تپنے اور
اڑنے لگتی ہے ایسے اس پر نہ صرف پیر رکھنا مشکل ہوجاتا ہے بلکہ آنکھ
کھولنا تک دشوار ہوجاتا ہے۔ اسی طرح بارش میں پتھروں پر کائی جم جائے تو
پھسلن سے بچنے کے لیے قدم جما کر چلنا پڑتا ہے ۔ بہت زیادہ بارش سے چکنی
مٹی اگردلدل میں تبدیل ہوچکی ہو تو اس میں دھنسنے سے بچنے کا احتیاط لازم
ہوجاتا ہے ۔ اسی طرح بیرونی عوامل اور ماحول انسانی شخصیت پر اثرا انداز
ہوتے ہیں۔ اسلام سے متعلق مختلف افکارو نظریات یا پروپگنڈے نےمدعو کے کس
پہلو متاثر کیا ہے یہ پتہ لگانا ضروری ہوتا ہے کیونکہ جسم کے الگ الگ اعضاء
کینسر کا اثر مختلف ہوتا ہے اس رکاوٹ کی مناسبت سے احتیاط لازم ہے۔
دماغ مسلسل سوچتا اور ہرشئے کے بارے میں اچھی یا بری اور رائے قائم کرتا
رہتا ہے ۔ یہ درست ہو یا غلط رائے دماغ کی زمین پر پتھر کی لکیر بن جاتی ہے
۔ کسی داعی کے لیے پرانی لکیر کو مٹا کر نیاخط کھینچنا آسان نہیں ہوتا ہے۔
اس صورت میں داعی کو نظریاتی دلائل کی صورت میں شدید مزاحمت کا سامنا پیش
آتا ہے۔ یہی وہ مرحلہ جہاں حکمت کی شدیدضرورت پڑتی ہے۔ حکمت کے بغیر رکاوٹ
کا تدارک تو دور اس ادراک تک ممکن نہیں ہے ۔ بیشتر مواقع پر مدعو کی جانب
سے اس کا اظہار واضح نہیں ہوتا ۔ داعی کوایک ماہر حکیم کی مانند علامات کی
مدد سے بیماری کی تشخیص کرنا ہوتی ہے اور مرض کا پتہ چلانے کے بعد ہی علاج
تجویز کرنا پڑتا ہے ۔ مثلاً الحاد زدہ ذہن کے شبہات فسطائی دماغ سے یکسر
مختلف ہوتے ہیں اور ان دونوں کا علاج کسی ایک دوائی سے ممکن نہیں ہے ۔ اس
کے لیے مجرب نسخہ کی حسب ضرورت خوراک کا تعین لازم ہوتا ہے اور یہی حکمت کا
تقاضہ بھی ہے۔
دماغ کے بجائے اگر دل میں روڑا ہو تو اس کے لیے اچھی نصیحت کارگر ہوتی ہے۔
دماغ کے برعکس دل کےپاس دلیل کے بجائے احساس کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے۔ قلب
ہی غصہ اور نفرت جیسے جذبات کی آماجگاہ ہوتا ہے ۔ ایسے میں وہ داعی سے
گفتگو تو دور اس کی صورت تک دیکھنا نہیں چاہتا ۔قلب کی حساسیت عمدہ نصیحت
کا تقاضہ کرتی ہے تاکہ مخاطب کے دل کی جراحی کرکے اس میں سےاسلام کے خلاف
بھرا ہوا زہر نکال کراسے تریاق سے معمور کیا جاسکے ۔ انسانی نفس کے اندر
عمارہ اور لوامہ کے درمیان دائمی معرکہ بپا ہوتا ہے۔ ایک ٹوکتا ہے اور
دوسرادباتا ہے۔ اس وادی پرخار میں داخل ہوکر داعی نفس لوامہ کو تقویت
پہنچانے کی گولی دیتا ہے اور نفس عمارہ پر گولی چلاتا ہے ۔ یہ مجادلہ اگر
احسن انداز میں نہیں کیا جائے تو مبادہ نفسِ لوامہ زخمی ہوجاتا ہے اور نفسِ
عمارہ بغلیں بجاتا ہے۔ اس لیے بہترین مباحثے کی تلقین کی گئی ہے۔ دعوت کے
باب میں یہ ہدایات بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔
|