تین سال قبل کوئی بھی یہ پیش
گوئی نہیں کرسکتا تھا کہ امریکا میں نئی برانچیں کھولنے اور قرضوں کی
فراہمی میں توسیع کرنے والے چند مالیاتی اداروں میں ایک ایسا بینک بھی شامل
ہوگا جو بالخصوص خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے لوگوں کے مالی مسائل
حل کرنے میں ماہر ہے۔امریکی جریدہ نیوز ویک کے مطابق نوبل انعام یافتہ محمد
یونس کے قائم کردہ مشہور ایشین مائیکرو لینڈنگ کی امریکی شاخ گرامین امریکا
کا ریاست ہائے متحدہ امریکا میں مالیاتی آپریشن کا یہ تیسرا سال ہے۔ ایک
ایسے وقت جب بڑے بینک اب تک مالیاتی بحران کے شکار ہیں اور وہ بالخصوص
چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری افراد کے لیے قرضوں کی شرائط کو سخت سے
سخت بنا رہے ہیں تو دوسری جانب گرامین اپنے کاروبار کو توسیع دے رہا ہے۔ اس
موسمِ سرما میں یہ چھوٹا بنگلہ دیشی بینک جو کہ پہلے ہی نیویارک، اوماہا
اور واشنگٹن ڈی سی میں اپنی خدمات فراہم کررہا تھا، چوتھے امریکی شہر سان
فرانسسکو میں اپنی برانچ کھول رہا ہے۔ اس مقصد کے لیے بینک نے ویلز فارگو
اور کیپٹل ون جیسے مالیاتی اداروں سے کئی قرضے حاصل کیے ہیں جنہیں یقین ہے
کہ بینک کوئنز میں افریقی امریکی ہیئر ڈریسرز اور واشنگٹن ڈی سی میں لاطینا
فوڈکارٹ آپریٹرز کو دی جانے والی رقوم واپس لے سکتا ہے۔ اس کے برخلاف اوسط
درجے کے سفید فام لوگ اپنی اوقات سے زائد خرچ کرتے ہیں۔
محمد یونس کے ہاتھوں 1983ءمیں قائم ہونے والے گرامین بینک نے اب تک دنیا
بھر میں نچلے طبقے کے افراد کو اربوں ڈالر قرض فراہم کیا ہے۔ گرامین بینک
سے قرض حاصل کرنے والوں کی اکثریت ایسی خواتین پر مشتمل ہے جو خطِ غربت کے
نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ اس ضمن میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ گرامین نے جو
قرضے فراہم کیے تھے ان مین سے 98 فیصد واپس وصول ہوگئے ہیں۔ عموماً یہ قرضے
کم مقدار میں فراہم کیے جاتے ہیں۔ امریکا میں اس کا اوسط 1500 ڈالر ہے جب
کہ دیگر ممالک میں اس سے بھی بہت کم ہوتے ہیں۔ شرح سود امریکی آپریشنز میں
زائد یعنی 15 فیصد سالانہ ہے۔ تاہم غربت کے شکار لوگوں کے لیے یہ شرح سود
انتہائی کم ہے، کیوں کہ اگر وہ بلیک مارکیٹ سے قرضے حاصل کریں تو انہیں اس
پر بہت زیادہ سود ادا کرنا پڑتا ہے۔ گرامین بینک کی جانب سے قرضوں کی
فراہمی کے لیے منفرد طریقہ کار ہے۔ قرض حاصل کرنے والے کسی بھی شخص کو قرض
حاصل کرنے والے دیگر افراد کے ہمراہ ہفتہ وار اجلاس میں شرکت کرنی ضروری
ہوتی ہے۔ ان میں سے سب قرضوں کی واپسی کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ قرض حاصل کرنے
والوں کا کوئی بھی گروپ اپنے ہمراہ شامل کسی بھی شخص کی جانب سے ادائیگی
میں ناکامی کی صورت میں مزید قرض حاصل نہیں کرسکتا۔ قرض حاصل کرنے والا ہر
شخص اپنے ذاتی سیونگ اکاؤنٹ میں کچھ رقم پس انداز کرنے کا پابند ہوتا ہے،
تاکہ کاروبار کی تعمیر کے وقت مالیاتی سہارا دینے کی پوزیشن میں ہو۔
یہ ایک ماڈل ہے جو کہ حالیہ برسوں کے دوران بڑے بینکوں کے سسٹم کی تشریح سے
متضاد ہے، جس میں مقامی بچتوں اور قرضوں کے لیے ”اپنے کسٹمر کو جانیے“
(Know Your Customer) کی اپروچ آؤٹ آف فیشن ہوگئی ہے۔ گرامین کا انداز کار
