چار سوالات اور منکر حِدیث لاجواب
(ishrat iqbal warsi, Mirpurkhas)
قارئین محترم السلامُ علیکم
خیر اور شر,, کا معرکہ اُسی دِن سے شروع ہوگیا تھا جب اللہ کریم نے شرف وعزت کا تاج سیدنا آدم صفی اللہ علیہ السلام کے سر پر سجا دیا تھا۔ اِس معرکے میں فرشتوں نے سر نیاز جھکا دیا جسکی بدولت اُن کے حصے میں خیر کی سعادت آئی جبکہ شیطان ِ لعین نے سر جھکانے کو غُلامی سے تعبیر کیا اور اپنے وجود کو اللہ کے نبی علیہ السلام سے بہتر ثابت کرنے کیلئے منطقی دلیلوں اور سوال و جواب میں اُلجھ گیا جسکی وجہ سے حُکم خُدا کی نافرمانی کا مُرتکب ہو کر شر کی اَتاہ گہرائیوں میں جا پڑا۔
جسکے بعد مخلوق دو حِصوں میں تقسیم ہوگئی ایک خیر کی طلبگار تُو دوسری شر کی مددگار۔ سیدنا آدم علیہ السلام کی دُنیا میں آمد کیساتھ ہی شیطان نے اپنی ذریت میں اضافے کی راہ ہموار کرنی شروع کردی اور یہ سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ باعث تخلیق کائینات سرورِ انبیاءَمحبوبِ رَبِّ کبریا صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی خبر تمام جہانوں میں نوید سحر کی خُوشبو کی طرح پھیلنے لگی تیرگی چھٹنے لگی ۔آتشکدے بجھنے لگے۔ بُت اُوندھے مُنہ گرنے لگے ۔
کلام مُصفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہک مردہ دِلوں میں توحید کی روح پھونکنے لگی جس کی وجہ سے لوگ جوق در جوق شر سے اپنے دامنوں کو چُھڑا چُھڑا کر خیر اور پاکیزگی کے دامن میں سِمٹ سِمٹ کر مغفرت کی اُمید پر رِحمتوں کے سائے میں پناہ تلاش کرنے لگے ۔
شیطان لعین کو جب اپنی ہزاروں برس کی محنت بے ثمر نظر آنے لگی تو وہ دیوانوں کی طرح واویلا مچانے لگا۔ ناکامی اور حسرت سے اپنے سر پہ خاک ڈالنے لگا۔
تب اُ س نے دو سِمتوں میں محاذِ جنگ کھولنے کا اِرادہ کیا ۔ جسکے ذریعے سے ایک جانب وہ اپنی ذریت کو ایمان کی دولت سے محفوظ رکھنے کی ناکام سعی میں مصروف تھا تُو دوسری جانب ایسے لوگوں کی تلاش میں سرگرداں تھا جو دِینِ رِحمت کے گھنے سائے میں آخرت کی ٹھنڈی چھاؤں کے بھی طلبگار تھے لیکن ابھی تک اپنے نفس کی غلامی کا شکار تھے اور انا پرستی کے عفریت کے زیردام تھے۔
چُونکہ شیطان لعین پر یہ راز آشکار ہُوچُکا تھا کہ اگر کوئی بات اللہ کریم کی ناراضگی کا باعث بن سکتی ہے تُو وہ یہی بات ہے کہ اللہ کریم کے انبیاءَ کرام علیہم السلام کی برابری کا دعوی کردِیا جائے جب سیدنا آدم علیہ السلام کی برابری کا دعوٰی ابلیس کو لعنت کا طوق پہنا سکتا ہے ۔تو جِسے اللہ کریم کے محبوب ہونے کا شرف حاصل ہوجائے اور کوئی اُنکی برابری کا دعویٰ کرے گا تو کیوں اُسکی دُنیا اور عُقبیٰ خراب نہ ہُوگی۔ پس شیطانِ لعین کو ایسے لوگوں کے دِلوں میں (سب سے پہلے اپنی خُودی اپنی عزت کا اِحساس پیدا کرنا ضروری تھا)۔ جسکے بعد ہی وہ اپنے غلیظ خیالات کی آبیاری سےمُنافقین کے دِل و دِماغ میں تعفن پیدا کرسکتا تھا۔
سو اُس نے چند ایسے لوگوں کو ڈھونڈ نِکالا جِسمیں رہیس المنافقین عبداللہ بن اُبی اور ذوالخویصرہ کے نام نُمایاں ہیں شیطان لعین اِن لوگوں کے دِلوں میں یہ بات ڈالنے میں کامیاب ہوگیا ۔ کہ مُحمد بن عبداللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) اور تُم لوگوں میں کوئی فرق نہیں ( وہ بھی تُمہارے جیسے انسان ہیں) بس فرق ہے تو اِتنا کہ وہ اللہ کے رسول ہیں۔
