صحافی کا اپنے ضمیر کو جوابی خط

لوگوں پر ، اداروں پر تنقید کرتے کرتے میری یہ عادت ہوگئی ہے کہ اب میں اپنے اوپر سخت بات برداشت نہیں کر پاتا-اسے میں اپنے انا کے خلاف سمجھتا ہوں کہ اپنے آپ کو کمتر سمجھوں یا اپنے آپ کو غلط سمجھوں . میں ہر حال میں ٹھیک ہوں اور ساری دنیا غلط ہے . بحیثیت یہ میری سوچ ہے جس سوچ نے مجھے کہیں کا نہیں چھوڑا - یہ شکر ہے کہ اللہ تعالی نے لوگوں کی سوچ کو پڑھنے کی صلاحیت نہیں دی - ہاں کچھ لوگوں میں یہ صلاحیت ہوبھی سکتی ہیں جو اللہ تعالی کی ودیعت کردہ ہوتی ہیں لیکن عام لوگوں میں یہ صلاحیت نہیں اس لئے ہم سوچوں میں کیا سے کیا کرتے ہیں یہ اللہ کو پتہ ہے اور وہ ہم سب کا پردہ رکھنے والی ذات ہے-

اے میرے نیم مردہ ضمیر...
تمھارے خط نے مجھے کسی حد تک جگا دیا ہے . آج میں تمھیںتمھارے خط کا جواب دے رہا ہوں. جو حقیقت پر مبنی ہے.
یہ گواہی بھی ہے میرے کردار کی.. ساتھ ہی میرے دل کی آواز بھی .
تو جناب ضمیر صاحب !
پاکستان میں کھیلوں کے فروغ کیلئے سب سے زیادہ متعلقہ محکموں کو ہدف تنقید بنایاجاتا ہے کہ متعلقہ ڈیپارٹمنٹ یا ڈائریکٹریٹ کچھ نہیں کررہا - بحیثیت صحافی سب سے زیادہ تنقید بھی اس پر میں نے ہی کی ہے- لیکن کیا بحیثیت صحافی میں اپنے کردار سے مطمئن ہوں کیا میں اپنے کام سے انصاف کررہا ہوں یہ وہ سوال ہے جس کا جواب میں شائد کبھی نہ دے سکوں -کھیلوں کی شعبے کی رپورٹنگ کرتے ہوئے میری عمر گزر گئی ہے لیکن میں یہاں بھی لکیر کا فقیر ہوں ساری عمر اداروں سے لیکر شخصیات کو خوش کرنے کے چکر میں اپنے قلم سے کبھی انصاف نہیں کرپایا ہوں- اور ان لوگوں کو خوش کرنے کا مقصد صرف ذاتی مفادات ہی ہیں اور کچھ نہیں-لیکن اس کا ذمہ دار صرف میں نہیں میرے ارد گرد بہت سارے عوامل بھی اس میں کارفرما ہے -
لوگوں پر ، اداروں پر تنقید کرتے کرتے میری یہ عادت ہوگئی ہے کہ اب میں اپنے اوپر سخت بات برداشت نہیں کر پاتا-اسے میں اپنے انا کے خلاف سمجھتا ہوں کہ اپنے آپ کو کمتر سمجھوں یا اپنے آپ کو غلط سمجھوں . میں ہر حال میں ٹھیک ہوں اور ساری دنیا غلط ہے . بحیثیت یہ میری سوچ ہے جس سوچ نے مجھے کہیں کا نہیں چھوڑا - یہ شکر ہے کہ اللہ تعالی نے لوگوں کی سوچ کو پڑھنے کی صلاحیت نہیں دی - ہاں کچھ لوگوں میں یہ صلاحیت ہوبھی سکتی ہیں جو اللہ تعالی کی ودیعت کردہ ہوتی ہیں لیکن عام لوگوں میں یہ صلاحیت نہیں اس لئے ہم سوچوں میں کیا سے کیا کرتے ہیں یہ اللہ کو پتہ ہے اور وہ ہم سب کا پردہ رکھنے والی ذات ہے-
