جمعہ نامہ : نبی کی محبت بڑی چیز ہے،خدا دے یہ دولت بڑی چیز ہے

ارشادِ ربانی ہے:’’بیشک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول (ﷺ) تشریف لائے۔ تمہارا تکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں (گزرتا) ہے۔ (اے لوگو!) وہ تمہارے لئے (بھلائی اور ہدایت کے) بڑے طالب و آرزو مند رہتے ہیں (اور) مومنوں کے لئے نہایت (ہی) شفیق بے حد رحم فرمانے والے ہیں‘‘۔ اللہ تبارک و تعالی ٰ نے نبی کریم ﷺکی یہ صفات بیان فرمائیں کیونکہ اپنے رسول کا بہترین تعارف مرسل ہی کراسکتا ہے۔ یہاں حال کا صیغہ استعمال ہوا ہے کیونکہ نبی مکرم ﷺ کی بعثت قیامت تک کے لیے ہے اس لحاظ آپؐ ہر فردِ بشر کی بھلائی وہدایت کے آرزومند ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ کی رحمت و شفقت کا ادراک و اعتراف کرنے والے اہل ایمان اپنے رسول مقبول سے بے شمار عقیدت و محبت رکھتے ہیں۔ فرمانِ قرآنیہے کہ :’’ (اے نبی مکرم!) آپ فرما دیں: اگر تمہارے باپ (دادا) اور تمہارے بیٹے (بیٹیاں) اور تمہارے بھائی (بہنیں) اور تمہاری بیویاں اور تمہارے (دیگر) رشتہ دار اور تمہارے اموال جو تم نے (محنت سے) کمائے اور تجارت و کاروبار جس کے نقصان سے تم ڈرتے رہتے ہو اور وہ مکانات جنہیں تم پسند کرتے ہو، تمہارے نزدیک اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکمِ (عذاب) لے آئے، اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں فرماتا‘‘۔اس ایمانی تقاضے کی وجہ سے مومنین کے قلوب میں عشقِ رسول ﷺ کا دریا ہمیشہ موجزن رہتا ہے اور وہ اس سے سیراب ہوتے رہتے ہیں ۔

نبی کریم ﷺ نے جس طرح اپنے صحابہؓ کو بشارتوں سے نوازہ اسی طرح ہم جیسے بعد میں آنے والوں کو بھی خوشخبری سنائی ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’خوشخبری اور مبارک باد ہو اس کے لیے جس نے مجھے دیکھا اور مجھ پر ایمان لایا، اور سات بار خوشخبری اور مبارک باد ہو اُس کے لیے جس نے مجھے نہیں دیکھا اور مجھ پر ایمان لایا‘‘۔اس عظیم سعادت کو سن کر اہل ایمان کا دل جھوم اٹھتا ہے۔ ایک مرتبہ حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہؐ! ہم سے بھی کوئی بہتر ہو گا؟ ہم آپ کی معیت میں ایمان لائے، اور آپ ہی کی معیت میں ہم نے جہاد کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں، وہ لوگ جو تمہارے بعد آئیں گے، وہ مجھ پر ایمان لائیں گے حالانکہ اُنہوں نے مجھے دیکھا بھی نہیں ہو گا‘‘۔ نبیؐ کی اس بشارت پرقربان جائیے ۔

پیارے نبیؐ نے بعد والے خوش بخت مسلمانوں کی یہ صفت بیان کی کہ :’’بے شک اس اُمت کے آخر میں ایسے لوگ ہوں گے جن کا اجر اُمت کے اولین کے برابر ہو گا۔ وہ نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے روکیں گے اور فتنہ پرور لوگوںسے جہاد کریں گے‘‘۔فرانس کے حالیہ واقعات کو اس تناظر میں دیکھنا چاہیے ۔ خودداراہل ایمان کسی شاتمِ رسول کے ذریعہ اظہار رائے کی آزادی کے بہانے اسنبیؐ کی اہانت کیسے برداشت کر سکتے ہیں کہ جس کی بابت خالق کائنات فرماتا ہے:’’اور ہم نے آپ کو تمام جہان والوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے‘‘۔قرآن حکیم میں رب کائنات نے رسول ؐ کے ہمنواوں کی بابت فرمایا:’’محمد (ﷺ) اﷲ کے رسول ہیں، اور جو لوگ آپ ؐکے ساتھ ہیں (وہ) کافروں پر بہت سخت اور زور آور ہیں آپس میں بہت نرم دل اور شفیق ہیں‘‘۔ یہاں یہ نہیں کہا گیا کہ جو لوگ آپﷺ کے ساتھ تھے بلکہ یہاں پران تمام اہل ایمان کا احاطہ کیا گیا ہےجو اپنے نبیؐ کی محبت میں ناموسِ رسالت کو توہین برداشت نہیں کریں گے۔اس کی ایک مثال فرانس میں سامنے آئی ۔ مومن کی یہی صفت کلام اقبال اس طرح نظر آتی ہے کہ ؎
ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق باطل ہو تو فولاد ہے مومن
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1227114 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.