امن و امان اور افغان مہاجرین کی واپسی

1979 میں سابق سویِت یو نین نے افغانستان میں فوجیں داخل کیں تو اس یلغار سے بچنے کی خاطر لاکھوں افغانیوں نے پاکستان کا رخ کیا اور نہ صرف بڑے بڑے مہاجر کیمپ آباد ہو گئے بلکہ یہ مہاجر شہروں میں کرایوں پر گھر لے کر رہنے لگے اور کچھ نے تو، جو خوشحال لوگ تھے پشاور میں رہنے والے رشتہ داروں کے نام پر اپنے گھر بنا لیے اور یوں ان کی جائیداد یں بن گئیں ۔ایک بہت بڑی تعداد نے تجارت شروع کی جو آج بھی بڑی کامیابی سے چل رہی ہے اور کچھ نے دہاڑی مزدوری شروع کی یوں ہر شعبہ زندگی میں افغان مہاجرین نظر آنے لگے۔ اُس زمانے کے پرائیویٹ سکولوں میں افغان طلبہ کی ایک کافی بڑی تعداد نے داخلے لئے اور پاکستانی تعلیم حاصل کرتے ہوئے وہ پاکستانی طلبہ کے ساتھ ساتھ پڑھتے رہے اب ایک اور نسل ان کی جگہ لے چکی ہے اور وہ نسل اپنے سے پہلی نسل جو ہجرت کر کے آئی تھی کے کا روبار اور تجارت کو چلا رہی ہے یوں یہ افغان مہاجرین کی تیسری نسل ہے جو پاکستان میں رہ رہی ہے اور باوجود اسکے کہ ان میں سے اکثر کی زبان بھی پشتو ہے اور کچھ رسوم و رواج بھی مشترک ہیں لیکن ان کی پہچان آج بھی بڑی آسان ہے کیونکہ انہوں نے اپنا تشخص بڑی وضاحت سے برقرار رکھا ہوا ہے یہاں تک کہ اُن کے عروسی ملبوسات کی علیحدہ دکانیں ہیں اور الگ ریسٹورنٹ ہیں۔ یہاں تک تو کوئی حرج نہیں کہ وہ اپنے رسوم و رواج اور تشخص کو آج بھی سنبھالے ہوئے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان جو اپنے لوگوں کی کفالت میں مشکلات محسوس کرتا ہے اسکی معیشت لاکھوں مہاجرین کا بوجھ بھی اٹھائے ہو ئے ہیں جوکامیاب تجارت کے باوجود تا حال کوئی ٹیکس نہیں دے رہے ۔معیشت کے اوپر تو جو بوجھ پڑا ہوا ہے وہ توہے ہی انہیں کی موجودگی کی وجہ سے بہت سے دو سرے مسائل بھی جنم لے رہے ہیںجن میں سے آلودگی اور مہنگائی جیسے مسائل بھی شامل ہیں کیونکہ ایک شہر اپنی ہی آبادی جتنی ایک اور آبادی کو بھی اٹھائے ہو ئے ہے اور اِن سب سے بڑھ کر جو مسئلہ ہے اور جس نے پوری قوم کو ہلا کر رکھا ہوا ہے وہ ہے امن و امان ۔ ایسا ہر گز نہیں ہے کہ یہ تمام مہاجرین دہشت گرد یا شدت پسند ہیں ان کی ایک بڑی تعداد پڑھی لکھی اور شریف لوگوں پر مشتمل ہے لیکن ان کی موجودگی کی وجہ سے سرحد پار ﴿ڈیورنڈلائن﴾ سے نقل و حرکت مسلسل اور بڑے پیمانے پر جاری رہتی ہے یہ لوگ بڑی با قا عدگی سے افغانستان جاتے رہتے ہیں۔ اب وہاں سے واپسی پر یہ اپنے ساتھ کیا کچھ لے کر آتے ہیں انتہائی چیکنگ اور احتیاط کی جائے تو بھی یہ ممکن نہیں کہ ان کے ساتھ آنے والی ممنوعہ اور خطرناک اشیا کی آمد کو روکا جا سکے ۔ پھر پاکستان اور افغانستان کی ایک طویل مشترکہ سرحد ہے جو دشوار گزار راستوں اور پہاڑوں پر مشتمل ہے اور یہی دشوار گزاری دہشت گردی کے لیے جائے اماں بنی ہوئی ہے۔ ان راستوں اور علاقوں کے کو نوں کھدروں سے یہ لوگ واقف ہیں۔ پھر ہے بھی یہ آزاد قبائلی علاقہ، جہاں پاکستانی قوانین بہت کم لاگو ہوتے ہیںدراصل یہ معاملہ دونوں ملکوں کی باہمی کوشش اور تعاون کے بغیر حل نہیں ہوسکتا۔ ایک اور پہلو اس مسئلے کا یہ بھی ہے کہ افغا نستان ہی کے راستے وسطی ایشیائی یعنی ازبک اور تاجک اور کچھ دیگر ریاستوں کے باشندے بھی پاکستان آکر اپنا ’’ شوق جہاد‘‘ پورا کرتے ہیں اب بات یہ ہے کہ غیر مسلم فوج افغانستان میں موجود ہے ان سے جنگ تو جہاد ہے پاکستان میں کیوں؟ صرف اس لیے کہ پاکستان کو غیر مستحکم کیا جائے اور یوں پاکستان کئی سالوں سے دہشت گردی کی زد میں ہے اب جبکہ امریکہ اور کرزئی دونوں یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ افغانستان پر ان کا مکمل کنٹرول ہے اور طالبان کمزور ہو چکے ہیں تو پھر انہیں چاہیئے کہ ان افغان مہاجرین کو اپنے وطن واپس لے جانے کے لئے اقداما ت کریں یہ سمجھ لینا کہ کیمپ خالی کروانے سے مہاجرین واپس چلے جائیں گے تو ایسا نہیں ہے کیونکہ ان مہاجرین کی آمد کے بعد پشاور اور اسکے مضافات میں بے تحا شا چھوٹے گھر بن چکے ہیں جو انہیں ارزاں نرخوں پر کرایے پر دستیاب ہیں لہٰذا یہ کیمپوں سے اٹھ کر ان گھروں میں چلے جاتے ہیں ۔ گزشتہ سال جولائی میں آنے والے سیلاب میں دنیا کا سب سے بڑا اضاخیل مہا جر کیمپ تباہ ہوگیا تو یہ پھر سے جی ٹی روڈ کے کنارے خیمہ بستیوں میں آباد ہو گئے ہیں یوں پھر ان تک امداد بڑی آسانی سے پہنچنے لگی ہے چونکہ پشاور افغان مہاجرین سے سب سے زیادہ متاثرہ شہر ہے اس لئے اس کا زیادہ ذکر کیا گیا لیکن یہ لوگ دوسرے شہروں میں بھی بڑی تعداد میں آباد ہیں اور مختلف پیشوں اور کاروبار سے منسلک ہونے کی وجہ سے ہمارے معاشرے کا حصہ بن چکے ہیں لیکن بہر حال پاکستان کی شہریت نہیں رکھتے۔

جب افغانستان مصیبت میں تھا تو پاکستان اور پاکستانیوں نے دل کھول کر ان کی مدد کی تھی اور اب بھی کر رہے ہیں لیکن بتیس سال سے یہاں رہنے والے ان لوگوں کی وجہ سے پاکستانی معیشت اور معاشرت نے بہت نقصان اٹھایا ہے معاشرت کے لیے میں صرف ایک مثال دوں گی۔ سیکنڈری بورڈ پشاور ایک صاف ستھرا اور رہنے کے لیے اچھاعلاقہ سمجھا جاتا تھا لیکن اب وہاں افغانیوں کے اتنے پر ہجوم بازار اور کاروبار ہیں کہ وہاں رہنا تو درکنار گزرنا بھی محال ہو جاتا ہے اور امن و امان کی تو جو صورت حال ہے اُس نے پاکستان کو قومی اور بین لاقوامی سطح پر جو نقصان پہنچایا ہے اگر ہم آج سے ہی بہتری کی طرف سفر شروع کردیں تو بھی ہمیں بیس تیس سال لگ جائیں گے کہ ہم اپنی صنعت، معیشت اور رسل و رسائل کو دوبارہ بین الاقوامی سطح پر لاسکیں ۔ نفسیاتی مسائل الگ ہیں خوف کی فضا ہر وقت طاری رہتی ہے۔کہیں پتا بھی کھڑک جائے تو دھماکے کا شک ہونے لگتا ہے ٹریفک سگنل پر ر ک جائیں تو گاڑیوں کے ہجوم کو دیکھ کر خوف آنے لگتا ہے کہ رش کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تخریب کاری نہ کردی جائے۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہوا کہ ہر مہاجر اس کا ذمہ دار نہیں ہے لیکن یہ بات ماننی پڑے گی کہ دہشت گرد اِن کی موجودگی کا فائدہ اٹھارہے ہیں اور بڑی آسانی سے اپنی کاروائیاں کر لیتے ہیں ۔ افغانستان پر جب بھی مشکل وقت آیا پاکستان اور پاکستانیوں نے مکمل طور پر اسلامی اخوت کا مظاہرہ کیا، انکی مدد کی اور پناہ دی لیکن اب خود ہمارے گھر میں جو آگ لگی ہوئی ہے یا لگائی گئی ہے ہمیں اسے بجھا نا ہے اور قومی سطح پر امن و امان اور بین الاقوامی سطح پر اپنی ساکھ بہتر کرنی ہوگی۔ ہم ا پنی پنتیس ہزار جانیں اس دہشت گردی کی نذر کر چکے ہیں یہ اعداد و شمار پچھلے دس سال کے ہیں اس سے پہلے کے بائیس سالوں کی تعداد اور تھی ۔ منشیات کا طوفان تب سے آکر ابھی تھما نہیں ۔ اس سب کچھ کے باوجود جناب کرزئی بھی فرمائش اور مطالبہ کر دیتے ہیں کہ پاکستان دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ختم کردیں جناب آپ ہماری طرف دہشت گرد برآمد کرنا بند کردیں تو خالی پناہ گاہیں آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گی۔ اپنے ملک میں امن و امان قائم کریں جو کہ آپ کے بقول ہے ۔ہم افغانوں کو کافی تربیت یافتہ کر چکے ہیں انہیں اپنے ملک لے جا کر افغانستان کی تعمیر نو میں اِن سے کام لیجئے اور امریکہ کو واپس بھیج دیجئے کیونکہ یہ جتنے بھی آپ کے مخالف ہوں افغان ہیں اور جتنی محبت یہ افغانستان سے کر سکتے ہیں امریکہ یا کوئی اور نہیں کر سکتا۔

افغان مہاجرین کی واپسی یقیناً پاکستان کو امن کی طرف پلٹانے میں بہت بڑا کردار ادا کر سکتی ہے لیکن یہ واپسی صرف کیمپوں کے انخلا تک محدود نہ ہو بلکہ شہروں سے بھی ہو۔ اِن مہاجرین کے نام پر آئے ہوئے این جی اوز کی سرگرمیوں کو بھی محدود کر دیا جائے اور اِن پر کڑی نظر رکھی جائے کہ ان میں کتنے منصوبہ ساز اور سرمایہ دار مددگار اِ ن دہشت گردوں کو امداد فراہم کر رہے ہیں کیونکہ جو کچھ ہو رہا ہے اور جس پیمانے پر ہو رہا ہے، گاڑیا ں اور اسلحہ جس طرح استعمال کیا جا رہا ہے یہ اُن غریب قبائل کے بس کی بات نہیں جو چند سال پہلے دو وقت کی روٹی بھی بمشکل کھاتے تھے اور عام قبائلی اب بھی وہی زندگی گزارنے پر مجبور ہے جو وہ پہلے گزارتا تھا۔

بہرحال افغان مہاجرین کی واپسی کے مسئلے کو سنجیدگی سے لینا ہوگا اور افغان حکومت، امریکہ اور باقی دنیا کو بھی احساس دلانا ہوگا کہ پاکستان اب بھی ایک بہت بڑا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے اور مہاجرین کو بھی اپنے ملک جلدازجلد واپس جانے پر راضی کرنا ہو گا اور وہاں اسے حالات پیدا کرنے ہونگے کہ یہ اپنا رزق روزی اسی طرح کما سکیں جیسے یہ پاکستان میں کما رہے ہیں اور انکی واپسی تک ان کی کار وائیوں پر کڑی اور مسلسل نظر بھی رکھنی ہوگی۔
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 552378 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.