تم مجھے بحیثیت ضمیر ہدف تنقید بناتے رہتے ہو لیکن تم بھی تو میرے اندر ہی ہو - تم نے صرف میرا ٹھیکہ لیا ہے کبھی ان کے بارے میں سوچا ہے جو مجھ سے پہلے اس شعبے میں تھے اور اب بھی ہیں اور اس شعبے کے ٹھیکیدار بنے پھرتے ہیں- وہ اس شعبے میں آنے سے قبل کیا تھے اور اب ان کے اثاثہ جات کیا ہے . کیا تم ضمیروں کی کوئی ایسوسی ایشن یا یونین ہے جس میں تم مجھ سے پہلے والے کے ضمیر سے ملکر اسے بھی غیرت دلائو . کہ اٹھو بہت زیادہ حرام خوری کرلی ہے - کیاساری دنیا اپنے ساتھ لیکرقبرستان جائو گے . مجھ سے پہلے اس شعبے کی رپورٹنگ کرنے والوں نے تو لوگ بھی سرکاری اداروں میں بھرتی کروائے -ایسی بھرتیاں کروائی کہ افسران کو یہ کہا کہ یہ لوگ غریب ہیں تاہم بعد میں متعلقہ لوگوں سے رقمیں لی - ڈیپارٹمنٹ کے افسران نے اللہ کی رضا کی خاطر کام کیا اور انہوں نے رقمیں بنا لی-
میرے ضمیر...
آج میں اپنے دل کی بھڑا س نکال کرہی رہونگا .میں آج تمھیں سب کچھ بتا دونگا .
کیونکہ آج عیسوی سال کا آخری دن ہے نیا سال کیسے ہوگا. یہ میرے اللہ کو پتہ ہے . تاہم میں اپنے ساری غلطیوں کا اعتراف کرتا ہوں-اور اللہ کے ہاں دست بہ دعا ہوں کہ مجھے معاف کرے اور مجھے قوی یقین ہے کہ میرا اللہ مجھے معاف کرے گا کیونکہ وہ اتنا رحمان ہے کہ اس کی صرف اس نام کی وسعتوں کا ہمیں اندازہ ہی نہیں. باقی نام تو بہت زیادہ ہیں .
خیر...
یہ ٹھیک ہے کہ میں کھیلوں کی کئی سالوں سے کررہا ہوں لیکن اس کی وجہ یہی ہے کہ مجھے اور کچھ آتا بھی نہیں - صحافت کے کسی دوسرے شعبوں میں جاتے ہوئے میں بالکل زیرو ہو ں-اسی بناء پر میں نے کھیلوں کے فروغ کے نام پر لوگوں کو لکھتے ہوئے دھوکہ دیتا ہوں-کیا یہ کھیلوں کے فروغ سے زیادہ اہم یہ چیز نہیں کہ میں سچ لکھوں. وہ سچ جس کے بارے میںحدیث نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہے کہ مومن سے ہر گناہ ہوسکتا ہے لیکن وہ جھوٹا نہیںہو سکتا.لیکن میں علی اعلان لکھتا اور کہتا ہوں کہ میں انتہائی جھوٹا صحافی ہوں.
اتنا جھوٹا تو کوئی بھی نہیں ہوسکتا کیونکہ کسی شخص کا ایک جھوٹ تو صرف اس کی ذات تک محدود ہوتا ہے لیکن میرا جھوٹ پورے معاشرے میں بگاڑ پیدا کرتا ہے کیونکہ میں وہ ظاہر نہیں کرتا جو ہوتا ہے بلکہ وہ ظاہر کرتا ہوں جس سے مجھے فائدہ ہو-
کھیلوں کی رپورٹنگ کرتے ہوئے میں نے کبھی یہ نہیں لکھا کہ کھلاڑیوں کیساتھ کتنی زیادتیاں ہوتی ہیں خواہ وہ ایسوسی ایشن کی جانب سے ہو ، اداروں کی جانب سے یا شخصیات کی جانب سے ، جو اپنے مفادات اور سیاست کیلئے کھلاڑیوں کو استعمال کرتے ہیں- میں نے کبھی ان کے بارے میںنہیں لکھاکہ کھیلوں کی سیاست پر اثر انداز شخصیات کے اثاثہ جات کیا سے کیا بن گئے ، کس نے غیر ملکی دوروں کے نام پر اپنے رشتہ داروں کو باہر ڈالر کمانے کیلئے بھجوایا- کونسی کھیلوں کی ایسوسی ایشنز جعلی ہیں - دفاتر کہاں پر ہیں - مختلف اضلاع میں ان کے نمائندے کہاں پر ہیں- انتخابات کب ہوئے اور کس کی نگرانی میں ہوئے -