لفظ ”کریڈٹ“ کے لاطینی معنی سے مماثل ہے جس کا مطلب ”یقین کریں“ یا ”اعتماد
کریں“ ہے۔ گرامین کمیونٹی کی تعمیر کرتے ہوئے اپنے ارکان میں مالیاتی
سیکورٹی کی تعمیر کرتا ہے۔ محمد یونس نے گزشتہ سال قرض حاصل کرنے والوں سے
خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”میں سمجھتا ہوں کہ مالیاتی بحران ہمارے لیے ایک
موقع ہوگا۔“ گزشتہ مئی میں لوئر مین ہٹن میں گرامین بینک کی برانچ کے
افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے یونس نے کہا کہ بحرانی دور میں ہمارے لیے
ایک قطعی نیا مالیاتی سسٹم تخلیق کرنے کے لیے ایک موقع ہوگا۔ انہوں نے اس
امر کی نشان دہی کی کہ وال اسٹریٹ دنیا بھر میں بینکنگ خدمات فراہم کررہا
ہے، تاہم وہ اپنے پڑوسیوں کو خدمات نہیں فراہم کررہا۔ ہم یہاں یہ دکھانے کے
لیے جمع ہوئے ہیں کہ پڑوسیوں کو بینکنگ کی سہولیات فراہم کرنے میں کوئی
مذائقہ نہیں۔ اس کے برخلاف یہ امر قابلِ غور ہونا چاہیے کہ پڑوسی ان لوگوں
میں شامل ہوسکتے ہیں جو قرض کی بروقت ادائیگی اپنا فرض سمجھتے ہیں۔
یقیناً گرامین اس خلیج کو بھرنے میں انتہائی ضروری کردار ادا کررہا ہے۔
ترقی پذیر دنیا میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد قرضوں تک رسائی نہیں رکھتی،
تاہم امریکا جیسی پختہ مارکیٹوں میں بھی ایک بڑا گروپ موجود ہے جن کا
بینکوں سے کوئی لین دین نہیں ہے۔ امریکی فیڈرل ڈپازٹ انشورنس کارپوریشن کا
کہنا ہے کہ 8 فیصد امریکی آبادی کی قرض تک رسائی نہیں ہے۔ جب کہ 18 فیصد
لوگوں کا برائے نام رابطہ ہے۔ چھوٹے کاروباری لوگوں کے لیے جو کہ جاب
مارکیٹ تخلیق کرتے ہیں قرضوں کے حصول کا طریقہ کار انتہائی سخت ہے۔ مائیکرو
لینڈنگ میں اب تک کوئی مالی بحران نہیں ہے۔ یہ شعبہ دنیا بھر کے درجنوں
ممالک میں خوب مقبول ہورہا ہے، جب کہ امیر لوگوں کی ایک بڑی تعداد بھی حیرت
انگیز طور پر مائیکرو لینڈنگ سے استفادہ کررہی ہے۔ کئی یورپی ممالک میں بھی
گرامین اور دوسرے مائیکرو لینڈنگ مالیاتی ادارے پھل پھول رہے ہیں۔ گرامین
امریکن کی سی ای او اسٹیفن ووگل نے بتایا کہ گرامین امریکا سے اس وقت تک
3500 افراد قرضے حاصل کرچکے ہیں جو کہ اس مرحلے پر ہماری توقعات سے بہت
زیادہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہ رجحان برقرار رہا تو ہم 2013ءتک
خودانحصاری کے ذریعے بڑی تعداد میں لوگوں کو قرضے فراہم کررہے ہوں گے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ فی الوقت گرامین بینک دوسرے مالیاتی اداروں بہ شمول
ویلس فارگو اور کیپٹل ون کی گرانٹس اور طویل المیعاد قرضوں کے ذریعے اپنا
کاروبار کررہا ہے۔
گرامین بینک سے قرضے حاصل کرنے والوں میں بیشتر خواتین اور ان کی فیملیز
ہیں جن میں بڑی تعداد میں تنہا مائیں (Single Mothers) بھی شامل ہیں۔
اسٹیفن ووگل کا کہنا تھا کہ بینک خصوصی طور پر صرف خواتین کو اپنی خدمات
فراہم نہیں کرتا۔ اس میں لگ بھگ 100 فیصد وہ لوگ شامل ہوتے ہیں۔ اجلاسوں
میں شرکت کے خواہش مند اور بچتوں کے لیے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے پر
آمادہ ہوتے ہیں۔ امریکا اور بیرونِ ملک ان میں سوشیو اکنامک ضروریات کے تحت
قرضے حاصل کرنے والوں کی اکثریت بھی شامل ہے۔ |