’لو جہاد‘ کی اصطلاح اس مکاری سے وضع کی گئی ہے کہ اس کو
سنتے ہی ایک ایسے جوڑے کا تصور ذہن میں آ جاتا ہے کہ جس میں ایک بھولی
بھالی ہندولڑکی کو کسی شاطر مسلمان نے زور زبردستی کرکے ورغلالیا ہو۔
اترپردیش کے وزیراعلی یوگی آدتیہ ناتھ چونکہ خود بال برہما چاری ہیں اس
لیے یہ موضوع ان کی خاص دلچسپی کا ہے۔ اس کے خلافانہوں نے ایک زمانے میں
رومیو بریگیڈ بنا ئی تھی اب قانون بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ عوام کے
جذبات بھڑکانے کی خاطریوگی جی کو اکثر لوجہاد کی یاد آجاتی ہے ۔ اسی طرح
کی ضرورت گزشتہ ہفتہ انہیں جونپور کے ایک انتخابی ریلی میں پیش آئی ۔ اپنے
خطاب میں وہ بولے ان کی حکومت ’لو جہاد‘ کی روک تھام کے لئے سخت قدم اٹھائے
گی۔ انہوں نے متنبہکیا کہ اگر روپ بدل کر بہن؍بیٹیوں کی عزت کے ساتھ کھلواڑ
کرنے والے نہیں سدھرے تو ان کی ’رام نام ستیہ ہے‘ کی یاترا نکلنے والی ہے۔
یہاں تک تو سب ٹھیک تھا لیکن پھر انہوں نے الہ آباد ہائی کورٹ کے حالیہ
فیصلے کا حوالہ دے دیا جس میں شادی کے لئے مذہب کی تبدیلی کو غیرقانونی
قرار دیا گیا تھا۔ یوگی نے کہا اس پر سختی سے عمل کیا جائے گا اور جلد ہی
اس کے لئے موثر قانون بنایا جائے گا۔یوگی ادیتیہ ناتھ نے شاید الہ آباد
ہائی کورٹ کے فیصلے کی تفصیل نہیں دیکھی کیونکہ وہ تو لوجہاد کے بجائے پریم
یدھ کاخلاف ہے۔ اس دھرم یدھ کا شکار ہونے والی پریانشی کا پرانا نام سمرین
تھا ۔ اس نے اپنی شادی سے ایک ماہ قبل ترک اسلام کرکے ہندو مذہب قبول کیا
اور 31 جولائی کو شادی کرلی ۔ عدالت کے مطابق اس ریکارڈ سے یہ واضح ہوتا ہے
کہ شادی کے لیے تبدیلی ٔ مذہب کا عمل کیا گیا ۔ کوئی مقرر اگر یہ تفصیل اس
جلسہ میں بیان کردیتا تو وہاں موجود سامعین یوگی ادیتیہ ناتھ کو ہندووں کا
مخالف قرار دے کر ان کے خلاف ’ہیٹ جہاد‘ شروع کردیتے لیکن جیسا راجہ ویسی
پرجا۔ وہاں نہ تو بولنے والا جانتا تھا کہ کیا کہہ رہا ہے اور نہ سننے والے
جانتے تھے کہ کیا کہا جارہا ہے۔ اپنے رہنما کی ڈھینچوں ڈھینچوں پر مجمع
نندی بیل کی مانند سر ہلا رہا تھا۔
سچ تو یہ ہے کہ اس سانحہ کا مذہب یا جہاد سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔ ان
معاملات میں عام طور پر حرص و ہوس کے پجاری مادر پدر آزاد لوگ ملوث ہوتے
ہیں ۔ ان میں کبھی لڑکی ہندو ہوتی ہے کبھی مسلمان اور یہی حال لڑکوں کا
ہوتا کہ جن کو اپنے دین و مذہب میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ عام طور پر اسے
سازش سے تعبیر کیا جاتا ہے جبکہ اس کا تعلق تعلیم و تربیت سے ہے ۔ ابتداء
سے ہی اگربچوں کی نگہداشت درست انداز میں کی جائے تو وہ کسی کے جھانسے میں
نہیں آئیں گے ورنہ بغیر ورغلائے ازخود پھسل جائیں گے ۔ یوگی ادیتیہ ناتھ
اگر ذہین ہوتے تو الہ باد ہائی کورٹ کے بجائے فرید آباد کے بلبھ گڑھ کی
مثال دیتے جہاں انکیتا نامی طالبہ کو اس کے عاشق توصیف نے سرے عام گولی مار
کر قتل کردیا۔ توصیف اور اس کے ساتھی ریحان کی یہ ظالمانہ حرکت سی سی ٹی وی
کے کیمرے میں قید ہوگئی اور دونوں کو گرفتار کرلیا گیا ۔
اس معاملے میں نام نہاد ’لوجہاد‘ کے سارے اجزائے ترکیبی موجود ہیں حالانکہ
اس کا نہ جہاد جیسی مقدس عبادت سے کوئی تعلق ہے اور نہ اس میں لو(محبت)کی
کوئی رمق ہے ورنہ انکیتا کے انکار پر اسے گولی مارنے کے بجائے توصیف خود کو
ہلاک کرلیتا ۔ اس لیے کہ محبت کی ساری لافانی داستانوں میں یہی پڑھنے کو
ملتا ہے۔ فسطائی ذہنیت کے حامل لوگ اس طرح کے سانحہ کا ہاتھرس سے موازنہ
کرکے سوال اٹھاتے ہیں کہ اس پر احتجاج کیوں نہیں ہوتا؟ اس کی کئی وجوہات
ہیں ۔ اول تو انتظامیہ کی جانب سے اس طرح کی مجرمانہ کارروائی کو چھپانے یا
