ہمارے پیارے رشتے

ہمارے ابّا کا خاندان تین بھایوں اور ایک بہن پر مشتمل تھا. ہماری بدنصیبی کے ہم نے اپنے دادا دادی اور پھوپھی کو نہیں دیکھا کیوں کے وہ لوگ بوہت پہلے دنیا سے چلے گئے . ہمارے ددھیال کا تعلّق انڈیا کے علاقے بہار سے تھا . ہماری دادی، بڑے ابّا، پھوپھی اور ہمارے ابّا نے انڈیا سے ہجرت کی اور کراچی آے. ہماری پھوپھی اپنے بھایوں کی اکلوتی بہن تھی اس وجہہ سے بوہت لاڈلی تھیں.

امی بتاتی تھیں کے ہماری دادی اور ہماری پھوپھی بوہت اچھی تھی. ہم نے ان کو کبھی نہیں دیکھا مگر ان کے بارے می بوہت کچھ سنا میری امی کی جب میرے ابّا سے شادی ہوئی تو اس وقت وہ صرف تیرہ سال کی تھی جب کے میرے ابّا کی یہ دوسری شادی تھی کیوں کے ان کی پہلی بیوی کا انتقال ہو چکا تھا جن سے ان کے تین بچیے بھی تھے.

کیوں کے میری والدہ بوہت کم عمر تھی اسی لیے انھوں نے سب کچھ میری دادی سے سیکھا. امی ھمیشہ میری دادی اور پھوپھی کی بوہت تعریف کرتی تھی جس کی وجہہ سے ہمارے دل می ایک خلش سی ہوتی تھی کے کاش ہم لوگوں نے ان سب کو دیکھا ہوتا ان کے ساتھ وقت گزارا ہوتا تو کتنا مزہ آتا .

خیر جب ہم چھوٹے تھے تو میرے ابّا کی خالہ زاد بہنیں ہمارے گھر رہنے آیا کرتی تھی خیرو پھوا اور مانگو پھوا. خیرو پھوا تو مہینوں رہتی تھی اور مانگو پھوا ہفتے میں دو سے تین چکّر لگایا کرتی تھیں . کیوں کے پہلے کے لوگ اپنے رشتے داروں کے بچوں سے بھی ایسا ہی پیار کرتے تھے .

وہ دونوں ہماری سگی پھوپپیاں نہیں تھیں مگر ہم سے موحبّت ایسے ہی کرتی تھیں. مجھے آج تک یاد ہے کے وہ لوگ کس ترھا امی سے فرمایشیں کر کے چیزیں بنواتی تھیں اور ہماری امی بھی ان کے سارے کام خوشی خوشی کرتی تھیں اور کبھی ناراض نہیں ہوتی تھیں جب کے اس زمانے می کام والی ماسی کا بھی کوئی وجود نہ تھا..

بات کہنے کا مطلب یہ ہے کے آج کل ایسا کیوں نہیں ہے؟ آج کل سگے رشتوں کو برداشت نہیں کیا جاتا تو خالہ زاد تو کسی گننتی میں نہیں . بچوں کے دلوں میں سے احترام اور موحبّت ختم ہو چکی ہے آج کی نسل صرف اپنے ماں باپ اور بھائی بہن کو ہی اپنی فیملی سمجھتے ہیں ، جب تک سب کی شادیاں نہیں ہو جاتیں اور جو یہ اتنے پیارے رشتے ہیں وہ تو کہی بوہت دور رہ گئے ہیں.

شاید ہم لوگ آخری لوگ تھے جنہوں نے اتناپیارا وقت گزاراجب ہر وقت کوئی نہ کوئی پیارا رشتہ آپ کے ساتھ ہوتا تھا جیسے نانی نانا دادی دادا اور اس کے علاوہ خالہ ماموں پھوپھی چچا . آج کل لوگوں کے دل اتنے تنگ ہو گیے ہیں کے ان سے اتنے خوبصورت رشتے سمبھالے نہیں جاتے.

یقین کریں جب کبھی وہ دور یاد اتا ہے تو می اکثر سوچتا ہوں کے ہمارے والدین کس مٹی کے بنے تھے جو یہ سب رشتوں کو لے کر بڑی خوبصورتی کے ساتھ چلتے تھے ہم لوگوں کو ہمیشہ یہ تلقین ہوتی تھی کے خود تکلیف کر لو مگر مہمان کو تکلیف نہیں ہونی ہے . کیسا حسین اور سنہرا دور تھا وہ جب سب مل کے زندگی کو انجونے کرتے تھے دکھ اور سکھ بانٹے تھے . برکت ہی برکت تھی .

جبھی میں نے یہ دیکھا کے اب آہستہ آہستہ فیملی سسٹم ختم ہو رہا ہے اور بوہت جلد وہ وقت آ رہا ہے جب آنے والی نسل شادی ہوتے ہی والیدیں کو بھی فیملی نہیں سمجھتی صرف اپنے بیوی بچوں کو فیملی سمجھا جاتا ہے . جب تک والدین اپنے بچوں کو ان رشتوں کی خوبصورتی اور اہمیت کے بارے میں نہیں سمجھاے گے ان کو یہ بات نہیں سمجھ آے گی .

میرے ایک بوہت اچھے دوست ہیں میں نے دیکھا کے جب تک ان کے بچے چھوٹے تھے تو ان بچوں کی نانی ان کے ساتھ رہتی تھیں مگر جیسے ہی ان کے بچے بڑے ھوئے تو نانی کے لیے گھر میں جگہ نہیں رہی جب میں نے ان سے سوال کیا کے اماں بی کہاں ہیں تو ان کا کہنا تھا کے میرے بچے کہتے ہیں کے وہ اب بڑے ہو گیے ہیں اور کسی کی شیئرنگ اب اس گھر میں نہیں پسند کرتے چاہیے وہ کوئی بھی ہو، اسی لیے اماں بی اپنے دوسرے بچوں کے گھر چلی گی ہیں ، تو میں نے ان کو کہا چلیں ان کے تو اور بچے تھے وہ چلی گیئ آپ کا تو ایک ہے کل جب اس کے بچے آپ لوگوں کو یہ بات کہے گے تو آپ لوگوں کا کیا ہو گا؟ اس کے بعد سے انھوں نے ہم سے بھی ملنا چھوڑ دیا.

اللہ ہم سب کوان رشتوں کی اہمیت اور خوبصورتی کو سمجھنے کی توفیق دے . آمین
 

Syed Ahmed
About the Author: Syed Ahmed Read More Articles by Syed Ahmed: 2 Articles with 1116 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.