ہر ملک میں اس کی ترقی و خوشحالی میں نوجوان نسل کا اہم
کردار ہوتا ہے۔ چاہے وہ ملک کتنا ہی پسماندہ ہو مگر اس کا نوجوان نسل کے
عزم و ولولے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اگر اس وقت ہمارے ملک میں دیکھا جائے
تو اس نوجوان نسل کے نہ ہی Emotional وقت کا اچھی طرح معلوم ہے اور نہ ہی
Determination کا۔ نہ جانے کس وقت جزبہ ایمانی جاگ اٹھتا ہے اور پھر نہ
جانے کہاں چلا جاتا ہے۔ یہ پورے معاشرے کا حال ہے اس میں بذات خود میں بھی
شریک ہوں۔ اگر یہی حال تمام مسلم ممالک کا کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ ان کے
پاس تمام تر وہ وسائل موجود ہیں جس سے ایک ترقی یافتہ اور طاقتور مملکت
بنائی جا سکتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان کے پاس وہ تمام حقائق،سچی
داستانیں اور ایسے تمام علوم موجود ہیں جس سے ایک سدیوں سوہی ہوئی قوم کو
ازسرِنو جگایا جا سکتا ہے۔مگر افسوس اس وقت بھی ان پر جہالت کے بادل چھائے
ہوئے ہیں۔سورج کے ہونے کے باوجود اس سے فاہدہ نہیں اٹھایا جا رہا۔ ابر رحمت
کو بھی ابر زحمت میں بدلا جا رہا ہے۔ مزاحیہ بات یہ ہے کہ مجھے سمجھ نہیں
آتی ان کی تمام چیزوں سے غیر فاہدہ اٹھا رہے ہیں اور یہ بڑے خوش ہیں۔ ان کو
بتانے میں فخر محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے علوم چرا کر غیر اتنی ترقی کر گئے
اور ہم وہی کے وہی رہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہم پیچھے ہیں۔ ہمارے پاس ایک
شاندار ماضی کی داستانیں ہیں۔ ہمارے پاس ہر شعبے میں ترقی کرنے کی مثالیں
ہیں مگر ہم غیر ترقی یافتہ ہیں۔ ان تمام حالات میں اگر دیکھا جائے تو کسی
پر کوئی زمہ داری عائد نہیں ہوتی فقط ہر اس شخص پر جو ایسے معاشرے میں جی
رہا ہے۔جسے معلوم ہے کہ میرا بھی سب کچھ یہی ملت یہی ملک ہے اور میری آنے
والی نسلوں کا بھی تاقیامت۔ اس وقت اس شخص کو ہی چاہئے کہ اس گلستاں کی
ہریالی میں اپنا کردار ادا کرے۔ علامہ اقبال ہو یا قائداعظم کب تک ہم ان کے
تاریخ پیدائش اور وفات پر محض ان کے گن گاہیں گے؟ ان کی بات و سیرت کو کب
تک نہیں اپناہیں گے؟ اگر یہی حال رہا تو ہم ان پر واہ واہ کر کے اس زمہداری
سے بچنا چاہتے ہیں جو ہم پر ان کی طرف سےعائد ہوتی ہے۔ اگر علامہ اقبال نے
کلام لکھا تو کن کے لیے لکھا۔ کیا ان کا پیغام وقت اس دور میں موجود لوگوں
کے لیے تھا یہ ہم پر بھی کچھ زمہداری عائد ہوتی ہے؟ وہ کن کو خواب غفلت سے
جگانے کے لیے تھا کہ تمہارے دشمن تمہیں دن بدن تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں
اور تم ہو جو تقسیم ہو۔ انہوں نے ہمیں ایک ہونے کا درس دیا۔ جیسا کہ امام
علی علیہ الصلاۃ والسلام کا فرمان ہے کہ
"تم حق پر ہونے کے باوجود بکھرے ہوئے ہو اور وہ باطل پر ہو کے بھی متحد
ہیں۔"
اسی طرح ملک بنانے میں بھی مقاصد چھپے ہوئے تھے۔ جن میں تمام مسلمانوں کی
دنیا میں عظمت و خوشحالی اور سب سے اہم بات ایک ہونا شامل تھا۔ ہم کبھی بھی
ان باتوں کو فراموش نہیں کر سکتے۔ آج اگر اس دور میں ہمارے اندر مسلمانوں
کی خوشحالی و ترقی کی آرزو و کوشش نہیں تو ہم بالکل ہی پستی کی گہرائی میں
ہیں۔ ہمیں اس بات کو بخوبی جاننا ہو گا کہ دشمن کس طرح ہمارے لیے باہر
بیٹھا چالیں اور ہماری تباہی کے پروگرام بنا رہا ہے چاہے وہ
بھارت،امریکہ،اسرائیل یا پھر کسی دوسرے ملک کی شکل میں ہو۔ ان تمام
Challenges سے مقابلے کے لیے بیداری ہے اور وہ بیداری آج کے ہر پاکستانی
میں ہونا لازم ہے۔ کیونکہ ہم وہ قوم ہیں جو نہ ہی غلام بن کر جینا پسند
کرتی ہے اور نہ ہی اپنے دوسرے بھائیوں کو اس حال میں دیکھنا۔ اب دشمن کو
ہمارے علاقوں سے کوئی سروکار نہیں ہے اسے ہمارے ذہن چاہئیے اور ذہن بھی صرف
اس طریقے سے بچ سکتے ہیں کہ ہم خدا تعالیٰ سے بڑی مضبوطی کے ساتھ جڑے رہیں۔
ہم اسلام کو صرف عبادات تک نہیں بلکہ اپنے معاشرے میں ہر کردار و گفتار پر
نافذ کریں۔ آج دشمن نے معاشرے میں طرح طرح کی براہیاں پھیلا دی ہیں۔جن کا
شکار دن بدن ہم ہی ہو رہے ہیں۔ اس کا مقصد ہمیں ان براہیوں میں الجھا کر
تباہ و برباد کرنا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ ہمارے سامنے یہ سب کچھ ہو رہا ہے اور
ہم خاموش ہیں۔
کیونکہ بقول علی شریعتی کہ
"زمین مسجد خدا ہے اور تم دیکھ رہے ہو کہ نہیں ہے۔"
شاید ہم پستی کی جانب رواں دواں ہیں حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ہم اس پر خوش
ہیں۔
|