اس ترقی یافتہ دور میں جہاں دنیا نے نت نئی ایجادات
جدید ٹیکنالاجی پائی ہے اور مزید اس کھوج میں مصروف عمل ہے اور کافی حد تک
کامیاب بھی ہے
ایسی ایسی ٹیکنالاجی دریافت کی جو آج سے سو سال پہلے انسان کہ وہم و گمان
میں بھی نہیں تھا
اور اس کے برعکس کچھ ممالک ایسے بھی ہیں جہاں صرف بھوک افلاس بدحالی مایوسی
ہے ویسے تو ان ممالک میں کئی مسائیل ہیں لیکن سب بڑا معمہ ہے بیروزگاری اور
یہی سب مسائل کی جڑ ہے کونکہ جہاں لوگ کا ذریعی معاش نا ہو وہاں پر ہر
مثیبت کی توقع کی جا سکتی ہے
ان ترقی پذیر ممالک میں جہاں لوگوں کو دو وقت کا کھانا میسر نا ہو بھلا ان
لوگوں کو کیا پتا کہ انسانی بنیادی حقوق کس بلا کا نام ہے
ان ترقی پذیر ممالک میں بیشتر دیسوں میں قبائیلی نظام رائیج ہوتا ہے اس
نظام میں زیادہ تر متاثر عورت ہوتی ہے ویسے تو عورت کوکئی مسائیل درپیش
ہوتے ہیں چونکہ میرا مضوع ہے نوعمر میں لڑکیوں کی شادی کا ہونا ہے اس میں
زیادہ تر غریب افریقی ممالک اور ایشیا کے چند ملک شامل ہیں
سب سے زیادہ نو عمر شادیوں کی فہرست میں نائیجیریا سرفہرست آتا ہے جبکہ
بنگلادیش دوسری نمبر پر براجمان ہے اور ہمارا وطن عزیز پاکستان اس دوڑ چھٹے
نمبر پر آتا ہے جو ہماری لیی ایک تشویشناک عمل ہے ارو اب صوتحال سنگینی کی
طرف دھکیل رہی ہے
پاکستان میں اٹھارہ فیصد لڑکیوں کی شادی ان کی قانونی عمر ہونے سے قبل
ہوجاتی ہے
چار فیصد ایسی شادیاں ہیں جو پندرہ سال کی عمر سے قبل ہوجاتی ہیں ویسے تو
جلد شادی کہ ہونے سے کئی مسائیل جنم لیتے ہیں لیکن خاص طور پر ان کی صحت سے
جڑے ہیں اب میرے پاس اس حوالے سے کوئی مستند اعداد و شمار تو موجود نہیں
لیکن میں آپ کو اپنے گاؤں کی صورتحال بتا رہا ہوں چونکہ میرا تعلق تھر سے
ہے تو تھر میں جلد شادی کا بہت ہی زیادہ رجحان پایا جاتا
اب میں صرف ایک گاؤں کی صورتحال بتا رہا ہوں باقی حساب آپ خود لگا سکتے ہیں
اب ہمارے گاؤں میں اگر دس حاملہ خواتین ہیں تو ان میں سے سات ایسی ہیں جن
کو خون کی کمی کا سامنا ہوتا ہے بقیا تین کا بھی صحیح اور مکمل حمل نہیں
ہوتا یا تو آپریشن ہوتا یا کوئی اور وجہ بن جا تی ہے اس کے علاوہ اگر کسی
لڑکی کا حمل صحیح سلامت ہو بھی جاتا ہے تو پھر بچے کی صحت بہت بری ہوتی ہیں
اور صحت کا نظام آپ کے سامنے ہے پہلی تو وہ پئسوں کی لالچ میں آپریشن کرتی
پھر اگر صورتحال کنٹرول سے باہر ہوتی ہے تو حیدرآباد ریفر کر دیتے ہے جو
تقریاً تھر سے تیں سو کلو میٹر دور ہے اور مریض راستےمیں دم توڑ جاتا ہے یہ
ہر گھر کی کہانی ہے
اور اس کے علاوہ دوسرا بڑا اور سنگین مسئلہ ذہنی دباؤ کا شکار ہونا کیونکہ
ایک تو اس شادی میں لڑکی کی رضا شامل نہیں ہوتی دوسرا یہ کہ خاوند کا ہم
عمر نا ہونا
چھوٹی عمر میں شادی ہونا خاوند کا عمر میں بڑا ہونا
ذہنی ہم آہنگی کا نا ہونا
تعلیم کا نا ہونا یہ سب ذہنی دباؤ کا کارن بنتے ہیں.
ظاہر سی بات ہے جب بارہ چودہ سال کی لڑکی ہوگی تو وہ کیسے شادی جیسی بھاری
ذمیواری اْٹھا سگتی ہے
یہ بہت ہی لمحہ فکریہ ہے اس وجہ سے پورا خاندان ٹوٹ جاتا ہے
زیادہ تر لوگ لڑکی کو بوجھ سمجھ کر جلد شادی کروا دیتے ہیں
جلد شادی کے حوالے سے قوانین تو موجود ہے لیکن برائے نام کہ ان پر عمل نہیں
ہوتا،
جلد شادی کی وجہ سے آبادی کا بڑھ جانا بھی ایک پریشان کن امر ہے
کیونکہ اگر آبادی بڑھتی ہے تو وصائیل کم پڑ جاتے ہیں
اب وطن عزیز اس جال میں پوری طرح پھنس چکا ہے
ہندستان,پاکستان ,بنگلادیش میں جلد شادیون کی شرح کے ساتھ آبادی کی بھی شرح
اوپر جا رہے ہے جس کی وجہ سے گورنمنٹ صرف اس جتن میں مصروف عمل ہے کہ کسی
بھی طرح لوگوں کو روزگار فراہم کیا جائے ااس لیے دھڑا دھڑ نئے پاور پلانٹ
,فیکٹریوں میں کئی گنا اضافہ ہو رہا ہے خاص طور پر کوئل پاور پلانٹس کا بڑھ
نا ماحول کے لیے کافی نقصان دہ ثابت ہور رہا ہے رہی سہی کسر ہاوسنگ
سوسائیٹی بنانے کے لیے جنگلات کاٹنے سے پوری کر رہے ہیں جس کی وجہ سے
موسمیاتی تبدیلی میں پچھلے دس سال میں مسلسل گرمی میں اضافہ ہو رہا ہے اور
طوفانی بارشون میں بھی یا تو اضافہ ہو رہا یا بلکل نہیں ہور رہی ہیں
موسمیاتی تبدیلیوں کی صورتحال کو دیکھا جائے تو پچھے دس سالوں میں کئی
تباہیاں آئی جس میں سیلاب کا آنا خشک سالی میں اضافہ طوفانی بارشیں زلزلہ
گرمی کی بڑھتی ہوئی شدت جس سے کراچی میں پانچ سال قبل صرف ایک دن میں ہزار
سے زیادہ لوگ جان بحق ہوگئے تھے اور اب کرونا وائیرس بھی اس کی کڑی ہے
اب دنیا کو دہشتگردی سے زیادہ موسمی تباہ کاریوں سے بچنے پر توجہ دینے ہو
کونکہ دہشتگردی پر قابو پایا جا سگتا ہے لیکن اگر ماحولیاتی بگاڑ حد سے نکل
گیا تو دنیا کو بڑی تباہی سے کوئی نہیں بچا سگتا
اگر ہم نے اپنے آنی والی نسل کا مستقبل محفوظ نا بنایا تو وہ ہمیں کبھی
معاف نہیں کریگی |