اور چُونکہ مُحَّمد بن عبداللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بعثت کا مقصد صرف اِتنا ہے کہ اللہ عزوجل کا پیغام تُم تک پُہنچادیا جائے لِہذا اُنکے پیغام کو قبول کر لیا جائے اور نبی اکرم صلی اللہُ علیہ وسلم کی دیگر تعلیمات یا آیات قران کی تشریح کو پس پُشت ڈال دِیا جائے۔
اللہ کریم شیطان لعین کی اِن حرکات اور چال کو دیکھ رہا تھا اور جانتا تھا کہ مستقبل میں بھی ذوالخویصرہ کی معنوی اولاد اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بیزاری کا نعرہ بلند کرے گی لِہذا اللہ کریم نے جا بجا قران مجید میں اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اِحکامات کے ذریعہ سے شیطان کے مکر و فریب کی چال کو اُلٹ ڈالا۔
لہذا قران مجید میں صلواۃ کا حُکم ضرور دیا گیا لیکن طریقہ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم پر چھوڑ دِیا گیا کہ جِس طرح میرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم ادا کریں تُم انکی پیروی کرتے چلے جاؤ۔
زکواۃ صاحب نصاب پر فرض کردی گئی لیکن اسکی شرح کا فیصلہ انبیاءَ کے سالار صلی اللہ علیہ وسلم کی صوابدید پر چھوڑ دِیا گیا۔
حج کی ادائیگی کا حُکم نافذ کردِیا گیا لیکن حج کس طرح کرنا ہے یہ مدنی مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع پر منحصر رہا ۔
الغرض دین کے تمام ستونوں کو کریم آقا علیہ الصلواۃ والسلام کی ادا سے مشروط کردِیا گیا کیونکہ اللہ کریم علیم و خبیر ہے ازل سے جانتا ہے کہ مخلوق میں کُچھ نادان اور ظالم لوگ ،، اطاعت مُصطٰفی صلی اللہ علیہ وسلم کو غُلامی سے تعبیر کریں گے اور فرائض و واجبات سے جان چھڑانے کیلئے سُنت محبوب صلی اللہ علیہ وسلم سے جان چھڑانے کیلئے،، اطاعت صرف اللہ کی،، کا نعرہ بُلند کریں گے۔
لیکن میرے رَبّ عزوجل نے شیطان اور اُسکی ذریت کا مکر اپنی تدبیر سے اُنہی پر اُلٹ دِیا اور قران کریم میں اُن لوگوں کو قیامت تک کیلئے ارشاد فرمادیا ۔ قُل اِن کُنتم تُحبونَ اللہ فاتبعونی یحببکمُ اللہ (سورہ آلِ عمران۔31)۔
ترجمہ ،، آپ فرمادیجئے اگر تُم اللہ تعالی سے مُحبت رکھتے ہُو تو میری اتباع کرو اللہ تعالی تُم سے مُحبت کرے گا
گُویاکہ ارشاد فرمایاجا رہا ہے،، اے مجھ سے مُحبت کا دعوی کرنے والو۔ اے عبداللہ کہلوا کر بھی میرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے سے بغاوت کا عَلَم بُلند کرنے والو ۔اگر تُم سچے ہُو اور واقعی مُجھ سے مُحبت کرتے ہو تو پہلے میرے مکی مدنی محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی غُلامی کا پٹّہ اپنی گردنوں میں ڈال لُو اور جب تُم یہ پٹہ اپنی گردنوں میں ڈال لو گے تُو پھر تُمہیں مجھ سے مُحبت کا دعویٰ نہیں کرنا پڑے گا بلکہ میں خُود تُم سے مُحبت کرونگا اسکے سِوا تُمہارے پاس کوئی راہ نہیں کہ میری مُحبت پاسکو میرے عشق کے دعوے کرسکو سُنو اگر تُم نے میرے مِحبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کو چھوڑ کر میری مُحبت کا دعوی کیا تُو تُم جھوٹے ہُو کیونکہ میرے محبوب (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اطاعت کے بِنا میرے اطاعت ہرگز نہ کرپاؤ گے۔
