شیطانی بہکاوہ / ہم جنس پرستی

شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔اس کے بہت سے معنی ہیں ایک مطلب انسان کو رحمٰن سے دور کرناہے۔ آج شیطان اور اسکے پیروکاروں نے انسان کو ماں باپ کا نافرمان بنادیا ہے۔ حالانکہ تاجدارِ ختم نبوت نبی کریم ﷺ کا فرمان عالی شان ہے کہ ماں کے قدموں میں ’’ جنت ‘ہے اور جنت کا دروازہ ’’ باپ ‘‘ ہے۔ شیطان پہلے انفرادی طور پر گمراہ کرتا ہے پھر اجتماعی طور پر دنیا اور آخرت سے انسان کو رسوا کروانے کیلئے آئے روز نئی چالیں نئے جال لگاتا ہے۔ بات کو مختصر کرتے ہے۔ شیطان نے مسلمانوں کو ذلیل و خوار کرنے کئے بھائی سے بھائی کا گلا کٹوایا۔ اﷲ اور اﷲ کے انبیاء علیہ السلام کے بتائے ہوئے راستے سے ہٹایا اولاد کے ہاتھوں والدین کو قتل تک کروایا ۔افسوس صد افسوس ! وہ والدین جن کو ’’ اُف تک کہنے کی اجازت نہیں ۔ یہی ہماری تباہی و بربادی کے لئے کافی تھا مگر شیطان تو شیطان ہے ۔ شیطانی فعل کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے اب’’ ہم جنس پرستی ‘‘ کو خوبصورت دل فریب بنا کر پیش کر رہا ہے۔ ’’ ہم جنس پرستی ‘‘ وہ گناہ کبیرہ ہے ۔جس سے خدا کے غضب اور غصہ کو دعوت دینا ہے ۔ حضرت لوط علیہ السلام کی قوم سے پہلے یہ گناہ اولادِ آدم میں نہ تھاقوم لوط میں ایک دن ابلیس ایک خُوب صُورت، نوعُمر لڑکے کے بھیس میں آیا اور اُنہیں اپنی عورتوں کی بجائے مَردوں کے ساتھ فعلِ بد کرنا سِکھایا۔اس طرح ابلیس کے کہنے پر اس بدکاری کے موجد یہی ملعون لوگ تھے۔ اُنہوں نے شیطان کی ایما پر ایک ایسا گناہ ایجاد کیا، جس کا اولادِ آدمؑ میں اِس سے پہلے کسی کو خیال تک نہیں آیا تھا۔ یہی وہ وقت تھا کہ جب اﷲ تعالیٰ نے حضرت لوط علیہ السّلام کو نبی بنا کر اُس قوم کی اصلاح کے لیے بھیجا۔ حضرت لوطؑ نے اُن کو توحید کی دعوت دی اور بے ہودہ حرکات سے منع فرمایا۔ قرآنِ پاک میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے’’اور( حضرت ) لوطؑ کو یاد کرو، جب اُنہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ’’تم بے حیائی (کے کام) کیوں کرتے ہو؟ کیا تم عورتوں کو چھوڑ کر لذّت (حاصل کرنے) کے لیے مَردوں کی طرف مائل ہوتے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ تم احمق لوگ ہو۔‘‘ (سورۃ النمل54,55)حضرت لوط ؑ اپنی قوم کی عادتِ بد کی وجہ سے بڑے فکر مند رہتے اور دن رات اُنہیں نصیحت و تبلیغ کرتے رہتے، لیکن قوم پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا، بلکہ وہ مزید ڈھٹائی اور ہٹ دھرمی کے ساتھ فخریہ انداز میں یہ کام کرنے لگی۔ اس کے ساتھ ہی وہ حضرت لوط ؑ کے ساتھ بھی سخت رویّہ رکھتے اور اُن کی باتوں کا مذاق اُڑاتے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے’’اور قومِ لوط ؑ نے بھی پیغمبروں کو جھٹلایا۔ جب اُن سے اُن کے بھائی، حضرت لوطؑ نے کہا کہ’’تم کیوں نہیں ڈرتے، مَیں تو تمہارا امانت دار پیغمبر ہوں۔ تو اﷲ سے ڈرو اور میرا کہنا مانو اور مَیں تم سے اِس (کام)کا بدلہ نہیں مانگتا، میرا بدلہ (اﷲ) ربّ العالمین کے ذمّے ہے۔ کیا تم اہلِ عالَم میں سے لڑکوں پر مائل ہوتے ہو اور تمہارے پروردگار نے جو تمہارے لیے تمہاری بیویاں پیدا کی ہیں، اُن کو چھوڑ دیتے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ تم حد سے نکل جانے والے ہو۔‘‘ (سورۃ الشعرا 160-166) اُنہیں حضرت لوط ؑ کا سمجھانا بُرا لگتا تھا۔ چناں چہ اُنہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ ’’اگر تم ہمیں اِسی طرح بُرا کہتے رہے اور ہمارے کاموں میں مداخلت کرتے رہے، تو ہم تم کو اپنے شہر سے نکال دیں گے۔‘‘ قرآنِ پاک میں ہے ’’وہ کہنے لگے’’اے ( حضرت ) لوطؑ! اگر تم باز نہ آؤ گے، تو (ہم تم کو) شہر بدر کر دیں گے۔‘‘ (سورۃ الشعرا: 167)

