بستی،بستے بستے بستی ہے

بسم اللہ الرحمن الرحیم

یہ ایک عجیب داستان ہے ۔خلوص اور محبت کی اس کہانی ....ہمدردی اور خیر خواہی کے اس قصے.... اخلاصِ نیت اور سعی پیہم کے کرشموں پر مبنی اس کہانی کا آغاز 8اکتوبر 2005ءسے ہوتا ہے۔ 8اکتوبر 2005ءکا دن بھی عجیب دن تھا ۔ آج بھی جب اس دن کا خیال آتا ہے تو بدن میں ایک جھرجھری سی آجاتی ہے ،غم کی ایک لہر اور درد کی ایک ہوک سی سینے سے اٹھتی ہوئی محسوس ہوتی ہے ۔اس دن کے قیامت خیز زلزلے کے صرف دو دن بعد ہم امدادی کارکنوں اور اخبار نویسوں کی ایک ٹیم کے ہمراہ بالاکوٹ میں تھے ۔ آج بھی انسان جب اس وقت کا تصور کرتا ہے تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ہر طرف تباہی کے مناظر ،کھنڈرات میں بدلے کوچہ وبازار ،ملبے کا ڈھیر بنی بستیاں ،لٹے پٹے لوگ ،بے خانماں خاندان ،بکھری پڑی نعشیں ،کراہتے ہوئے زخمی ،اپنے پیاروں کی جدائی کے غم میں ہلکان پسماندگان اور اوپر سے زلزلے کے مسلسل جھٹکے ....ہم نے بالاکوٹ میں وہ چند دن اور راتیں عجیب کیفیات میں گزاریں ۔کبھی لوگوں کے دکھڑے رلا دیتے اور گاہے زلزلے کے جھٹکے دل دہلا دیتے .... کبھی کسی ایسے خاندان سے واسطہ پڑتا جو لاکھوں کروڑوں کی جمع پونجی زلزلے کی نذر ہوجانے کے بعد اب ایک ترپال کو تر س رہا ہوتا اور کبھی کوئی ایسا نوجوان ملتا جو اپنے ہاتھوں سے اپنے دسیوں اعزہ واقربا کو قبروں میں اتارکر تھکا ہارا انجان منزلوں کی طرف عازمِ سفر ہوتا۔

اسلام آبا دکے قلب جی ایٹ میں واقع مسجد ابوذر غفاری ؓ کے خطیب مولانا عبدالسلام جلالی بھی بالاکوٹ کے انہیں لوگوں میں سے تھے جن کے گھر گر گئے تھے ،کنبہ وقبیلہ بکھر گیا تھا ،قریبی عزیز آخرت کے سفر پر چل نکلے تھے ،مال مویشی ملبے تلے دب گئے تھے ۔خاموش مزاج اور جوان سال مولانا عبدالسلام جب بالاکوٹ سے واپس لوٹے تو انہیں عجیب سی چپ لگی ہوئی تھی ،ان کے چہرے پر بلا کی اداسی نے ڈیرے ڈال رکھے تھے ۔لوگ انہیں دیکھ کر پریشان ہوگئے ۔انہوںنے بالاکوٹ سے واپسی پر جب پہلی نماز پڑھائی تو نماز کے بعد ان کی مسجد میں صحرا کا سا سکو ت تھا ،ایک نمازی نے یہ سکوت توڑتے ہوئے پوچھا ”مولانا !کیا گزری ؟“مولانا نے جب اپنی آپ بیتی سنائی تولوگوں کی آنکھیں بھیگ گئیں ۔وہ لوگ مولانا کے ساتھ تعاون کرنا چاہتے تھے لیکن اپنی ذات کے حوالے سے خوددار اوردوسروں کے غمخوار مولانا عبدالسلام نے اپنی ذات اور اپنے گھرانے کے لیے تعاون وصول کرنا گوارہ کیا نہ مناسب سمجھا۔وہ خاموشی سے اٹھے اور قریب ہی واقع ٹیپو مارکیٹ کی مسجد اسامہ کے خطیب ولی کامل مولانا قاسم منصور کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔مولانا قاسم بھی متاثرین زلزلہ میں سے تھے مگر صابر وشاکر،تسلیم ورضا کا پیکر ....مولانا عبدالسلام نے ان سے گزارش کی کہ ہمارے محلے کے ساتھی تعاون کرنے کے خواہاں ہیں لیکن انفرادی تعاون قبول کرنے کی بجائے ہمیں کوئی اجتماعی نظم بنانا چاہیے جس میں ہمارے باقی بہن بھائیوں کا بھی بھلا ہو جائے ۔مولانا قاسم منصور درویش منش اور گوشہ نشین بزرگ ہیں انہوں نے پہلے تو مولاناعبدالسلام کو صبر شکر کی تلقین کی اور دعاؤں کا اہتمام کرنے کا درس دیا لیکن پھر مولانا کی دل جوئی کے لیے انہیں ساتھ لیا اور لال مسجد میں مولانا عبدالعزیز اور مولانا عبدالرشید غازی کی خدمت میں جا پہنچے ۔دنیاجہاں کے درد اپنے دلوں میں پالنے اور دکھی لوگوں کو سینے سے لگانے والے غازی برادران نے ان حضرات کو تسلی بھی دی ،ان کی حوصلہ افزائی بھی کی اور خانقاہوں اور مساجد سے نکل کر خدمت ِخلق کا فریضہ سرانجام دینے کی ضرورت واہمیت کا احساس بھی دلایا ۔

