قیام پاکستان کے بعد تقریباً 16 سال تک ’’ریڈیو‘‘ پاکستان
میں ذرائع ابلاغ کا واحدذریعہ تھا جو شہری اور دیہی عوام کو ملکی اور غیر
ملکی حالات سے با خبر رکھنے کے ساتھ ساتھ تفریح فراہم کرنے کا بھی ذریعہ
تھا۔ 1960 میں پاکستان میں میڈیا یعنی ٹیلیویڑن انڈسٹری قائم کرنے کا نجی
سطح پر فیصلہ ہوا۔ 1962ء میں لاہور ٹیلیویڑن کی عمارت تعمیر ہوئی، بیرون
ملک سے مشینری منگوا کر نصب کرنے کے بعد 26 نومبر 1964ء کو پاکستان میں
بلیک اینڈ وائٹ ٹیلیویڑن کی نشریات کا آغاز پی ٹی وی کے پہلے نیوز کاسٹر
سید واجد علی نے خبر پڑھ کر کیا۔ اس طرح پاکستان میں ریڈیو کے ساتھ
ٹیلیویژن بھی ذرائع ابلاغ میں شامل ہو گیا۔ جس کا افتتاح اس وقت کے صدر
ایوب خان نے لاہور ٹیلی ویژن مرکز سے کیا تھا، 25 دسمبر 1964 کو ڈھاکہ (جو
کہ اس وقت کے مشرقی پاکستان کا دار الحکومت تھا) میں دوسرا ٹی وی سٹیشن
قائم ہوا، 1965ء میں اسلام آباد مرکز، 1966ء میں کراچی میں چوتھا ٹیلیویژن
مرکز قائم ہوا، 1971 کی پاک بھارت جنگ میں ٹیلیویژن سے دل گرما دینے والے
ملی نغمے نشر ہوئے تو جنگ کے بعد پی ٹی وی کو قومی حیثیت دے کر سرکاری سطح
پر چلانے کیلئے اقدامات کیے گئے۔ اس طرح ریڈیو کے ساتھ پی ٹی وی بھی سرکاری
سطح پر چلنے لگا۔ اس وقت ملک میں سرکاری ریڈیو کے 32 مراکز اور سرکاری ٹی
وی کے اسلام آباد، لاہور، کراچی، پشاور، کوئٹہ، مظفر آباد، اے جے کے اور
ملتان میں سنٹر کام کر رہے ہیں۔ پرویز مشرف دور میں پاکستان میں لا تعداد
انٹرٹینمنٹ اور نیوز چینلز و پرائیویٹ ریڈیو سنٹرز کے اضافے سے میڈیا
انڈسٹری میں انقلاب برپا ہوا، بلیک اینڈ وائٹ کے بعد اب ٹیلیویژن رنگین ہو
کر رنگینیاں پھیلا رہا ہے، اور اس میں جدت آ چکی ہے۔
پی ٹی وی اور ریڈیو سرکاری سرپرستی میں دہائیوں سے حکومت کی نا صرف پاکستان
بلکہ دنیا بھر میں ترجمانی کرتا چلا آ رہا ہے، اور یہ ادارے آج تو شوبز سے
وابستہ لکھاریوں، گلوکاروں، فنکاروں کی پہلی تربیت گاہ اور ہزاروں
پاکستانیوں جو ان اداروں میں کام کر رہے ہیں کی کفالت کر رہے ہیں، مگر ستم
ظریفی یہ ہے کہ ہر سرکاری دور میں سیاستدانوں نے اپنے عزیز و اقارب،
حواریوں اور ہم نواؤں کو نوازنے کیلئے ریڈیو اور ٹیلیویژن سنٹرز میں اقرباء
پروری کے ذریعے غیر ضروری بھرتیوں کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع کیا، جو تا
وقت تحریر جاری ہے۔ سیاستدانوں کا یہ فعل ترقی کی منازل طے کرتی کشتی میں
سراخ کرنے کے مترادف ہے، ان اداروں میں سیاسی طور پر بھرتی ہونے والوں نے
اتنا بوجھ ڈال دیا ہے کہ اب ریڈیو اور ٹی وی کا مستقبل پی آئی اے، ریلوے،
سٹیل مل اور دیگر قومی اداروں کی طرح نظر آ رہا ہے، بے رحم سیاستدانوں نے
دونوں اداروں میں اتنے چھید کر دیئے ہیں کہ اب یہ ادارے اپنی اپنی بقاء کی
جنگ لڑ رہے ہیں، کیونکہ ان اداروں کے ہر شعبہ میں سیاسی سفارشیوں نے قبضہ
جما رکھا ہے جو اپنی لاکھوں ماہانہ تنخواہیں کھری کرنے کیلئے چھوٹے ملازمین
کا استحصال کر رہے ہیں۔ زمانہ اور میڈیا انڈسٹری میں جدت آ جانے کے بعد اب
