یونیورسٹی آف چائنا سے فارغ التحصیل لوگوں
کی بہت بڑی تعداد پوسٹ ماؤ زیڈانک نسل سے تعلق رکھتی ہے۔ بیجنگ کے ہیڈیان
ڈسٹرکٹ میں ہر جمعہ کو سینکڑوں افراد انگریزی بول چال کے لیے پیپل کے درخت
کے نیچے خود ساختہ ”انگلش کارنر“ پر جمع ہوجاتے ہیں۔ گروپوں میں تقسیم ہو
کر وہ ایک دوسرے سے فٹ بال، موویز اور سیلبریٹیز مثلاً وکٹوریہ بیکھم اور
پیرس ہلٹن کے بارے میں بھونڈی انگریزی میں تاہم پُرجوش انداز میں بحث کرتے
ہیں۔امریکی جریدہ نیوز ویک کے مطابق وہ بعض شخصیات سے منسوب آسان نعرے جیسے
کہ 2008ءکی کمپین میں بارک اوباما نے کہا تھا کہ ”ہاں ہم کرسکتے ہیں“ (Yes,
we can) اور ہم تبدیلی میں یقین رکھ سکتے ہیں (Change we can believe in)
کو مختلف حوالوں سے دُہراتے ہیں۔
یہ مناظر چین کے مختلف کیمپسز پر دُہرائے جاتے ہیں، تعلیم یافتہ چینی
نوجوان انگریزی بولنے کے مواقع تلاش کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آج عالمی سطح
پر ہمیشہ سے زیادہ انگریزی بولی جاتی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق روئے
زمین پر 4 ارب افراد انگریزی بولتے ہیں۔ زمین پر دو تہائی افراد بہ شمول 40
کروڑ ایسے افراد بھی انگریزی بولتے ہیں جن کی مادری زبان یہی ہے۔ ایک ارب
37 کروڑ آبادی والے ملک میں 35 کروڑ افراد انگریزی کی ایک قسم بولتے ہیں۔
دنیا بھر میں دوسری زبان کی حیثیت سے انگریزی کا استعمال مستقل طور پر بڑھ
رہا ہے۔ تاہم اس کی ایک نئی شکل سامنے آرہی ہے، جو انتہائی سلیس، آسان اور
قابلِ فہم ہے۔ برطانیہ اور امریکی انداز سے قطعی مختلف انگریزی عالمی سطح
پر مقبول ہورہی ہے۔
2007ءمیں انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹریبون میں فرانسیسی بولنے والے آئی بی ایم کے
سابق انگزیکٹیو جین پال نیریئر کا ایک آرٹیکل شائع ہوا تھا، اُس نے انگریزی
کو دنیا بھر میں رابطہ کی سب سے بڑی زبان قرار دیا۔ نیریئر نے 1990ءکی
دہائی میں آئی بی ایم کی جانب سے جاپان میں خدمات انجام دیں۔ اُس نے یہ امر
خاص طور پر نوٹ کیا کہ مشرقِ بعید میں ایسے ایگزیکٹیوز اپنے کورین اور
جاپانی کلائنٹس سے امریکیوں اور برطانوی ایگزیکٹیو کے مقابلے میں زیادہ
کامیابی سے گفتگو کرتے ہیں جن کی مادی زبان انگریزی نہیں ہوتی۔
معیاری انگریزی بلاشبہ ایسے افراد مہارت کے ساتھ بولتے ہیں جن کی مادری
زبان ہی انگریزی ہے، تاہم ترقی پذیر ممالک میں وہ لوگ زیادہ کامیاب ہیں جن
کی مادری زبان انگریزی نہیں ہے۔ وہ اپنی گفتگو میں بھتیجے (Nephew) کے لیے
میرے بھائی کا بیٹا (Son of my brother) یا حلف (Oath) کے لیے ورڈز آف آنرز
(Words of Honor) استعمال کرتے ہیں۔ نیریئر اس آسان فہم زبان کو گلوبش قرار
دیتے ہیں جو کہ تیزی سے بین الاقوامی کمیونٹی میں فروغ پارہی ہے۔
ٹائمز کے صحافی بین میکنٹائر کا کہنا ہے کہ اس زبان میں گفتگو سننے کا
اتفاق اُس وقت ہوا جب وہ دہلی ایئرپورٹ پر بیٹھے ایک فلائٹ کا انتظار کررہے
تھے، یہ گفتگو اقوامِ متحدہ کی امن فوج میں تعینات ایک ہسپانوی فوجی اور
ایک انڈین فوجی سپاہی کے درمیان ہورہی تھی، انڈین کو ہسپانوی زبان بولنی
نہیں آتی تھی جب کہ ہسپانوی ہندی یا پنجابی نہیں بول سکتا تھا، تاہم گلوبش
میں وہ ایک دوسرے کو کامیابی کے ساتھ اپنا نقطہ نظر سمجھا رہے تھے۔ وہ جس
زبان میں گفتگو کررہے تھے وہ انگریزی کی آسان ترین شکل تھی۔ یہ زبان گرامر
اور اسٹرکچر کے دائرہ سے باہر تاہم انتہائی آسان فہم تھی۔ تب میں اس نتیجے
پر پہنچا کہ دونوں گلوبش زبان میں گفتگو کررہے ہیں جو کہ دنیا میں سب سے