ہم جنس پرستو ! ماضی سے اسلام سے سبق سیکھو ۔۔۔ اور ابھی وقت ہے توبہ کر لو !جب ہم جنس پرست توبہ کی نجائے تکبر غرور اور عذاب خدا کو للکارنے لگے تو اﷲ تعالیٰ کے حکم سے فرشتے حضرت لوط علیہ السّلام کی بستی میں جب وہ سدوم شہر میں پہنچے،تو اُن کی حضرت لوط علیہ السّلام کی صاحب زادی سے ملاقات ہو گئی، جو وہاں پانی بھرنے پہنچی تھیں۔ فرشتوں نے لڑکی سے پوچھا’’ہم یہاں کہیں ٹھہر سکتے ہیں؟‘‘لڑکی نے جواب دیا’’آپ یہیں رُکے رہیں، مَیں واپس آکر بتاتی ہوں۔‘‘ درحقیقت، لڑکی کو ڈر ہوا کہ اگر یہ قوم کے ہاتھ لگ گئے، تو اُن سے بدسلوکی ہو سکتی ہے۔ وہ اپنے والد، حضرت لوطؑ کے پاس تشریف لائیں اور صُورتِ حال سے آگاہ کیا کہ’’اے ابّا جان! شہر کے باہر چند اجنبی نو عُمر لڑکے ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ قوم اُن کو پکڑ لے۔‘‘ قوم نے حضرت لوط ؑ کو مہمانوں کو اپنے ہاں ٹھہرانے سے منع کیا، لیکن اس کے باوجود، وہ چُھپ چُھپا کر اُنھیں اپنے گھر لے آئے۔ (قصص الانبیاء، ابنِ کثیر)

فرمانِ باری تعالیٰ ہے’’اور جب ہمارے فرشتے لوط ؑ کے پاس آئے، تو وہ اُن(کے آنے) سے غم ناک اور تنگ دِل ہوئے اور کہنے لگے کہ’’آج کا دن بڑی مشکل کا دن ہے۔‘‘ (سورۃ ھود 77)مفسّرین فرماتے ہیں کہ یہ فرشتے حضرت جبرائیل ؑ، حضرت میکائیل ؑ اور حضرت اسرافیل ؑ تھے، جو نہایت حَسین و جمیل نوعُمر لڑکوں کی شکل میں تشریف لائے تھے۔ حضرت لوط ؑ نے جب ان خُوب صُورت نوعُمر لڑکوں کو دیکھا، تو سخت گھبراہٹ اور پریشانی میں مبتلا ہو گئے۔ اُنہیں اپنی قوم کی عادتِ قبیحہ کے پیشِ نظر خطرہ تھا کہ نہ جانے قوم ان کے ساتھ کیا سلوک کرے؟حضرت لوط ؑ کی بیوی کافروں سے ملی ہوئی تھی، سو اُس نے نوعُمر لڑکوں کی گھر میں موجودگی کا راز فاش کر دیا۔ یہ سُن کر بستی والے دوڑتے ہوئے حضرت لوطؑ کے گھر پہنچے۔ قرآنِ پاک میں ارشاد ہے’’اور جب قوم دوڑتی ہوئی اُن کے پاس پہنچی، یہ لوگ پہلے ہی سے بُرے کام کیا کرتے تھے، تو لوط ؑ نے کہا اے قوم! یہ جو میری (قوم) کی لڑکیاں ہیں، یہ تمہارے لیے جائز اور پاک ہیں۔ اﷲ سے ڈرو اور مجھے میرے مہمانوں کے بارے میں رسوا نہ کرو۔ کیا تم میں سے کوئی بھی شائستہ آدمی نہیں؟‘‘ (سورۃ ھود: 78)حضرت لوط ؑ کی بات سُن کر وہ لوگ بولے’’(اے ( حضرت ) لوطؑ) کیا ہم نے تم کو سارے جہاں (کی حمایت اور طرف داری) سے منع نہیں کیا تھا؟‘‘ (سورۃ الحجر: 70)’’اور تم بہ خُوبی واقف ہو کہ ہمیں تمہاری بیٹیوں سے کچھ حاجت نہیں اور جو ہماری اصل چاہت ہے، اُس سے تم بہ خُوبی واقف ہو۔‘‘ (سورۃ ھود: 79) قومِ لوطؑ کے اس بے شرمانہ جواب سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ فعلِ بد میں کس حد تک مبتلا ہو چُکی تھی۔مفسّرین لکھتے ہیں کہ جب حضرت لوط ؑ کی قوم اُن کے گھر کی طرف دوڑتی ہوئی آئی، تو حضرت لوطؑ نے گھر کے دروازے بند کر لیے اور ان نوجوانوں کو ایک کمرے میں چُھپا دیا۔ بدکار مسلّح لوگوں نے آپؑ کے گھر کا گھیراؤ کیا ہوا تھا اور اُن میں سے کچھ گھر کی دیوار پر بھی چڑھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ حضرت لوط ؑ اپنے مہمانوں کی عزّت کے خیال سے بہت زیادہ گھبرائے ہوئے تھے۔ چناں چہ اس بے بسی کے عالم میں اُن کے منہ سے نکلا ’’اے کاش! مجھ میں تمہارے مقابلے کی طاقت ہوتی یا کسی مضبوط قلعے میں پناہ پکڑ سکتا۔‘‘ (سورۃھود: 80)

