بے نیازی

خالق ِ کائنات جب کسی خطے پر مہربان ہو تا ہے تو وہاں پر غیر معمولی صفا ت کے حامل شخص کو سورج کی طرح طلوع کر تا ہے اور پھر اس غیر معمولی انسان کے کر دار اور علم کے نور سے جہا لت میں غرق انسانیت صدیوں پر انے رنگ و نور میں ڈھالتی ہے خوش قسمت ہو تے ہیں وہ لو گ یا خطہ جہاں خدا ئے بزرگ بر تر ایسے انسانوں کو انعام کے طو ر پر دنیا ہے ایسا ہی ایک دور یو نان پر بھی آیا جب یونان دنیا بھر کی فکری و تہذیبی سیا سی و عسکری اما مت کے منصب پر فائز تھا یو نان میں ایک سے بڑھ کر ایک غیر معمولی انسان پیدا ہو رہا تھا اِن میں سیا ستدان مفکر جنگجو فلا سفر ریا ضی دان اور صوفی ایک سے بڑھ کر ایک انسان شامل تھا اور پھر خدا نے تا ریخ انسانی کا بے نیاز اور متو کل انسان پیدا کیا دیو جانس کلبی افسانوی شہرت کا حامل مجذوب فلسفی وہ آنکھوں سے محروم لیکن دل و دما غ سے روشن تھا اس کا ساتھی ایک کتا تھا جو اس کی راہنما ئی کر تا اسی وجہ سے لوگ اسے کلبی کہتے تھے اس کی زندگی کے شب و روز زیا دہ تر غور و فکر بے خو دی کے عالم میں گزرتے وہ اپنے من میں جھا نکنے کا آرٹ جانتا تھا اس نے من کی دنیا کو دریا فت کر لیا تھا وہ دنیا میں رہتا ضرور تھا لیکن دنیا اس میں نہیں تھی نہ خود مجلس آرانی کر تا اور نہ ہی کسی محفل کی رونق بنتا وہ اپنی تنہا ئی سے انجمن کا لطف لیتا وہ جذب کی مستی سے سرور لیتا ہر وقت عالم ِ جذب و کیف کا لطف اٹھا تا ایک مٹی کا ٹب تھا جو اس کا گھر تھا اسی ٹب میں بیٹھے بیٹھے زندگی گزار دی اگر کو ئی چل کر آجا تا تو اسے دانش و حکمت کا نور عطا کر دیتا ورنہ کسی کو بلا کر اپنے علمی مقا م و مرتبے سے روشنا س کر نے کی حما قت نہ کر تا اس کے ہر عمل سے بے غرضی بے نیازی ہی چھلکتی تھی ایک دن دوپہر کے وقت ہاتھ میں چراغ لے کر شہر کی گلیوں میں گھوم رہا تھا کسی نے دریافت کیا تو بو لا میں انسانوں کے ہجوم میں حقیقی انسان کو تلاش کر رہا ہوں یہی وہ دور تھا جب ارسطو نے انسان کے با رے میں اپنا مشہو ر فلسفہ دیا تھا ارسطو کے بقول انسان ایسا جانور ہے جو دو ٹانگوں پر چلتا ہے اور اس کی قامت سیدھی ہے کیونکہ یہ علمی بیداری کا دور تھا اِس لیے ارسطو کا یہ فلسفہ شہر کے کو نے کو نے میں گو نج رہا تھا جہاں دو لو گ جمع ہو ں وہ ارسطو کے اِس فلسفے پر بات شروع کر دیتے ارسطو کے علم کے چرچے ہر زبان پر تھے ایک دن بے نیاز مجذوب ارسطو کی محفل میں آیا سامنے بیٹھا ایک مر غ نکالا مرغ کو زمین پر کھڑا کیا مر غ کی ٹانگیں زمین پر لگا ئیں دوسرے ہا تھ سے مرغ کی گر دن پکڑ کر اس کی چونچ کو کھینچ کر اوپر کی طرف کیا اور کہا یہ ہے تمہا را انسان کیونکہ دیو جانس کلبی کا قلب و باطن روشن ہو چکا تھا اِس لیے وہ کسی حد تک تو حید پر ست بھی تھا اس کے بقول کائنات کی تما م چیزیں دیو تا ں نے بنا ئی ہیں تو ان دیوتا ں کو کس نے بنا یا ہے جس نے اِن دیو تا ں کو بنا یا ہے وہ دراصل اِس کا ئنات کا حقیقی اکلو تا خا لق ہے اور میں اسی خالق و مالک کو مانتا ہوں حقیقی خو شی کے بارے میں کلبی کا خیال یہ تھا کہ ما دیت پر ستی میں آپ جتنا غر ق ہو تے جائیں گے اتنے ہی آپ حقیقی با طنی خو شی سے محروم ہو تے جائیں گے دنیا اور دنیا کا مال انسان کو حقیقی خو شی چھین لیتا ہے اگر انسان حقیقی خو شی سے ہمکنا ر ہو نا چاہتا ہے تو اسے دنیا اور دنیا کی دولت سے کنا رہ کشی اختیا ر کر نی ہو گی انسان کی خو شی کا تعلق اس کی آزادی بے نیازی سے ہے ہما رے بیو ی بچے گھر بار رشتے دار لو گ قوانین ضابطے رسم و رواج ہی ہما ری خو شی کے راستے میں رکا وٹ ہیں انسان اگر حقیقی آزادی اور خو شی چاہتا ہے تو اسے اِن سب سے آزادی حا صل کر نا ہو گی انہیں چھو ڑنا ہو گا انسان کی ضروریات بہت تھو ڑی ہیں لیکن انسان نے اپنی ضروریات کو بہت زیا دہ پھیلا لیا ہے حقیقی فاتح وہ نہیں جو اپنے اندر