زیادہ بولی جانے والی زبان بن گئی ہے۔ نیریئر کا کہنا تھا کہ گلوبش میں
ذخیرہ الفاظ صرف 1500 الفاظ پر مشتمل ہے۔
میکنٹائر کا کہنا ہے کہ برٹش انگریزی پوری 19ویں صدی میں دنیا بھر میں
چھائی رہی، قبل ازیں چوسر اور شیکسپیئر سے لے کر شاہ جیمس بائبل تک اور
بھارت میں راج کے قیام اور 1897ءمیں عظیم شہنشاہ کے دور میں بھی اس کا غلبہ
رہا۔ دنیا بھر میں لہراتا ہوا یونین جیک اس کا ایک سبب تھا۔ اپنے اس پہلے
مرحلے میں شہنشاہیت اور زبان کے درمیان گہرا رابطہ تھا۔ دوسرے مرحلے میں
انگریزی کی قوت اور اثر دوسری جنگِ عظیم میں ایجنسیوں کے ذریعے امریکا تک
پہنچ گیا۔ پھر سرد جنگ کے پورے دور میں اینگلو امریکن ثقافت دنیا پر حاوی
ہوگئی۔ ماس میڈیا، موویز، اخبارات اور میگزینز نے اس کے پھیلاؤ میں اہم
کردار ادا کیا۔ دوسرے دور میں برٹش شہنشاہیت اور پاکس امریکانا کے درمیان
تعلقات کی خرابی نے انگریزی کی وسعت کو محدود کردیا۔ تاہم سرد جنگ کے
اختتام اور 1990ءکی دہائی میں اقتصادی سرگرمیاں عروج پر پہنچ جانے کے باعث
اینگلو امریکن اجارہ داری قصہ پارینہ بن گئی۔ اب آپ جارج ڈبلیو بش کو
گالیاں دے سکتے ہیں، امریکی پرچم نذرِ آتش کرسکتے ہیں، تاہم امریکن یورپ
اسٹارز آپ کے پسندیدہ ہیں اور ایپل کمپیوٹر آپ کی ضرورت۔
ہزاروی کے اختتام پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انگریزی زبان اور ثقافت تیزی سے
اپنی اصل جائے پیدائش سے مختلف شکل اختیار کررہی ہے۔ انگریزی سپر نیشنل
حیثیت اختیار کررہی ہے جو کہ اینگلو امریکن اوریجن سے مختلف ہے۔ یہ ترقی
یافتہ دنیا میں الگ شکل میں موجود ہے۔ 2003ءمیں چلی اور منگولیا نے انگریزی
کو اپنی دوسری زبان قرار دے دیا۔ 2006ءمیں انگریزی کو میکسیکو میں پرائمری
اسکول کے نصاب میں لازمی مضمون کی حیثیت سے شامل کرلیا گیا۔ سابقہ فرانسیسی
زیرِ اثر ملک روانڈا نے 2009ءمیں انگریزی کو سرکاری زبان قرار دے دیا۔
چین میں 5 کروڑ افراد انگریزی زبان کے پروگرام میں ”کریزی انگلش“ کے طور پر
رجسٹرڈ ہیں۔ ”انگلش کے ایلوس“ لی یانگ جو 10,000 یا زائد کے گروپ کو
انگریزی پڑھاتے ہیں، وہ ”چین کو مضبوط بنانے کے لیے انگریزی پر عبور حاصل
کرو“ کا نعرہ لگاتے ہیں۔ معروف شاعر والٹ ویٹ مین نے ایک بار لکھا تھا کہ
انگریزی ڈکشنری بنانے والوں کی تعمیر نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسی زبان ہے جو
زمین پر رہنے والوں کے ایک دوسرے سے رابطہ کے نتیجے میں وجود میں آئی۔
1066ءمیں نارمنڈی فتح ہونے کے بعد انگریزی زیرِ زمین چلی گئی، حالاں کہ ہر
شخص اور عام آدمی کی زبان تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ انگریزی کا دار و مدار
امریکا یا انگلینڈ پر نہیں۔ اسے ایسی دنیا نے نئی شکل دی ہے جن کی دوسری
زبان انگریزی ہے۔ ان کی ثقافت کا حوالہ انگریزی سے دیا جاتا ہے تاہم اس کا
امریکا یا انگلینڈ کے علاقے سے تعلق نہیں۔
مختصر یہ کہ گلوبش ترقی کے مدارج طے کررہی ہے۔ دنیا بھر میں انٹرنیٹ کے 70
سے 80 فیصد صفحات انگریزی زبان میں ہیں۔ اس کے برخلاف جرمن زبان میں صرف
4.5 فیصد اور جاپانی میں 3.1 فیصد ہیں۔
برٹش کونسل کے مطابق 2003ءمیں دنیا کی ایک تہائی آبادی بہ یک وقت انگریزی
سیکھ رہی ہوگی۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ دنیا بھر میں 5000 سے زائد زبانیں
بولی جاتی ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں زبانوں کی موجودگی میں گلوبش کی ترقی
حیران کن معلوم ہوتی ۔ |