انسان کے پاس اصلی دولت وقت ہے

زندگی وقت سے عبارت ہے
عبدالعزیز/ خالد یزدانی
جو لوگ محض دنیا کے لئے جیتے ہیں وہ خسارے میں ہوتے ہیں۔ یہاں کے لیے آپ جوکچھ بھی کرلیں مگر آخرت کے لیے کچھ بھی نہ کریں تو دوسری دنیا میں کف افسوس ملنا ہوگا۔ ’’ زمانے کی قسم سارے انسان خسارے میں ہیں سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے نیک اعمال کرتے رہے، اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے‘‘(العصر)

وقت برف کی طرح پگھلتا ہے۔ امام رازیؒ نے کسی بزرگ کا قول نقل کیا ہے کہ ’’میں نے سورہ عصر کا مطلب ایک برف فروش سے سمجھا جو بازار میں آواز لگا رہا تھا کہ رحم کرو اس شخص پر جس کا سر مایہ گھلا جارہا ہے۔ اس کی یہ بات سن کر میں نے کہا یہ ہے والعصر ان االا نسان لفی خسر کا مطلب:عمر کی جو مدت انسان کو دی گئی ہے وہ برف کے گھلنے کی طرح تیزی سے گزر رہی ہے اس کو اگر ضائع کیا جائے تو یہی انسان کا خسارہ ہے‘‘ یہ وقت جس تیز رفتاری کے ساتھ گزر رہا ہے اس کا اندازہ تھوڑی دیر کیلئے اپنی گھڑی میں سکینڈ کی سو ئی کو حرکت کر تے ہوئے دیکھنے سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا۔ حالانکہ ایک سیکنڈ بھی وقت کی بہت بڑی مقدار ہے۔ اسی ایک سیکنڈ میں روشنی ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل کا راستہ طے کر لیتی ہے، خدا کی خدائی میں بہت سی چیزیں ایسی بھی ہوسکتی ہیں جو اس سے بھی زیادہ تیز رفتار ہوں خواہ ابھی تک ہمارے علم میں نہ ہوں۔ کچھ لوگ اپنی عمر کے ایک سال گز رنے پر دوسرے سال کا استقبال کرتے ہیں سال نو کا جشن مناتے ہیں‘ حالانکہ کی ان کی زندگی کا ایک سال کم ہوجاتا ہے ۔

وقت ایک گراں مایہ دولت ہے اور یہ دولت تقاضا کرتی ہے کہ اسے ضائع نہ کیا جائے۔ کیونکہ اگر انسان کی سستی یا بے پروائی سے وقت ہاتھ سے نکل گیا تو یہ واپس نہیں آتا۔ تاریخ شاہد ہے کہ کامیابی و کامرانی ہمیشہ ان ہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جو وقت شناس اور اس کے قدر دان ہوتے ہیں اور ہاتھ پر ہاتھ دھرنے اور خیالی پلاؤ پکانے میں مگن رہنے والوں کے خیالوں کی کوئی تعبیر نہیں ہوتی اور نہ وقت ان کے ہاتھ میں رہتا ہے فارسی کا مشہور مقولہ ہے وقت ازدست رفتہ و تیز از کمان جستہ بازینا ید۔

یعنی ہاتھ سے گیا وقت اور کمان سے نکلا تیر واپس نہیں آتا اور اور بنی آخرالزمانؐ نے بھی وقت کی اہمیت پر فرمایا‘ دو نعمتیں ایسی ہیں کہ اکثر لوگ ان کی قدر نہیں کرتے‘ وقت اورصحت (صحیح البخاری)
عربی کے معروف عالم ڈاکٹر یوسف القرضاوی نے ’’الوقت فی حیاۃ المسلم‘‘ میں قرآن و سنت کی روشنی میں وقت کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا کہ میں وقت اور مسلمان کی زندگی میں اس کی قدرو قیمت کے عنوان سے اخبارات میں لکھ رہا تھا کہ دوران مطالعہ میں نے د یکھا کہ قرون اولیٰ کے مسلمان اپنے اوقات کے سلسلے میں اتنے حریص تھے کہ ان کی یہ حرص ان کے بعد کے لوگوں کی درہم و دینار کی حرص سے بھی بڑھی ہوئی تھی ۔حرص کے سبب ان کے لئے علم نافع، عمل صالح، جہاد اور فتح مبین کا حصول ممکن ہوا اور اس کے نتیجے میں وہ تہذیب وجود میں آئی جس کی جڑیں انتہائی گہری ہیں۔ پھر میں آج کی دنیا میں مسلمانوں کے ساتھ رہتے ہوئے دیکھ رہا ہوں کہ وہ کس طرح اپنے اوقات کو ضائع کر رہے ہیں۔ حالانکہ ایک دن وہ بھی تھا کہ زمام کار ان کے ہاتھ میں تھی۔ اسلامی فرائض و آداب وقت کی قدرو قیمت اور اس کی اہمیت کو اپنے ہر مرحلے میں بلکہ ہرجزو میں بھر پور طریقے سے واضح کرتے ہیں اور انسان کے اندر کائنات کی گردش اور شب و روز کی آمد ورفت کے ساتھ وقت کی اہمیت کا احساس اور شعور بیدار کرتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ وقت برق رفتار ہوتاہے اور گزرا ہوا وقت پھر واپس نہیں آتا اور نہ ہی اس کاکوئی بدل ہوتا ہے اس لئے یہ انسان کی سب سے قیمتی متاع ہے۔ اور اس کی قدرو قیمت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ ہر عمل اور نتیجہ کیلئے وقت درکار ہے بلکہ انفرادی اور اجتماعی دونوں حیثیت میں انسان کا حقیقی سرمایہ وقت ہی ہے۔