مولانا عبدالعزیز نے کچھ خیمے اور دیگر امدادی سامان دیا ،کچھ تعاون ان دونوں حضرات کی مساجد کے احباب نے کیا اور پھر یہ حضرات بالاکوٹ کی طرف چل نکلے۔مانسہرہ کے قریب ایک جگہ وہ خیمے نصب کیے ۔کئی دنوں سے کھلے آسمان تلے پڑے متاثرین زلزلہ رفتہ رفتہ ان خیموں میں آتے گئے اور ایک خیمہ بستی آباد ہو گئی ۔خیمے لگا لینا تو آسان تھا لیکن زخموں سے چور،غموں اور دکھوں کی وادیوں سے گزر کر آنے والے ان خانماں برباد اورتہی دست لوگوں کی معاونت ،کفالت اور بحالی ایک بہت بڑا چیلنج تھا ۔مولانا عبدالسلام نے اپنے علاقے کے اکابر اور ممتاز علماءکرام سے گزارش کر کے انہیں ایک مرتبہ پھر اپنی مسجد میں مشاورت کے لیے جمع کیا ،اب کی بار تنہا سفر کا آغاز کرنے والے مولانا عبدالسلام اور ان کی سرپرستی کرنے والے مولانا محمدقاسم منصور کے قافلے میں درد دل رکھنے والے چار مزید جیدعلماءکرام شیخ الحدیث مولانا محمددل پذیر ،مولانا عبدالباقی ،مولانا میاں محمد نقشبندی اور مولانا قاری عزیز الرحمن جلالی مرحوم بھی شامل ہو چکے تھے ۔مشاورت کے دوران ان حضرات کو کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ اپنے آپ کو سنبھالیں یا دوسروں کو تسلی دیں....اپنے بچوں کی فکر کریں یا دوسروں کی مددکریں ....آخر انہوں نے بے بسی سے اللہ رب العزت سے مدد مانگنے اور دعاؤ ں کا اہتمام کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی بساط کے مطابق کوششیں جاری رکھنے کا تہیہ کیا ۔قدرت نے ان حضرات کے اخلاص وللہیت اور فکر مندی کی برکت سے ان کے لیے راستے کھولنے شروع کردئیے ۔پہلے مرحلے میں وقتی اور فوری ضروریات کا انتظام کرنے کی کوشش کی گئی اور ساتھ ساتھ ان متاثرین کی مستقل بحالی کے حوالے سے بھی مشاورت کا عمل شروع کردیا گیا ۔رفتہ رفتہ اس کارواں میں دیگر لوگ بھی شامل ہو تے گئے بالخصوص مولانا عبدالسلام کے چچا زاد بھائی حاجی غلام نبی اس فلاحی ورفاہی کام میں شمولیت کے بعد اس کے روح رواں بن گئے ۔حاجی غلام نبی ایک عرصے سے معاشی ضروریات کی وجہ سے متحدہ عرب امارات میں مقیم ہیں ۔اسے اللہ کی نصرت کہیے اور اس کا م کاآغاز کرنے والوں کے اخلاص کا کرشمہ قرار ددیجیے کہ حاجی غلام نبی کایو اے ای کی انجمن ہلالِ احمر سے رابطہ ہو گیا ۔انہوں نے سارے حالات وواقعات سے ہلال احمر کے دوستوں کو آگاہ کیا تو انہوں نے خیموں میں پڑے ان لوگوں کے لیے مکانات بنانے کا وعدہ کر لیا ۔یہ خبر سن کر لوگ بڑے خوش ہوئے لیکن وہ وعدہ اتنا جلدی کہاں وفاہوتا؟ ۔عملی کاموں کا جب آغاز کیا گیا تو معلوم ہوا کہ اس قسم کے منصوبوں کی تکمیل کے لیے عجیب وغریب نشیب وفراز اور مسائل ومشکلات سے دوچار ہونا پڑتا ہے ۔لیکن اللہ کی مدد ونصرت اور اخلاص وہمدردی کا زادِ راہ لیے یہ حضرات اپنی دھن میں مگن رہے۔