دنیا کا ہر شخص اور ہر ادارہ مصدقہ معلومات تک بروقت
رسائی کا خواہشمند نظر آتا ہے، اور دنیا کی تقریباً تمام حکومتیں بظاہر
آزادیِ اظہارِ رائے کی حامی کہلوانا پسند کرتی ہیں، تمام ممالک اپنے اس
دعوے کو سچ ثابت کرنے کیلئے بڑی بڑی تعویلیں بھی پیش کرتے ہیں ۔ صحافی وہ
طبقہ ہے جو روزاول سے اب تک ہمیشہ اپنی جان کو جوکھوں میں ڈال کر لوگوں کو
بروقت مصدقہ معلومات پہنچانے کا فریضہ انجام دیتا آ رہا ہے۔
آج کے جدید دور میں جہاں انسانی حقوق کے حوالے سے آواز ہر فورم پر سنائی
دیتی ہے اور مختلف ممالک میں انسانی حقوق اور انسانی زندگیوں کو تحفظ دینے
کیلئے بہتر سے بہتر قوانین بنائے جا رہے ہیں، وہاں دنیا بھر میں انسانوں کو
لمحہ بالمحہ باخبر رکھنے والے صحافی آج بھی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔
صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے حوالے سے قوانین تو موجود ہیں لیکن عملی طور
پر صحافی دنیا کے کسی بھی کونے میں محفوظ نہیں ہیں۔
صحافیوں کے حقوق کیلئے کام کرنیوالے بڑے بڑے ادارے اپنے طور پر صحافیوں کو
جانی، مالی، سیاسی وسماجی تحفظ دینے کیلئے کافی آگاہی فراہم کی ہے اور اس
حوالے سے کوششیں ابھی بھی جاری ہیں ۔ لیکن صحافیوں پر تشدد، انہیں اغوا،
ہراساں ، زخمی کرنے، دھمکیاں دینے اور نوکریوں سے نکلوانے جیسے واقعات تو
عام سی بات ہے اور یہ روز مر ہ کا کام شمار کیا جاتا ہے۔ لیکن بات اس سے
کہیں آگے پہنچ چکی ہے لوگ اپنے بارے میں سچ سننے ، دیکھنے اور پڑھنے کا
حوصلہ کھو چکے ہیں جس کی وجہ سے جب بھی کوئی صحافی کسی شخص، حکومت یا ادارے
سے متعلق حقائق سے پردہ اٹھاتا ہے تو اسے اب سب سے بڑا خطرہ جان کا ہوتا ہے۔
گزشتہ چند سالوں میں دنیا بھر میں صحافیوں پر تشدد، اغوا اور قتل کے واقعات
میں خوفناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیاہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق صحافیوں کے
قتل کے 1992 سے سال 2020 کے وسط تک 1400 مصدقہ واقعات سامنے آئے جبکہ اسی
عرصہ کے دوران 1954 صحافیوں کے قتل کی تصدیق کا عمل ابھی تک مکمل نہیں ہو
سکا۔ صحافیوں کی ایک عالمی تنظیم کے مطابق گزشتہ تین دہائیوں کےدوران
صحافتی اداروں سے منسلک 2069 کارکنوں کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔
اہل قلم اور کیمرہ کی جانوں کے دشمن ممالک میں جہاں ترقی پذیر ممالک شامل
ہیں وہاں صحافیوں کی جان لینے والوں میں خود کو آزادی اظہار رائے کے
علمبردار کہلوانے والے ترقی یافتہ ممالک بھی نمایاں نظر آتے ہیں ۔ صحافیوں
کے تحفط کیلئے کام کرنیوالی ایک عالمی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس نے
اپنی ایک تازہ ترین رپورٹ میں سال 2020 کو صحافیوں کیلئے خطرناک ترین سال
قرار دیا۔
سی پی جے کے مطابق رواں سال کام کے دوران صحافیوں کے قتل کی تعداد قتل کے
بدلے قتل کی سزا کے طور پر قتل ہونیوالوں سے دوگنی ہوگئی ، رپورٹ میں بتایا
گیا کہ عالمی سطح پر ، 2020 میں کم از کم 31 صحافی ڈیوٹی پر مارے گئے ، جن
میں 21 انتقامی قتل بھی شامل ہیں جبکہ پچھلے سال یہ تعداد 10 تھی۔ رپورت کے
مطابق اس میں 15 صحافیوں کے قتل کے وہ واقعات شامل نہیں جو ابھی تک مصدقہ
شمار نہیں کیے گئے، اس طرح کل ملا کر سال 2020 کے وسط تک 46 صحافیوں کو موت
کے گھاٹ اتاراگیا۔
صحافیوں کے بڑھتے ہوئے قتل کے واقعات پر کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کے
ایگزیکٹو ڈائریکٹر جوئیل سائمن نے کہا ،کہ یہ امر افسوسناک ہے کہ گذشتہ سال
کے دوران صحافیوں کے قتل دوگنا ہوچکے ہیں ، اور یہ اضافہ بین الاقوامی
برادری کی سزائے موت کی لعنت کا مقابلہ کرنے میں ناکامی کی نمائندگی کرتا