میں نے کبھی یہ نہیں لکھا کہ ایسوسی ایشن ، فیڈریشن پر قابض مافیا کس حد تک ہیومن ٹریفکنگ میں ملوث ہے کیونکہ میں بھی اس کا حصہ ہوں-بحیثیت صحافی میں نے بھی اس معاملے میں ہاتھ رنگے ہیں-میں نے بھی رقمیں لیکر بہت سارے لوگوں کو باہر بھجوایا ہے ان میں ایسے بھی شامل ہیں جنہیں لکھنا تو کیا بولنا بھی نہیںآتا لیکن جعلی لیٹر پیڈوں پر میں نے ان کی تصدیق کردی اور وہ اب یورپ سمیت مختلف ممالک میں بیٹھ کر ڈالر کمارہے ہیں -
میرے ضمیر!
میں کیا کروں-میں بھی اس معاشرے کا حصہ ہوں میں بھی صبح و شام بڑی گاڑیوں اور عہدوں والے لوگوں کیساتھ اٹھتا بیٹھتا ہوں - مجھے بھی پرانے کپڑوں اور پرانے جوتے پہنتے ہوئے شرم آتی ہے اورمیں احساس کمتری کا شکار ہوتا ہوں-اپنی اسی احساس کمتری کو ختم کرنے کیلئے میں نے بطور صحافی حلال حرام کی تمیز چھوڑ دی ہے اور زیادہ سے زیادہ کمانے کی لالچ نے مجھے حرص اور ہوس میں مبتلاکیا ہے-
ہاں میں اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ زندگی کی سب سے گری ہوئی حرکت مجھ سے کھیلوں کے شعبے میں آنے کے بعد ہوئی -جس کا اللہ کو پتہ ہے اور ا س نے میرا پردہ رکھا ہے
ہاں میں اس بات کا بھی اعتراف کرتا ہوں کہ میں نے دوران رپورٹنگ کھیلوں کے مختلف ایسوسی ایشنز کی طرف سے کھلاڑیوں کو کم دئیے جانیوالے ڈیلی جو سپورٹس ڈائریکٹریٹ فراہم کرتی ہیں پر کوئی خبرنہیں بنائی کیونکہ مجھے ایسوسی ایشن نے رقم دی تھی اور میرا منہ بند کردیا تھا -ہاں مجھے کبھی رقم ملی کبھی شوز ملے اور کبھی سپورٹس کٹ ملی جس کا میں سال کے اس آخری دن اعتراف کرتا ہوں-
بحیثیت لکھاری میرا یہ بھی فرض ہے کہ میں سچ لکھوں لیکن میرے ضمیر...
میں کیا کروں- منہ بند رکھنے کی بھی اپنی ایک قیمت ہوتی ہے اور لوگ میری اوقات کے مطابق میری قیمت ادا کرتے رہتے ہیں-اس وجہ سے میرا قلم اس طرح نہیں چلتا جس طرح اسے چلنا چاہئیے .
سال کے اس آخری دن میں اس بات کا بھی اعتراف کرتا ہوںکہ میں کھیلوں کے فروغ کے نام پر نہ صرف اپنے آپ کو بلکہ کھلاڑیوں ، ایسوسی ایشنز ، سپورٹس ڈائریکٹریٹ سمیت ہر ایک کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتاہوں -
میں اسکا بھی اعتراف کرتا ہوں کہ میں نے کھیلوں کے مختلف پروگراموں میں ٹھیکے بھی لئے یہ ٹھیکے میں نے جعلی ناموں سے لئے اسی باعث بعض اوقات میر ے ساتھ بھی زیادتی ہوئی اور بہت سارے لوگوںنے مجھ سے لاکھوں روپے کی رقم کھالی -یہ بھی میرے حرص کی انتہا ہے کہ میں نے ہی اپنے کمزور ساتھیوں کے نام پر ڈائریکٹریٹ سے دی جانیوالی رقم جعلی دستخطوں سے کھا لی اور انہیں ٹھینگا دکھا دیا ...
میرے ضمیر !
یہ میرا پہلا خط ہے وہ بھی اس لئے کہ سال کا اختتام ہونے کو ہے.. میں نئے سال کے آغاز میں تمھیں دوسرا خط بھی لکھوں گا..میں نے اب تہیہ کیا ہے کہ سچ لکھوں گا. جس کی تم مجھے ہر وقت تلقین کیا کرتے تھے..

شکریہ

سپورٹس رپورٹر

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 637 Articles with 499458 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More