حاجی غلام نبی کی کوششوں سے یو اے ای کے دوستوں نے پہلے دوسو اور پھر پانچ سو مکانات بنا کر دینے کی ہامی بھری لیکن اس کے لیے تمام کاغذی اور قانونی کاروائی مکمل کرنے کی شرط عائد کر دی۔سب سے پہلا مرحلہ رجسٹریشن کا تھا چنانچہ” تعمیر وترقی برائے متاثرین زلزلہ“ کے نام سے ایک رفاہی ادارہ رجسٹر ڈ کروایا گیا ۔پھرہلال احمر کی شرائط کے مطابق جگہ کی تلاش کا عمل شروع ہوا ،جگہ کا انتخا ب ہو گیا تو یہ صورت سامنے آئی کہ پلاٹ لوگ خود خریدیں گے مکانات کی تعمیر ”تعمیر وترقی برائے متاثرین زلزلہ“ اور ہلال احمر یو اے ای کے باہمی اشتراک سے ہو گی ۔5مرلہ پلاٹ کی قیمت صرف پچھترہزار(750000)روپے مقرر ہوئی لیکن متاثرین زلزلہ میں سے اکثر کے پاس یہ پچھتر ہزار روپے بھی نہ تھے۔ بڑی مشکل سے صرف دو سو دس گھرانے اپنے لیے پلاٹ خریدنے میں کامیاب ہوئے اور یوں پانچ سو کی جگہ دو سو دس مکانات کی تعمیر کا حتمی فیصلہ ہوا ۔لیکن تعمیر کا عمل شروع کرنے سے قبل ایرا سے این اوسی ،نیسپاک سے منظوری ،نقشوں کی تیاری اور منظوری سمیت نجانے کیا کیاپاپڑ بیلنے پڑے اور یوں دوسال کا طویل عرصہ اسی صبر آزما جدوجہد میں گزر گیا ۔ یہ تو بھلا ہو تمام سرکاری اداروں کے افسران اور اہلکاروں کا کہ ان کے تعاون سے کافی سہولت ہو گئی مگر پھر بھی عجیب غیر یقینی سی صورتحال تھی ۔لوگوں کی سوالیہ نظریں ،دفاتر کے چکر ،یو اے ای کے احباب سے مسلسل رابطہ کاری ،لوگوں کی عارضی رہائش اور ضروریات کا انتظام اور عجیب بات یہ کہ اس سب تگ ودَو کے لیے نہ کوئی فنڈ تھا ، نہ ہی این جی اوز کی طرح چمچماتی ہوئی گاڑیاں اور بھاری بھرکم تنخواہیں ....لیکن بالآخر اللہ نے ان حضرات کو کامیابی سے ہمکنار فرمایا اورہلالِ احمر کی طرف سے مبلغ اٹھائیس کروڑ روپے کا بجٹ منظور ہو گیا ۔پھر جب تعمیر کا کام شروع ہواتواس کی الگ مشکلات ....تعمیراتی کام انسان کو بوڑھاکر دیتا ہے ....آدمی اپنا ایک گھر بنانا چاہے تو کمر دوہری ہو جاتی ہے اور یہاں تو دو سو دس مکانات ،عالیشان مسجد،اسکول اور ہسپتال پر مشتمل باقاعدہ ایک شہر بسانا تھا تو خود اندازہ کیجیے کہ کن کن کٹھن مراحل سے گزرنا پڑاہو گا ۔اللہ کی دی ہوئی توفیق سے یہ حضرات تعمیر کے اس مرحلے سے بھی گزر آئے ہیں اور اب گڑھی حبیب اللہ ،مانسہرہ شہرسے ملحق بریڑی اور مسوال نامی تین مقامات پر مجموعی طور پر دو سو دس مکانات، عالیشان مسجد ،اسکول اور ہسپتال بالکل تیار ہیں اور چند دنوں بعد تین کمروں اور کچن باتھ پر مشتمل پانچ پانچ مرلہ مکمل پکے مکانات کی چابیاں متاثرین زلزلہ میں تقسیم کی جائیں گی ۔اس وقت اگر ان میں سے ایک ایک مکان کی قیمت لگائی جائے تو تقریباً ایک ایک مکان دس سے پندرہ لاکھ روپے مالیت کا ہو گا یہ تمام مکانات متاثرین زلزلہ کو بالکل مفت مل جائیں گے ۔انشااللہ