کے خوف کو شکست دے اپنے اندر کی رزائل کو ختم کر ے اپنے اند ر کی کثافت کو لطا فت میں بد ل دے کلبی نے دنیا سے کنا رہ کشی کے لیے جنگل میں رہا ئش اختیا رکر لی لوگوں سے پو چھا تمہیں جنگل کے جانوروں سے ڈر نہیں لگتا تو قہقہ لگا کر بو لا انسانوں کو انسان سے خطرہ ہے جانوروں سے نہیں انسان ایک دوسرے کے لیے زہر آلودہ ہیں اِن کے زہر سے بچو انسان کی درندگی ہزار درندوں پر بھا ری ہے دنیا سے بے نیازی کا یہ عالم تھا کہ صرف ایک مٹی کا پیالہ اس کے پاس تھا جس سے وہ پا نی پیتا اسی پیا لے کو پیٹ بنا لیتا ایک دن اپنے شاگرد کے ساتھ ندی پر پا نی پینے گیا وہا ں پر ایک جا نور آیاندی کے پا نی میں منہ رکھا پا نی پیا اور واپس چلا گیا شاگرد نے یہ سارا منظر اور جا نور کی حر کات اپنے محترم استاد کو بتائیں تو کلبی نے آہ بھری اور کہا اوتف ہو تم پر ایک جانور تو کل میں تم سے آگے بڑھ گیا ہے تم ابھی تک خو د کو ایک پیا لے کی محتا جی سے آزاد نہیں کر سکے اسی وقت پیا لا زمین پر ما ر کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے پیا لے کے ٹکڑے ندی میں پھینک کر پیا لے کی غلا می سے بھی آزاد ہو گیا دیو جانس کلبی بلا شبہ فطرت کا مسا فر تھا سارا دن جنگل میں گھو متا فطرت کے ساتھ زندگی گزا رتا شام کو اپنے کچے مٹی کے ٹب پر آکر لیٹ کر مراقب ہو جاتا مر اقبے کی لذت سے لطف اندوز ہو تا ایک شدید سردی میں سورج کی گر م کر نوں سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ شہر کا سرکا ری ہر کا رہ اس کے پا س آتا ہے اور اطلا ع دیتا ہے کہ سکندر پو ری دنیا کو فتح کر کے واپس آرہا ہے کلبی نے ادا ئے بے نیازی سے سنا مسکرایا اور ایسا فقرہ بو لا جو قیا مت تک اس کی پہچان بن گیا اسی ایک فقرے نے پانچ ہزار سال بعد بھی کلبی کو زندہ رکھا ہے اس نے کہا انسان قنا عت پسند ہو تو وہ مٹی کے ٹب میں بھی خوش رہ سکتا ہے اور اگر وہ لا لچی ہو جائے تو پو ری کا ئنات اگر اس کی جھو لی میں ڈال دی جا ئے تو وہ بھی کم ہے محترم قارئین آج جب وطن عزیز کے دولت مندوں اور حکمرانوں کو دیکھتا ہوں تو ان پر ترس آتا ہے جن کے پاس غلا موں کی فوج پروٹوکول گاڑیوں کی لمبی قطاریں شاہی محلوں جیسے بنگلے فارم ہاسز کروڑوں کے بنک اکانٹ سونے چاندی کے زیورات کی بھر مار دنیا جہاں کی ہر نعمت مو جود ہو نے با وجود کر پشن ختم نہیں ہو رہی لوٹ مار کا یہ سلسلہ پا گلوں کی طرح جا ری ہے یہی وہ لوگ ہیں جن کی آنکھیں اور معدے لا لچی مٹی سے بنے ہیں جو کبھی پر نہیں ہو نگے لیکن جو بے نیازی کی دولت سے سرفراز ہیں دنیا اور حکمران ان کے سامنے غلاموں کی طرح کھڑے نظر آتے ہیں فاتح عالم سکندر جس کی فتوحات کا ڈنکا پو ری دنیا میں بج رہا تھا زمین اس کے پا ں میں لپٹتی اور دنیا اس کے سامنے سمٹتی چلی گئی اس کے گھو ڑے کی ٹا پ سے زمین دھک اور تلوار کی آب سے دھرتی چمک رہی تھی وہ جب بھی یو نان آتا ایک با ر ضرور دیو جانس سے ملا قات کو جا تا کئی بار ملا قات نہ ہو تی ایک بار سکندر کلبی سے ملنے آیا تو شدید سردی کا موسم تھا کلبی اپنے ٹب میں عالم جذب میں دھو پ سے لطف اندوز ہو رہا تھا سکندر احتراما کھڑا ہو گیا کچھ باتیں کیں اور جانے سے پہلے درخواست کی اے استاد محترم اگر لائق کو ئی خدمت ہو تو حکم فرمائیے میں حکم بجا لا کر مسرت حاصل کر وں گا مجذوب وقت بے نیاز مفکر نے بے نیازی سے دیکھااور فاتح عالم سے کہا بس اتنی مہربانی کر دیجیے کہ آپ ذرا ایک طرف ہو جائیے آپ نے میری دھوپ روک رکھی ہے مجھے دھوپ سے لطف اندوز ہو نے دیں اس پر سکندر کی ندا مت اور خفت کا کیا عالم ہو گا بے نیازی وہ نعمت ہے جس کے پا نے سے انسان ہر چیز سے بے نیاز ہو جا تا ہے ۔
 

Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 805 Articles with 735762 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.