ہے۔
عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق جن ممالک میں قابل ذکر تعداد میں صحافی قتل
ہوئے ان میں میکسیکو اور افغانستان شامل تھے،میکسیکو طویل عرصے سے صحافیوں
کے لئے سب سے خطرناک ملک رہا ہے۔ اس سال بھی وہاں کم سے کم پانچ صحافی مارے
گئے ، جن میں چار صحافی انتقامی کارروائیوں کے نتیجہ میں قتل ہوئے
ہیں۔میکسیکو میں صحافی منشیات کےمتشدداسمگلروں اور بدعنوانیوں کے ماحول میں
کام کرتے ہیں ، اور صدر آندرس مینوئل لوپیز اوبریڈور نے استثنیٰ سے نمٹنے
کے لئے سیاسی مرضی کا مظاہرہ نہیں کیا،ابھی حال ہی میں ایک مشتبہ جرائم
پیشہ گروہ کے ذریعہ ایک قتل اور میڈیا کو لاحق دھمکیوں نے گوریرو ریاست کے
شہر ایگوالا شہر میں صحافتی ذمہ داریوں کو مشکل بنا دیا ہے۔
دنیا بھر میں جرائم پیشہ گروہ صحافیوں کے سب سے زیادہ قاتل ثابت ہوئے تاہم
ایک خاص طور پر خوفناک واقعہ میں ایران میں سرکاری اہلکاروں نے 12 دسمبر کو
صحافی روح اللہ زم کو پھانسی دے دی ، روح اللہ زم کو 2017 کے حکومت مخالف
مظاہروں رپورٹنگ کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔
سی پی جے کے سائمن اس حوالے سے کہا کہ "یہ انتہائی افسوسناک ہے کہ روح اللہ
زم دنیا بھر میں قید صحافیوں کی سی پی جے کی مردم شماری میں دکھائی دیتے
ہیں اور اسی سال ہلاک ہونے والوں کی فہرست بھی۔" امریکہ نے زام کے قتل کے
خلاف اظہار خیال کیا ، ٹرمپ انتظامیہ نے آزادی صحافت کے دفاع کے لئے موقع
پرست طریقہ اختیار کیا ، جیسا کہ 2018 کے صحافی جمال خاشوگی کے قتل میں
سعودی عرب کے عہدے داروں کی مذمت کرنے میں ناکام رہا ہے
عالمی سطح پر ، رواں سال لڑائی یا کراس فائر میں کم ازکم تین صحافی مارے
گئے ، جو 2000 کے بعد سب سے کم ہے ، کیونکہ COVID-19 وبائی امراض نے میڈیا
کی توجہ کا مرکز اور سفر محدود رکھا۔ شام میں تینوں صحافی روسی فضائی حملوں
کے نتیجے میں ہلاک ہوئے تھے
قتل ہونیوالے صحافیوں میں سے کچھ عراق اور نائیجیریا میں شہری بدامنی کی
وجہ سے خطرناک ڈیوٹیوں پر معمور تھے۔
سی پی جےکے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سائمن کے مطابق ان کی تنظیم ابھی بھی اس سال
کم از کم 15 دیگر صحافیوں کی اموات کی تحقیقات کر رہا ہے یہ اطلاعات
افغانستان اور دیگر ممالک سے موصول ہوئیں، سی پی جے کی تحقیقات کا مقصد اس
بات کا تعین کرنا ہے کہ آیا یہ قتل صحافتی فرایض کی ادائیگی کے دوران ہوئیں
یا پھر ذاتی رنجش و بدلہ وصولی کی پاداش میں عمل میں لائی گئیں۔
سائمن نے نتیجہ اخذ کیا کہ قتل و غارت گری میں اضافہ ہورہا ہے اور دنیا بھر
میں قید صحافیوں کی تعداد ایک ریکارڈ کو متاثر کرتی ہے اس کا واضح مظہر ہے
کہ عالمی وبائی بیماری کے درمیان پریس کی آزادی پر غیرمعمولی حملہ کیا
جارہا ہے ، "ہمیں اس خوفناک رجحان کو مسترد کرنے کے لئے اکٹھا ہونا چاہئے۔"
عالمی سطح پر صحافیوں کے قتل کے واقعات میں پاکستان بھی کسی صورت دیگر
ممالک سے پیچھے نہیں ہے، 1992 سے سال 2020 کے وسط تک پاکستان میں لگ بھگ
100 صحافیوں کو قتل کیا گیا۔ پاکستان میں حالیہ چند سالوں سے صحافت انتہائی
مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ پاکستان میں صحافیوں کے قتل اور تشدد کے رپورٹ شدہ
واقعات میں جو اضافہ ہوا اس سے کہیں زیادہ تعداد ایسے واقعات کی ہے جو
رونما تو ہوئے لیکن بدقسمتی سے کسی رپورٹ کا حصہ نہیں بن سکے۔ ان میں
صحافتی فرائض کی ادائیگی میں حائل رکاوٹیں ، عام شہریوں ، حکومتی اداروں کے
اہلکاروں کی طرف سے کوریج کے دوران تشدد ، ہراساں کیے جانے کے واقعات بھی
شامل ہیں عام طور پر ایسے واقعات کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔
|