image

پہاڑوں کے دامن اور دریائے کنہار کی وادی گڑھی حبیب اللہ میں” خلیفہ سٹی“ کے نام سے بسنے والے اس شہر میں جا کر انسان ورطہ حیرت میں ڈوب جاتا ہے،دل باغ باغ ہو جاتا ہے ....زلزلے کے بعد کے مناظر نگاہوں کے سامنے گھومنے لگتے ہیں ،خوشی اور غم کی دھوپ چھاؤں کا صحیح مفہوم سمجھ آتا ہے ۔آدمی سوچتا ہے یہ بستی بسانے کے لیے مالی تعاون کرنے اور عملی طورپر بھاگ دوڑ کرنے والے لوگ کتنے خوش نصیب ہیں،انہوں نے اپنے لیے کتنے بڑے صدقہ جاریہ کا بندوبست کر لیا ۔پانچ سالوں سے دَر دَر کی ٹھوکریں کھانے والے ،خیمہ بستیوں میں سردیوں گرمیوں کے دن کاٹنے والے بے وسیلہ لوگ اور ان کے بچے بچیاں جب اس شہر میں آکر آباد ہوں گے تو ان لوگوں کے دلوں سے بلکہ ان کی آنے والی نسلوں کے دلوں سے کتنی دعائیں نکلیں گی ؟اٹھائیس کروڑ روپے کی خطیر رقم متاثرین زلزلہ کی بحالی اور آباد کاری کے لیے جن علماء کرام کے ہاتھوں سے ہو کر گزری ان کا اپنا حال یہ ہے کہ وہ سب آج بھی اپنی اپنی مساجد سے ملحقہ حجروں اور کوارٹروں میں اقامت پذیر ہیں اور پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرتے ہیں ....اللہ ہمارے متحدہ عرب امارات کے بھائیوں ، ان علماءکرام اور ان کے رفقاءبالخصوص مولانا یونس جلالی ،مولانا سید عالم اور مفتی عبدالمجید کو اپنی شان کے مطابق اجر جزیل نصیب فرمائے اور ان کی مساعی کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے ۔آمین

image
Abdul Quddoos Muhammadi
About the Author: Abdul Quddoos Muhammadi Read More Articles by Abdul Quddoos Muhammadi: 120 Articles with 130120 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.