بقول حسن البناشہید ’’وقت ہی زندگی ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ انسان کی زندگی اس وقت سے عبارت ہے جسے وہ پیدائش کی گھڑی سے لے کر آخری سانس تک گزارتا ہے۔ جب وقت کی اتنی زیادہ اہمیت ہے یہاں تک کہ وقت ہی کو زندگی سے تعبیر کیا گیا ہے تو ایک مسلمان پر وقت کے اعتبار سے بڑی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اس لئے اسے چاہئے کہ وہ ان ذمہ داریوں کو سمجھے اور ہمیشہ انہیں پیش نظر رکھے اور علم و ادراک کے دائرے سے آگے بڑھ کر انہیں عملی جامع پہنانے کی کوشش کرے۔

ہمارے اسلاف کرام نے علمی و عملی زندگیوں میں جو عالی مقام حاصل کیا اورمیدان میں منوایا یہ سب وقت کی قدر کرنے اور اسے اپنے کام میں لانے ہی کی بدولت ہے۔ ان کی عالی ہمت اور جذبہ و شوق کا اندازہ ان کی عملی خدمات سے لگایا جاسکتا ہے۔ کہ ان کی نظر میں وقت کی کتنی اہمیت تھی۔ آج کی ترقی یافتہ اور تیز رفتار دور میں دیکھنے میں آیا کہ عموماً لوگ وقت کی قدرو قیمت نہیں پہچانتے شاید انہیں معلوم ہیں کہ انسان کے لئے ہاتھ میں اصلی دولت وقت ہی ہے جس نے وقت ضائع کردیا، اس نے سب کچھ ضائع کردیا۔

آج ہماری زندگی میں آلات جدیدہ میں کمپیوٹر، انٹرنیٹ، موبائل اور ٹیلی ویزن بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ اور یہ بہت مفید چیزیں ہیں دیکھا جائے تو ان کے صحیح استعمال سے بہت سے فوائد حاصل ہو سکتے ہیں وہاں ان کا غیر ضروری استعمال بہت سا قیمتی وقت ضائع کرنے کا سبب بھی بنتا ہے ان کو ضرورت کی حد تک ہی استعمال کرنا چاہئے ہر وقت انہی میں مگن رہ کر اپنا قیمتی وقت برباد نہیں کرنا چاہئے۔

ہمارے اسلاف بھی وقت کی اہمیت کو سمجھتے اور اس کی قدر کرتے تھے ابن تیمیہؒ کے متعلق ابن رجب ؒ ذکر کرتے ہیں۔ ’’آپ اپنی زندگی کا کوئی بھی وقت ضائع نہ ہونے دیتے اور وقت کی اہمیت کے پیش نظر جب کسی کام میں مشغول بھی ہوتے تو شاگردوں میں سے کسی کو فرماتے کہ اس دوران تم اونچی آواز سے کتاب پڑھتے رہنا تاکہ سنتا رہوں اور یہ وقت برباد نہ ہو۔

قرآن وحدیث میں وقت کی اہمیت بتائی گئی ہے ۔نماز میں پا نچ وقت ٹائم مینجمنٹ (وقت انتظام) روزانہ سیکھا جاتا ہے مگر یہ سبق مسجد سے باہر ہوتے ہی مسلمان بھول جاتا ہے اور وقت کی نا قدری کچھ اس طرح کرتا ہے جیسے اس نے کچھ سیکھا ہی نہیں۔ مغربی دنیا میں ایک ایک لمحہ ایک ایک سیکنڈ کی اہمیت ہر کوئی جانتا ہے اور سختی کے ساتھ اس پر عمل اور پابندی کرتا ہے۔ جب وہ وقت کی قدر کرتے ہیں تو وقت بھی ان کی قدر کرتا ہے۔آج وہ آسمانوں میں کمندیں ڈال رہے ہیں چاند پر نیی دنیا آباد کرنے کی بات سوچ رہے ہیں اور ہم مسلمان ہیں کہ ہمیں زمین پر رہنا نہیں آتا۔ وجہ ظاہر ہے کہ ہمارے پاس وقت ہے مگر اہم کیا ہے اور کیا غیر اہم ہے؟ اس کو جاننے کی مطلق کوشش نہیں کرتے۔ وقت دولت ہے۔ گیا وقت ہاتھ آتا نہیں۔ اسے ہم پانی کی طرح بہا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم کوئی اہم کام انجام دینے سے قاصر ہیں۔ ان کی ایجاد کر دہ چیزوں سے ہم فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ مغربی دنیا کے ماہر ین ہم کوThe Art of Living, The Art of Thinkingاور The Art of Time سکھا رہے ہیں کبھی ہمارے اسلاف نے ان کے اسلاف کو سکھایا تھا ۔تاریک بر اعظم یورپ اسپین کے راستے سے علم کی روشنی سے جگمگا اٹھا جب علم کی روشنی پورے یورپ میں پھیل گئی تو ہم غفلت کے سمندر میں ڈوب سے گئے کسی نے اس وقت کی ترجمانی کیا خوب کی ہے۔
بڑے غور سے سن رہا تھا زمانہ
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے
 

Abdul Aziz
About the Author: Abdul Aziz Read More Articles by Abdul Aziz: 4 Articles with 3800 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.