ان اداروں کو پرائیویٹ مارکیٹ کا مقابلہ کرنے کیلئے جدید ٹیکنالوجی، نئے
آلات اور با صلاحیت ٹیکنیشنز کی ضرورت ہے۔ مگر اس طرف توجہ دینے کی بجائے
ان اداروں میں بیٹھا مافیا تو ملازمین کی ڈاؤن سائزنگ میں مصروف ہے۔
موجودہ حکومت نے ہر ممکن کوشش کی اور باقاعدہ اعلان کیے ہیں کہ پاکستان میں
جتنی بھی مادری زبانیں ہیں خواہ وہ پنجابی ہو، سندھی، براہوی، پشتو،
ہزاروی، سرائیکی، ہندکو، پوٹھواری، کشمیری، گلگت بلتستان ان سب کو ترقی دی
جائے گی اور اس سلسلہ میں وفاقی کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ 5 ویں جماعت تک
ہر علاقہ کے مطابق اس کی مادری زبان میں تعلیم دی جائے گی۔ لہذا حکومت اس
حوالے سے سرکاری ٹیلیویڑن اور ریڈیو کو استعمال کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے،
اگرچہ ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلیویژن پہلے ہی بے شمار مسائل کا شکار
ہے، سیاسی دور میں بھرتی ہونے والوں کی تنخواہیں 12 ہزار سے 2 لاکھ تک پہنچ
چکی ہیں، پی ٹی وی کے فنکار معاشی طور پر زبوں حالی کا شکار ہیں۔ سیاسی دور
میں بھرتیوں نے دونوں ادارے ڈبو کر رکھ دیئے ہیں، پی ٹی وی کے پاس نیا ایچ
ڈی سسٹم ہے نہ جدید کیمرے اور نہ ہی ایڈیٹنگ کا وہ نظام جو دورجدید کے
مطابق ہونا چاہئے، یہی حال ملک کے 32 ریڈیو اسٹیشنز کے سٹوڈیوز کا ہے، جن
میں پرانے ٹوٹے ہوئے مائیک، پرانے پھٹے کارپٹ خستہ حال عمارتیں اپنی حالت
زار کا آئینہ بیان کر رہی ہیں،اس کے باوجود پاکستان ٹیلیویژن نے موجودہ
ادوار میں تمام علاقائی زبانوں کے حوالے سے کچھ کرنے کا فیصلہ کیا اور
تقریبا سبھی علاقائی زبانوں میں تمام ٹیلیویژن اسٹیشنز سے مختلف لائیو شو
اور پروگرامز کا آغاز کیا جا رہا ہے، اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ حالیہ دور میں
حکومت کی پالیسی ہے کہ ہر علاقائی زبان کی ترویج کی جائے۔ یورپی اور
ایشیائی ملکوں پر نظر دوڑائی جائے تو ان میں سرکاری ٹیلیویژن اور ریڈیو کو
اہم حیثیت حاصل ہے یورپ بالخصوص فرانس، امریکہ، برطانیہ، اٹلی و دیگر ملکوں
میں ہر سرکاری پیغام اور ان ممالک کے سربراہان کی تقاریر سب سے پہلے سرکاری
ٹی وی اور ریڈیو پر نشر ہوتے ہیں، گو کہ ایسا پاکستان میں بھی ہوتا ہے،
لیکن پاکستان حکومت سرکاری ذرائع ابلاغ کے دونوں اداروں پر وہ توجہ نہیں دے
پا رہی جو یورپی اور ایشیائی ممالک کے ارباب اختیار اپنے سرکاری نشریاتی
اداروں کو دیتے ہیں۔ کپتان جی اگر آپ کو یاد ہو کہ 126 دن کی احتجاجی تحریک
کے دوران آپ نے ڈی چوک میں میں اعلان کیا تھا کہ بر سر اقتدار آ کر ملک کے
ریڈیو اور ٹیلیویژن کو بین الاقوامی معیار کا بنائیں گے، کپتان جی اب آپ
برسر اقتدار ہیں شاید ڈی چوک کا یہ وعدہ آپ بھول چکے ہیں اور موجودہ دور
میں سرکاری ذرائع ابلاغ کے دونوں ادارے زبوں حالی کا شکار ہیں۔ ان میں
چھوٹے ملازمین کی ڈاؤن سائزنگ ہو رہی ہے، ڈوبتے ہوئے سرکاری ذرائع ابلاغ کے
یہ دونوں ذرائع آپ کی توجہ کے منتظر ہیں۔
|