"نثار تیری چہل پہل پر ہزاروں عیدیں ربیع الاول
سوائے ابلیس کے جہاں میں سب ہی تو خوشیاں منا رہے"
ماہ ربیع الاول وہ عظیم مہینہ ہے جس میں امام الانبیاء حبیب کیبریا یہ
معجزات تخلیق کائنات حضرت محمد مصطفی کی ولادت باسعادت اور حضور نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو دیکھا جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ آپ کی ذات
تمام جہانوں کیلئے رحمت ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود مسعود سے
پوری دنیا میں نورحق پھیلا اور کفر و باطل کی تاریخ ختم ہوگئی یہ وہ دور
تھا جب جب جہالت عام تھی عدل و انصاف ناپید تھا پیار اور محبت نام کی کوئی
چیز نہ تھی تاریخ تھا ظلمت قدا تھا سخت کالا تھا ہر طرف جہالت عام تھی آپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد سے ہر جگہ اجالا ہو گیا حضرت آمنہ سلام
اللہ علیہا کے ہاں ولادت باسعادت کا وقت قریب آیا تو اللہ تبارک و تعالی نے
فرشتوں سے فرمایا تمام آسمانوں اور جنت کے دروازے کھول دیئے جائیں اس روز
سورج کو عظیم نور پہنچایا گیا اور اللہ تعالی نے دنیا بھر کی عورتوں کے لیے
یہ مقدر کر دیا کہ وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے لڑکے جنے جس
سال نورمحمد حضرت آمنہ کو ودیت ہوا وہ فتح النصرت تروتازگی اور خوشحالی کا
سال کہلایا اہل قریش اس سے قبل معاشی بدحالی اور قحط سالی میں مبتلا تھے
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی برکت سے اس سال اللہ تعالی نے زمین کو
سرسبز اور خوشحالی عطا فرمائی اور سوکھے درختوں اور مردہ شاخوں کو ہرا بھرا
کر کے انہیں پھلوں پھولوں سے لاد دیا اہل قریش اس طرح ہر طرف سے کثیر خیر
آنے سے خوشحال ہو گئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کا
ذکر کرنے سے پہلے یہ بات ضروری ہے کہ ہم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر
درود پاک پڑھیں رسول اکرم کی ولادت باسعادت ربیع الاول کے مہینے میں ہوئی
مورخین اور سیرت نگاروں کا اس تاریخ سے اختلاف ہے بعض نے 9 ربیع الاول اور
بعض نے 12 ربیع الاول کی تاریخ بتائیں ہیں یہ سوموار کا دن تھا آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کی ولادت سے قبل عرب کے نجومیوں نے کسی بڑی شخصیت کی ولادت کا
ذکر جاری کیا تھا اور اہل کتاب بھی اپنی کتاب میں جس آخری نبی کی آمد کا
پڑھتے آرہے تھے انھیں یقین ہو گیا تھا کہ اس آخری نبی کی آمد کا وقت قریب
آچکا ہے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہا جو عرب کے نامور شاعر تھے
ایک واقعہ بیان کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ میری عمر 7سال تھی اور مدینہ
منورہ اس وقت جس کا نام یثرب تھا میں رہتے تھے میں نے ایک یہودی کو کہتے
سنا وہ کہہ رہا تھا کہ اے یہودیو جب اس کی آواز سن کر لوگ اس کے گرد جمع
ہوگئے اور پوچھا کہ اے کمبخت تجھے کیا ہو گیا ہے کہ تو چیخ رہا ہے اس نے
کہا آج رات احمد کا ستارہ طلوع ہو چکا ہے جس میں وہ پیدا ہو گا حضرت حسان
بن ثابت کے بیٹے فرماتے ہیں کہ میرے والد کی عمر ہجرت نبوی کے وقت 60 سال
تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے وقت ان کی عمر سات یا آٹھ سال رہی
ہو گی کیونکہ ہجرت کے وقت حضور کی عمر 53 برس تھی اس طرح کے بہت سے واقعات
تاریخی سیرت کی کتابوں میں درج ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ولادت نبوی صلی
اللہ علیہ وسلم سے قبل ہی لوگوں کو یہ احساس ہو گیا تھا کہ آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کی تشریف آوری کا وقت ہوچکا ہے بہت سی سیرت نگاروں نے لکھا کہ جب
آپ کی ولادت باسعادت ہوئی تو فارس کے شاہی محل میں زلزلہ آیا اور محل کے
کنگرے زمین پر گر پڑے بے کعبہ میں رکھے ہوئے بت زمین پر آ گرے کے گویا اس
جانب اشارہ تھا کہ اب دنیا کی جاہ و حشمت کے محل زمین بوس ہونے والے ہیں
اور ان سب خود ساختہ خداؤں کی عظمت ملیامیٹ ہونے والی ہے اب حق کا پرچم
بلند ہو گا صداقت کا سورج طلوع ہوگا اور نور کی روشنی پوری دنیا میں پھیل
