افسوس ناک خبر ہے کہ ، باڑہ کے
علاقے اکا خیل میں شدت پسندو ں نے گورنمنٹ بوائز سکول کو دھماکہ خیز مواد
سے تباہ کردیا ۔دھماکے کے نتیجے میں سکول مکمل طورپرتباہ ہو گیا جبکہ قریبی
گھروں کو بھی نقصان پہنچا۔ (ڈیلی پاکستان) اس کے علاوہ لنڈی کوتل کے علاقہ
سلطان خیل مین واقع گورنمنٹ گرلز سکول کو رات گئے نصب شدہ دہماکہ خیز مواد
سے تباہ کر دیا گیا۔ اس طرح ایجنسی بھر میں تعلیم دشمن عناصر کے ہاتھوں
تباہ کئے جانے والے سکولوں کی تعداد ۴۰ سے زائد ہو چکی ہے۔(ڈیلی جنگ مورخہ
۲۵ مارچ و ڈیلی ڈان)
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ میں سکولوں کی تباہی ایک معمول سا بنتا
جارہا ہے اور طالبان نہاہت بے دردی کے ساتھ قومی دولت کو تباہ کر رہے ہیں۔
طالبان کی موٹی سمجھ مین یہ نہ آ رہا ہے کہ سکولوں کو تباہ کرنا ملک و قوم
کی موجودہ و آئندہ نسلوں سے دشمنی ہے اور پاکستان کے عوام ان کو اس وطن
دشمنی پر کبھی معاف نہیں کریں گے۔ سکول ایک قومی دولت ہین جہان اس ملک کے
بچے اور بچیاں زیور تعلیم سے آراستہ ہو کر آئندہ ملک و قوم کی خدمت کر تے
ہین۔ پاکستان میں پہلے ہی ۲۵ ملین بچے اور بچیاں حصول تعلیم کی نعمتوں سے
محروم ہین۔ تعلیم ایک ایسی بنیاد اور ستون ہے جس پر ملک کی سلامتی کا تمام
دارومدار و انحصار ہے۔
تعلیم کسی بھی معاشرے کی ترقی میں بے حد اہم کردار ادا کرتی ہے۔ تعلیم کی
اہمیت کا اعتراف ازل سے ہر مہذّب معاشرہ کرتا آیا ہے اور ابد تک کرتا رہے
گا۔ 21صدی مین تعلیم کی اہمیت پہلے کی نسبت زیادہ تسلیم کی جا رہی ہے۔ آج
کی زندگی مین تعلیم سب سے زیادہ اہم اقتصادی مسئلہ ہے۔ آج کے ترقیاتی دور
میں تعلیم کے بغیر انسان ادھورا ہے ۔ تعلیم انسان کو اپنی صلاحیت پہچانے
اور ان کی بہترسے بہتر تربیت کرنے میں معاون ثابت و مدد گار ہوتی ہے تقیناً
تعلیم یافتہ لوگ ہی ایک بہتر سماج اور ایک ترقی یافتہ ملک و قوم کی تعمیر
کرتے ہیں اور معاشی مسابقت کیلئے اس کی اہمیت ناگزیر ہے۔ قوموں کے عروج و
زوال کی کہانی میں تعلیم کا کردار بڑی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ جس قوم نے اس
میدان میں عروج حاصل کیا، باقی دنیااس قوم کے سامنے سرنگوں ہوتی چلی گئی ۔
قرآن کا پہلا لفظ ہی اقرا تھا۔اور یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب تک
مسلمانوں نے اس میدان میں اپنے قدم جمائے رکھے دنیا پر حکمرانی کرتے رہے۔
اور جیسے جیسے ’اقراء‘ کا درس ان کے ذہنوں سے محو ہوا ،غلامی نے اپنا
گیراتنگ کر دیا۔ انسان کو اشرف المخلوقات ہونے کا شرف ، علم و آگہی کی
بدولت حاصل ہے۔ دین و دنیا کی تمام تر ترقیاں اور بلندیاں علم ہی کے دم سے