فرشتوں نے جب حضرت لوط ؑ کی بے بسی اور پریشانی کا یہ عالم دیکھاتو بتایا ’’اے ( حضرت ) لوطؑ! ہم تمہار ے ربّ کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں۔ یہ لوگ ہرگز تم تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ کچھ رات باقی رہے، تو اپنے گھر والوں کو لے کر چل دو اور تم میں
 سے کوئی شخص پیچھے مُڑ کر نہ دیکھے، مگر تمہاری بیوی کہ جو آفت اُن پر پڑنے والی ہے، وہی اُس پر پڑے گی۔ اُن کے (عذاب کے) وعدے کا وقت صبح ہے۔ کیا صبح کچھ دُور ہے؟‘‘ (سورۃھود: 81)مفسّرین لکھتے ہیں کہ حضرت لوطؑ حقیقتِ حال جان کر مطمئن ہو گئے اور اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ رات ہی کو نکل کھڑے ہوئے۔ بیوی بھی اُن کے ساتھ تھی، لیکن کچھ دُور جا کر وہ واپس اپنی قوم کی طرف پلٹ گئی اور قوم کے ساتھ جہنّم رسید ہو گئی۔ قوم، حضرت لوطؑ کے گھر کا دروازہ توڑنے پر بضد تھی، چناں چہ حضرت جبرائیل علیہ السّلام نے گھر سے باہر نکل کر اپنے پَر کا ایک کونا اُنہیں مارا، جس سے اُن سب کی آنکھوں کے ڈھیلے باہر نکل آئے اور بصارت زائل ہو گئی۔ یہ خاص عذاب اُن لوگوں کو پہنچا، جو حضرت لوط ؑ کے پاس بدنیّتی سے آئے تھے۔ صبح عذابِ عام میں پوری قوم تباہ ہو گئی۔ (ابنِ کثیر) قرآنِ کریم میں ارشاد ہے’’اور اُنہوں نے ( حضرت لوطؑ) سے اُن کے مہمانوں کو لینا چاہا، تو ہم نے اُن کی آنکھیں اندھی کر دیں۔‘‘ (سورۃ القمر: 37)

صبح کا آغاز ہوتے ہی اﷲ تعالیٰ کے حُکم سے حضرت جبرائیلؑ نے بستی کو اپنے پَر سے اکھیڑا اور پھر اپنے بازو پر رکھ کر آسمان پر چڑھ گئے، حتیٰ کہ آسمان والوں نے بستی کے کُتّوں کے بھونکنے اور مُرغوں کے بولنے کی آوازیں سُنیں، پھر اُس بستی کو زمین پر دے مارا، جس کے بعد اُن پر پتھروں کی بارش ہوئی۔ ہر پتھر پر مرنے والے کا نام لکھا ہوا تھا۔ جب یہ پتھر اُن کو لگتے، تو سر پاش پاش ہو جاتے۔ صبح سویرے شروع ہونے والا یہ عذاب، اشراق تک پوری بستی کو نیست و نابود کر چُکا تھا۔ اگر کوئی شخص بستی سے باہر تھا، تو اُسے وہ پتھر اُسی جگہ جا لگا، جہاں وہ تھا۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں فرمایا ’’پھر جب ہمارا حُکم پہنچا، تو ہم نے وہ بستیاں اُلٹ دیں اور اُس زمین پر کھنگر کے پتھر برسانا شروع کیے، جو لگاتار گر رہے تھے۔ جن پر تمہارے ربّ کی طرف سے خاص نشان بھی تھے اور وہ ظالموں سے کچھ دُور نہیں۔‘‘ (سورۃ ھود: 81-82)

ہم جنس پرستوں اور ہم جنس پرست کے حمایتیوں سے التماس ہے کہ توبہ کر کے شیطانی بہکاوہ سے نکل کر اﷲ کے کرم و فضل کو پالیں تاکہ عذاب خدا سے بچ سکیں
 

Dr Tasawar Hussain Mirza
About the Author: Dr Tasawar Hussain Mirza Read More Articles by Dr Tasawar Hussain Mirza: 301 Articles with 346726 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.