جائے گی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے والد محترم حضرت عبداللہ آپ کی
ولادت سے قبل ہی انتقال کر گئے تھے آپ کے دادا عبدالمطلب نے جب پوتے کی
ولادت کا سنا تو کعبہ میں جاکر سجدہ ریز ہو گئے اور اس نعمت پر خدا کا شکر
ادا کیا ماں نے جب اپنے شوہر کی نشانی کو دیکھا تو آنکھیں بھر آئی ابو لہب
نے جب بھتیجے کی ولادت سنی تو دل باغ باغ ہو گیا اور خبر سنانے والی باندھی
کو آزاد کر دیا مکہ میں یہ دستور چلا آرہا تھا کہ بچوں کی پرورش کے لیے آس
پاس کے دیہاتوں میں بھیج دیا کرتے تھے تاکہ بچے وہاں کی صاف ستھری ہوا میں
پرورش پا کر تندرست اور توانا ہو جائیں نیز وہاں وہ خالص عربی زبان سیکھ
جائیں مکہ ایک مرکزی شہر تھا جہاں ہر خطے کے لوگ آتے جاتے تھے جس کی وجہ سے
وہاں زبان بھی خالص نہیں رہی تھی اور عربوں میں پڑھنے لکھنے کا رواج بہت کم
تھا مگر وہ زبان پر خاص توجہ دیتے تھے اور یہاں گاؤں کی زبان زیادہ مستند
سمجھی جاتی تھی
اسی غرض سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ایک صحرائی خاتون حضرت
حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالی عنہ کے حوالے کیا گیا حضرت حلیمہ سعدیہ ان
عورتوں میں شامل تھی جو مکہ کے سرداروں کے بچے پرورش کے لئے حاصل کرنے کی
غرض سے آئی تھی سیرت نبوی کے مطابق یہ واقعہ حضرت حلیمہ نے خود بیان کیا ہے
کہ میں کچھ عورتوں کے ساتھ دودھ پینے والے بچوں کی تلاش میں نکلی میرے پاس
ایک بھورے رنگ کی اونٹنی تھی اور ایک گدھا تھا حضرت حلیمہ بیان کرتی ہیں کہ
میں تمام عورتوں کے ساتھ مکہ کے لیے نکلی تھی مگر ہماری اونٹنی لاچار تھی
اور بیمار تھی جس کی وجہ سے میں آخر میں مکہ میں پہنچی تھی حضرت محمد صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہر دائی کو پیش کیا گیا مگر کسی نے نہیں لیا حضرت
حلیمہ فرماتی ہیں کیوں کہ انہیں بچے کے والد سے خیر اور برکت کی اور انعام
کی امیدیں وابستہ تھیں جب باپ نہ ہو تو دادا اور ماں سے کیا امید حضرت
حلیمہ جب پہنچی تو صرف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی رہ گئے تھے جس
پر حضرت حلیمہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گود لے لیا حضرت حلیمہ بیان
کرتی ہیں جب میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گود میں لیا اور اپنی سواری
پر بیٹھیں تو میری سواری تیزی سے دوڑنے لگی جس پر حضرت حلیمہ کے شوہر نے ان
سے کہا حلیمہ خدا کی قسم مجھے یہی لگتا ہے کہ یہ بچہ خاص ہے جس کی برکت کی
وجہ سے ہر طرف سے ہمیں خیر ہی مل رہی ہے
جب حضرت حلیمہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی گود میں لیا اور دودھ
پلانے کی غرض سے اپنا دایاں پستان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دہن مبارک میں
دیا تو آپ نے دودھ پینا شروع کر دیا اور بایاں پستان آپ کی طرف کیا تو آپ
صلی اللہ علیہ وسلم رک گئے حضرت عباس فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم نے اس وقت ہی انصاف فرما دیا کہ ایک پستان اپنے دودھ شریک بھائی کے
لیے چھوڑ دیا حضرت حلیمہ فرماتی ہیں کہ میں اپنا دایاں پستان ہمیشہ حضور کے
لئے ماخوذ رکھتی اور بایاں پستان اپنے بیٹے حمزہ کو دیتی تھی جب ہم مکہ سے
اپنے گھر کی جانب روانہ ہوئے تو بیمار اونٹنی تیزی سے چلتی ہوئی آگے کی طرف
بڑھی اور ہم سب لوگوں سے پہلے اپنے گھر پہنچ گئے جس پر تمام خواتین نے حضرت
حلیمہ سے کہا کہ تم تو سب سے آخر میں مکہ سے چلی تھی لیکن یہاں اپنے گھر سب
سے پہلے پہنچ گئی تو حضرت حلیمہ نے فرمایا جس لڑکے کو لینے سے تم نے انکار
کردیا یہ اس ہی کی برکت ہے کہ مجھے خیر کثیر ملی ہے ان تمام باتوں سے ظاہر
ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب کے لئے رحمت بن کر آئے تھے آخر میں بس
اتنا کہنا چاہوں گا کہ آپ میلاد منائیں درود پڑھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم
کی ذات پر اور اپنی زندگی حضرت محمد صلی وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق
گزاریں اور دنیا اور آخرت میں کامیابی حاصل کریں
|