ہیں۔ اس لئے اسلام نے سب سے زیادہ زور علم حاصل کرنے پر دیا ہے۔
طالبان نے ستمبر ۲۰۱۰ تک ۱۰۰۰ سے زیادہ طلبہ و طالبات کے سکولوں کو تباہ و
برباد کر کے قرآن ،رسول اکرم کی احادیث اور آیمہ کرام کے احکامات کی صریحا
خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ طالبان درندوں نے اپنے حملوں کے دوران سکولوں
کے بچوں ، بچیوں اور اساتذہ کو بھی نہیں بخشا۔ طالبان کے مزید حملوں کے خوف
کی وجہ سے صوبہ ک پ کے ۲۰۵ پرائمری سکول بند کر دئیے گئے جس سے ہزاروں
بچیاں تعلیم سے محروم ہو گئیں۔ اقوام متحدہ کے کمشنر مہاجرین کی ایک روپورٹ
کے مطابق ۱۔۸ ملین آبادی کے علاقہ مین ۳ سال پہلے ۱۲۰،۰۰۰ لڑکیاں سکولوں
اور کالجوں میں زیر تعلیم تھیں جو ، اب کم ہو کر صرف ۴۰،۰۰۰رہ گئین۔ ۳۰
فیصد سے زیادہ لڑکیاں سن ۲۰۰۶ اور ۲۰۰۷ میں مولوی فضل اللہ کی دھمکی آمیز
ریڈیو تقریروں کی وجہ سے سوات کے سکول چھوڑ گئیں۔ طالبان نے سوات مین سکول
کی بچیوں کے سکول جانے پر پابندی عائد کر دی۔ طالبان نے اکتوبر ۲۰۰۹ مین
انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد مین خود کش حملہ کیا جس مین ۶
افراد بشمول ۳ طالبات ہلاک ہو گئیں ۔اس سے پہلے طالبان نے ۱۹ جنوری 2011 کو
پشاور کے ایک نجی سکول کے باہر دھماکہ کیا جس سے دو افراد ہلاک اور ۱۵ بچے
زخمی ہو گئے۔۔ذرائع کے مطابق خیبرایجنسی کی تحصیل لنڈی کوتل کے علاقہ کنڈاؤ
خیل میں شدت پسندوں نے ۲۴ جنوری 2011 گرلز پرائمری سکول کو دھماکہ خیزمواد
نصب کرکے تباہ کردیا۔ ایجنسی بھر میں تباہ ہونیوالے سکولوں میں اب تک33
درسگاہیں شدت پسندوں کے ہاتھوں تباہ ہوچکی ہیں۔ سکولوں اور دیگر سرکاری
تنصیبات پر ہونے والے حملوں کی ذمہ داری مقامی طالبان وقتاً فوقتاً قبول
کرتے رہے ہیں۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق اِن حملوں میں کم سے کم ایک سو
سے زیادہ سکول، بنیادی صحت کے مراکز اور دیگر سرکاری و نیم سرکاری دفاتر کو
تباہ کیا جاچکا ہے۔ان دھماکوں کی وجہ سے ہزاروں طلبہ تعلیم کےحصول سے محروم
ہوچکے ہیں۔ طالبان خیبر پختونخواہ اور فاٹا ایریا میں ۵۰۰ سے زیادہ سکول
تباہ کر چکے ہیں۔ پتہ نہیں ان طالبان وحشی درندوں کو تعلیم اور تعلیمی
اداروں سے اس قدر چڑ کیوں ہے اور طالبان پاکستانی مسلمانون کو کیوں زیور
تعلیم سے بے بہر ہ رکھنا چایتے ہین؟ کیا ان اجڈوں کو پاکستانی مسلمانوں کی
بہبود کا کوئی خیال ہے؟
دولتِ علم سے بہرہ مند ہونا ہر مرد و زن کے لئے لازمی ہے۔ ترقی صرف اس قوم
کی میراث ہے جس کے افراد زیورِ علم سے آراستہ و پیراستہ ہوں۔ علم کے بغیر
انسان خدا کو بھی پہنچاننے سے قاصر ہوتا ہے۔ کسی بھی عمل کے لئے علم ضروری