دبانے کی کوشش نہیں کی جاتی جیسا کہ ہاتھرس کے معاملے میں ہوا۔ دوسرے مظلوم
خاندان کو ڈرایا ، دھمکایا نہیں جاتا ۔ ان کو آخری رسومات کے حق سے محروم
نہیں کیا جاتا ۔ لڑکی کی کردار کشی نہیں کی جاتی بلکہ اس سے اور پسماندگان
سے ہمدردی کا اظہار کیا جاتا ہے۔
احتجاج نہ ہونے کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ مجرمین کو بچانے کے لیے اس کی
قوم میدان میں نہیں اترتی ۔ ہاتھرس میں ٹھاکروں کی پنچایتمیں ظالموں کی پشت
پناہی کی گئی یا کھٹوعہ کے معاملے میں عدالت سے لے کر سڑکوں تک احتجاج کرکے
مجرموں کو بچانے کی سعی کی گئی ۔ عوام کو چونکہ اطمینان ہوتا ہے کہ مجرم کو
قرار واقعی سزا ملے گی اس لیے مظاہرے کی ضرورت پیش نہیں آتی ،لیکن
اگرحکومت اور انتظامیہ اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں کوتاہی برتے۔ وہ ظالموں
کی طرفدار بن جائے اور عدل وانصاف کا امکان مفقود ہوجائے تو احتجاج کرنا
پڑتا ہے۔ یہ ساری جدوجہد سرکار کو اپنی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے مجبور
کرنے کی خاطر ہوتی ہے اور یہ کام عوام کے ساتھ عدلیہ بھی کرتی ہے جیسا کہ
ہاتھرس کے معاملے میں ہوا ۔
اس موقع پر ہندوستان کے سابق سالیسٹر جنرل ہریش سالوے کی حالیہ شادی کا ذکر
دلچسپی سے خالی نہیں ہے ۔ ہریش سالوے بی جے پی کو بہت عزیز ہیں۔ سچن پائلٹ
سے لے کر ارنب تک کو بچانے کے لیے ان کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔ ان کی عمر
65 سال ہے اور انہوں نے 56سالہ کیرولن سےبیاہ رچا یا ۔ وہ دونوں طلاق شدہ
ہیں ۔ ہریش سالوے نے اسی سال اپنی پہلی بیوی میناکشی کو طلاق دے دی تھی ۔
ہریش سالوے کی میناکشی سے دوبیٹیاں اور کیرولن کی اپنےسابقہ شوہر سے ایک
بیٹی ہے۔ اپنا آبائی مذہب ترک کرکے عیسائی مذہب اختیار کرنے والےہریش
سالوے کی کیرولن سےشادی عیسائی مذہب کے مطابق چرچ میں ہوئی ۔ اب اگر سالوے
کی بیٹی ساکشی الہ باد ہائی کورٹ سے رجوع کرکے دہائی دے کہ ان کے والد نے
شادی کرنے کے لیے اول تو اپنی بیوی کو طلاق دی اور اس کے بعد اپنا مذہب
تبدیل کردیا ہے تو الہ باد کی عدالت کیا فیصلہ کرے گی ؟ نیز یوگی جی شادی
کے لیے ہندو دھرم کو چھوڑ کر عیسائیت اختیار کرنے والےہریش سالوےکا’ رام
نام ستیہ ہے‘ کریں گے یا ان کے سامنے دبک کر بیٹھ جائیں گے؟
اتر پردیش کا المیہ یہ ہے کہ وہاں وزیر اعلیٰ کی ترجیحات درست نہیں ہیں ۔
وہ اپنا ساری توجہ ا ور وقت غیر ضروری ا مور پر صرف کردیتا ہے۔ اس کا ثبوت
’گُڈ گورننس ‘ کی حالیہ رپورٹ ہے ۔ مایہ ناز قومی ادارہ اسرو کے پدم وبھوشن
اعزاز یافتہ سابق صدر کستوری رنگن فی الحال بنگلورو میں پبلک افیئر
کمیٹی(پی اے سی) کے سربراہ ہیں۔ یہ ادارہ عدل، ترقی اور استحکام کی کسوٹی
پر مختلف ریاستوں کی کارکردگی کا جائزہ لیتا ہے۔ ابھی حال میں’پی اے سی‘ نے
عوامی امور انڈیکس 2020 کے اعدادوشمار جاری کیے ہیں ۔اس رپورٹ کے مطابق
یوگی کے اترپردیش ملک کے بڑے صوبوں میں سب سے نچلی پائیدان پر ہے ۔ اس
رپورٹ کے مطابق جنوب کی ریاستیں زیادہ منظم ہیں۔ پہلے پانچ صوبوں میں
کیرالہ، تمل ناڈو، آندھرا پردیش اور چھتیس گڑھ کو رکھا گیا ہے۔ اس کے
برعکس سب سے نیچے یوپی اور اس سے ٹھیک اوپر بالترتیب اڑیسہ اور بہارکا نام
آتا ہے۔ ایسے میں یوگی ادیتیہ ناتھ کا بہار میں جاکر لالو یادو کے جنگل
راج پر پروچن دینا مضحکہ خیز نہیں تو کیا ہے ؟ اس تحقیقی رپورٹ کی روشنی
میں ’ آج تک چینل‘ کا یوگی ادیتیہ ناتھ کو ملک کا سب سے مقبول وزیر اعلیٰ
قرار دیا جانا یہ ثابت کرتا ہےملک کا میڈیا پوری طرح بک چکا ہے ۔زرخرید پر
علامہ اقبال کا یہ شعر صادق آرہا ہے ؎
تھا جو ’ناخُوب‘، بتدریج وہی ’خُوب‘ ہُوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
|