قارئین محترم منکرین حدیث کا فتنہ کوئی نئی بات نہیں اِس فتنے کا موجد ذوالخویصرہ تھا جو کہ ایک بے ادب اور گُستاخ انسان تھا جسکے متعلق بُخاری شریف میں دس سے زائد اَحادیث مبارکہ موجود ہیں اِسی ذوالخویصرہ کی جماعت کو ابتدا میں خارجی جماعت بھی کہا گیا۔ اِسی جماعت کے لوگوں نے اصحاب الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرائیں اور جنگ کا ماحول پیدا کرتے رہے۔ جنگ جمل اور جنگ صفین بھی انہی کی ناپاک سازش کا شاخسانہ تھی۔ کئی مشہور اصحاب الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت انہی بد بختوں کے ہاتھ سے ہُوئی یہ جماعت اپنے سِوا تمام مسلمانوں بشمول صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کو اسلام سے خارج سمجھتی تھی اور آج تک اِسی ذوالخویصرہ کی معنوی اولاد صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کے کردار پر شکوک اور شبہات کی کیچڑ اچھالتی ہے ۔
منکرین حدیث خارجیوں کے عقائد۔
اطاعت صرف اللہ کی۔
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور کُتب سیرت کی اہمیت کا انکار( کیونکہ اُنکی نظر میں وہ غیر معتبر ہیں)
صحابہ کرام (رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین) ظالم تھے (معاذ اللہ)
اولیاءَاللہ سے تعلق رکھنے کو ناجائز سمجھتے ہیں۔
اپنے سِوا رُوئے زمین کے تمام مسلمانوں کو کافر اور مشرک سمجھتے ہیں۔
جِس سے کبیرہ گُناہ سرزد ہوجائے اُسے گنہگار نہیں بلکہ کافر سمجھتے ہیں۔
قران مجید میں جو آیات کافروں کیلئے نازل ہُوئیں اُنہیں مسلمانوں پر تھوپنے میں فخر محسوس کرتے ہیں
قارئین محترم الحمد للہِ عزوجل پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے جِسمیں کروڑوں جانثارانِ مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم رہتے ہیں جسکی وجہ سے اِن خارجین اور منکرین حدیث کی کبھی اتنی ہمت نہیں ہُوئی کہ وہ عوام کے سامنے اپنے غلیظ عقائد کا برملا اظہار کرسکیں اور اگر کوئی انتہائی درجہ کا بے وقوف اگر ایسی کوئی حِماقت کر بیٹھے تو ہم نے اُسکا حشر بھی دیکھا ہے۔
اسلئے یہ لوگ اپنے عقائد کا اظہار صرف وہاں کرتے ہیں جہاں اِنہیں مکمل یقین ہُوتا ہے کہ سامنے والے کو بالکل بھی دین اسلام سے متعلق کوئی آگاہی نہیں ہے یا پھر انٹرنیٹ پر اپنے مقام کو خُفیہ رکھتے ہُوئے تبلیغ کا کام کرتے ہیں یہاں بھی وہ اپنا اصل مقام یا رابطہ کا طریقہ ظاہر نہیں کرتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ایسی صورت میں کوئی غازی علم الدین ، ممتاز قادری ، یا عامر چیمہ شہید کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انکے گُستاخانہ عقائد کی وجہ سے اِنہیں عبرتناک موت کےانجام سے ہمکنار کرتے ہُوئے جہنم واصل کر سکتا ہے۔
انشاءَ اللہ عزوجل اگلی قسط میں وہ چار سوال پیش کرونگا جسکا جواب کوئی مُنکرِ حدیث اپنی تمام ذریت اور شیطانی لشکروں کی مدد سے بھی نہیں دے پائے گا اسلئے( چار سوالات اور منکر حدیث حصہ دوئم )بھی ضرور پڑہیئے گا تاکہ کبھی زندگی میں اگر آپکا سامنا کسی مُنکر حدیث سے ہوجائے تو انہی چار سوالات کے ذریعے سے اِن گُستاخوں کو لاجواب کر سکیں٠ |