ہے کیونکہ جب علم نہ ہوگا تو اس پر عمل کیسے ہوسکے گا۔ اسلامی نقطہ نگاہ سے
بھی حصول علم لازمی ہے۔ اسلام نے مردو عورت دونوں کے حصول، علم کی تاکید کی
ہے۔ علم ایک ایسا بہتا دریا ہے جس سے جو جتنا چاہے سیراب ہوسکتا ہے اور اس
دریا کے پانی مین کوئی کمی واقع نہین ہوتی۔ زندگی کی اقدار میں نکھار و
وقار صرف علم سے ہی آسکتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں عورت و مرد دونوں کی اہمیت
یکساں ہے۔ ترقی کی راہوں پر آگے بڑھنے کے لئے عورتوں کے لئے بھی علم اتنا
ہی ضروری ہے جتنا کہ مردوں کے لئے ہے۔ گویا عورت اور مرد ایک گاڑی کے دو
پہیے ہیں جن میں سے ایک کی بھی علم سے لاتعلقی کائنات کے نظام کو درہم برہم
کرسکتی ہے۔
قرآن دنیا کی سچی اور قابلِ عمل کتاب ہے جس کے احکامات انسانی نفسیات کے
عین مطابق ہیں ۔ اسلام کی ابتدا ہی تعلیم سے ہوئی۔غارحرا میں سب سے پہلی جو
وحی نازل ہوئی وہ سورہ علق کی ابتدائی چند آیتیں ہیں ،جن میں نبی صلعم کو
کہا گیا :
”اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ. خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ
عَلَقٍ. اقْرَأْ وَرَبُّکَ الْأَکْرَمُ. الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ.
عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ یَعْلَم.
(پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے سب کو پیدا کیا۔ پیدا کیا اس نے انسان کو خون
کے لوتھڑے سے ۔ پڑھ ، تیرارب بڑا کریم ہے۔ جس نے سکھایا علم قلم کے زریعہ۔
اس چیز کا علم دیا انسان کو جو وہ نہیں جانتا ۔(العلق:۱-۵)
یَرْفَعِ اللَّہُ الَّذِیْنَ آمَنُوا مِنکُمْ وَالَّذِیْنَ أُوتُوا
الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ وَاللَّہُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیْرٌ
(تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور جن کو علم عطا ہواہے ،اللہ اس کے درجات
بلند فرمائے گا اورجو عمل تم کرتے ہو اس سے اللہ باخبر ہے۔(المجادلہ:۱۱)
دوسرے مقام پر فرمایا گیا ہے:
(اے نبی،کہہ دیجیے کیاعلم رکھنے والے(عالم) اور علم نہ رکھنے والے (جاہل)
برابر ہوسکتے ہیں۔نصیحت تو وہی حاصل کرتے ہیں جو عقل والے ہیں۔(الزمر:۹)
تاریکی اور روشنی کی مثال دے کر عالم اور جاہل کے فرق کو واضح کیا گیاہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
(کہہ دیجیے،کیا برابر ہوسکتے ہیں اندھا(جاہل) اور دیکھنے والا(عالم) یا
کہیں برابر ہوسکتا ہے اندھیرا اور اجالا۔)(الرعد:۱۶)
(اے پیغمبر کہو:اے میرے رب !میرا علم زیادہ کر۔)(طٰہٰ:۱۱۴)
اور تجھ کوسکھائیں وہ باتیں جو نہیں جانتا تھااور یہ تیرے رب کا فضل عظیم
ہے۔(النساء:۱۱۳)
ایک سینئر صحافی کو طالبان کے ترجمان ذیبح اللہ مجاہد کی طرف سے بھیجے گئے
ای میل مورخہ ۲۸ مارچ میں ملا عمر کا کہنا ہے کہ طالبان تعلیم و تربیت کی
اہمیت کو جانتے ہیں اور وہ دنیا اور آخرت کی کامیابی کا ذریعہ علم کے حصول
ہی کو سمجھتے ہیں۔ ملا عمر نے اپنے ردعمل پر مشتمل تفصیلی پشتو بیان میں
مزید کہا کہ طالبان کبھی بھی افغان عوام کیلئے بنائے گئے تعلیمی
اداروں،اسپتالوں اور عوامی مقامات کو بموں سے اڑانے کا تصور بھی نہیں کر
سکتے ہیں۔ ایسا کرنے والوں کا طالبان سے کوئی تعلق نہیں ۔ بموں سے اڑانے
والے افغانوں کے دشمن ہیں یا پھر دشمنوں کے ایجنٹ ہیں جو طالبان کو بدنام
اور افغانستان کو تباہ کرنے کیلئے ایسا کر رہے ہیں۔
حکیم اللہ محسود اور اسامہ بن لادن، دونوں نے ملا عمر کو بیعت دی ہوئی ہے
مگرملا عمر TTP کے سکولوں, مساجد کی تباہی اور عام نہتے پاکستانیوں کو خود
کش بم حملوں کے ذریعے ہلاک و اغوا کئے جانے اور خلاف شریعہ لوٹ مار کو اس
بیعت اور اپنے جاری شدہ code of conductکی خلاف ورزی تصور کر رہے ہین۔ اور
تحریک طالبان پاکستان ، القائدہ کے اشاروں پر پاکستان کو کمزور کرنے کی سعی
کر رہے ہین۔ القائدہ شیخ عطیہ اللہ کے بیان کی خلاف ورزی مین بھی مصروف ہے
جس مین انہون نے مساجد، سکولوں اور معصوم شہریوں پر حملوں سے منع کیا تھا۔
لگتا ہے یہ سب بے مہار ہین اور اپنے بیعت اور اسلامی شعار کی بھی پرواہ
نہین کر رہے۔
چونکہ سکولوں کی تباہی کے تمام واقعات صوبہ خیبر پختونخواہ مین ہو رہے ہین
اور اگر طالبان ان واقعات کی ذمہ داری قبول کرنے سے گریزان ہین، تو یہ ان
کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان واقعات کی مذمت کریں اور اپنے آپ کو بری
الذمہ قرار دین اور ان لوگوں و گروہوں کو جو ان واقعات کے اصل ذمہ دار ہین
، بے نقاب کریں ۔
وہ لوگ جو تعلیم کے یکسر مخالف ہیں، اور سکولوں کو تباہ کرنے اور جلانے کے
قبیح کاموں میں شریک ہین ،ان کے بارے میں مجھے پورا اندازہ ہے کہ وہ اگلے
100 سال کے بعد بھی ترقی کی شاہراہ پر تاریخ کے پتھروں کی مانند وہیں پڑے
ہوں گے جہاں آج سے 200 سال پہلے پڑے تھے۔
سکولوں کو تباہ کرنے کے نتیجے میں پاکستان مین غربت ، پسماندگی ، جہالت اور
انتہا پسندی و دہشت گردی جیسے مسائل مزید گھمبیر ہو جائینگے، تعلیم کے
فروغ سے ہم پاکستان مین دہشتگردی و انتہا پسندی کی عفریت پر قابو پا
سکتےہین اور لوگ اس بات کو درست طور پرسمجھ سکین گے کہ خرابی دین اسلام میں
نہیں بلکہ اسلام کی اس غیر معقول اور تنگ نظر طالبانی تشریح میں ہے جس کا
علاج، بہتر تعلیم سے ہی کیا جاسکتا ہے اور اسی مین پاکستان کی تعمیر و ترقی
کی تعبیر مضمر ہے۔ |