اندھیر نگری، چوٹ راج

صحیح بخاری شریف میں ایک واقعہ ملتاہے " صنعاء شہر کے ایک نوجوان کو چار افراد نے مل کر قتل کردیا ،سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس قتل کا مقدمہ آیا، کچھ لوگوں نے کہا ایک کے بدلے چار سے کیسے قصاص لیا جائےگا؟ عمر نے فرمایا " اگر اس قتل میں تمام اہل صنعاء بھی شریک ہوتے تو میں ان سب کو قتل کرا دیتا"۔ اسلام کا قانون قصاص معاشرے میں توازن اور انصاف کو زندہ رکھنے کا بہترین اور پر تاثیر طریقہ ہے ، ظالموں کو جب تک سزا کا یقین نہیں ہوگا تب تک ان کے ہاتھ شر سے نہیں رکیں گے ۔

کراچی میں رینجرز کے جوانوں کے ہاتھوں بے گناہ مارے جانے والے سرفراز کی ویڈیو آج بھی سوشل میڈیاء پہ موجود ہے جس میں وہ بےچارہ موت سے بچنے کے لئے ان کی منتیں کرتاہوا نظر آتا ہے۔
دلکش سخصیت کے مالک نقیب اللہ محسود کے قتل کو کون بھول سکتاہے ، سانحہ ساہیوال کے مقتولین جنہیں ان کے بچوں کے سامنے چھلنی کردیا گیاتھا، سانحہ ماڈل ٹاون، سائیں لوک زہنی معذور صلاح الدین ،بلوچستان کےمعصوم نوجوان حیات بلوچ اور اب اسلام آباد شہر کے طالب علم اسامہ ستی کے ریاستی اداروں کے ہاتھوں اندوہناک قتل ایسی شرمناک ترین وارداتیں ہیں جو ہمارے معاشرے سے انصاف کے اٹھتے ہوئے جنازے کا اعلان ہیں ۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ صرف چند وہ واقعات ہیں جو میڈیا پہ شہرت پانےسے ہمیں معلوم ہوئے جبکہ ہمارے ملک میں ایسے سینکڑوں ہزاروں واقعات رونما ہوچکے ہیں جن میں بے گناہ لوگ اپنے ہی محافظوں کے ہاتھوں موت کی نیند سلا دئیے گئے ہیں۔

بائیس سالہ خوبصورت نوجوان اسامہ ستی کو اسلام آباد پولیس کے کچھ درندوں نے صرف ناکے پہ گاڑی نا رکنے کی وجہ سے گولیوں سے چھلنی کردیا ، پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق چار گولیاں سامنے اور سات گولیاں پیچھے سے ماری گئیں جو ہاتھ، پاوں، کمر، سینے اور سر پہ لگیں جس سے اسامہ موقع پر ہی جاں بحق ہوگیا ، کچھ بھی کہہ لیں لیکن اس قتل نا حق کا کوئی بھی جواز نہیں ہوسکتا وہ اگر دہشت گرد بھی ہوتا تو بھی پولیس گاڑی کے ٹائر بلاسٹ کرکے اسے روک کر قابو کر سکتی تھی۔سیدھی گولیاں مارنا کوئی اور ہی کہانی ہے جسے بے نقاب کرنا ضروری ہے، اہلکاروں کو اتنے اختیارات کس نے دئیے کہ وہ ناکوں پہ ہی لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنے لگے، شائد کسی شاعرنے ایسے ہی کسی موقعے کے لئے کہاتھا
"اسی کا شہر ،وہی مدعی ،وہی منصف
ہمیں یقین تھا ہمارا قصور نکلے گا" ۔

عمران خان انصاف کا نعرہ لے کر ایاتھا مگر حالات آج بھی وہی ہیں جو ڈکٹیٹر مشرف، زرداری یا شریفوں کے دور میں تھے ،کاش آج بھی خلافت ہوتی، آج بھی کوئی حکمران عمر کی طرح بولتا کہ اگر اسامہ کے قتل میں تمام پولیس والے اور تمام سکیورٹی اہلکار بھی شریک ہوئے تو میں ان سب کو بھی قتل کروا دوں گا۔
فیض نے کہا تھا
"مِٹ جائے گی مُخلوق تو انصاف کرو گے؟
منصف ہو تو اب حشر اُٹھا کیوں نہیں دیتے"

جناب وزیراعظم! عوام کا ریاست اور اس کے اداروں سے یقین اٹھتا جارہا ہے ، کچھ کریں اس سے پہلے کہ بے انصافی اور ظلم کا یہ سیلاب سب کچھ بہا کر لے جائے خدارا کچھ کریں ۔

ایک طرف تو سر عام نشے میں گاڑی چلاتے ہوۓ سرکاری اہل کار کو کچل دیا جاتا ہے لیکن مجرم کو بااثر شخصیت ہونے کی وجہ سے سزا نہیں دی جاتی جبکہ دوسری طرف اگر کوئی عام شہری ناکے پر نہیں رکتا تواس کو اس حکم عدولی کی سزا موت کی صورت میں ملتی ہے۔ ملک ایک ہے لیکن قانون سب کے لئے ایک جیسا کیوں نہیں؟۔

عوام کو بھی اب آنکھیں کھول لینی چاہئیں جنہیں ہر بار جاگنے کےلئے کوئی بڑا سانحہ درکار ہوتا ہے ، ہر حادثہ ہمیں صرف چند دن جھنجوڑ کر پھر گہری نیند سلاجاتا ہے ، عوام کب تک کبوتر کی طرح آنکھ بند کئے اپنی باری کا انتظار کرتے رہیں گے یہ بے حسی کی چادر اب ہمیشہ کے لئے اتار پھینکنی چاہیے نہیں تو یاد رکھیں اگلی باری آپ کی بھی ہوسکتی ہے ۔
ہم باری باری رفتہ رفتہ
قتل ہوں انکے ہاتھوں سے
تم میری بار پہ چپ رہنا
میں تیری بار پہ لایعنی
جب تم نہ رہو، اور میں نہ رہوں
پھربچہ بچہ ایندھن ہو
کچھ تیرے ہوں کچھ میرے ہوں
گر اتنا کچھ ناکافی ہو
پھر بوڑھوں کو بھی نوچیں گے
اور ماؤں کو بھی کاٹیں گے
بس اتنا خوب سمجھ لینا
فریاد سے قتل نہیں ٹلتے
بس صرف اذیت بڑھتی ہے
رفتہ رفتہ مرجانے کی

 

Shahid Mushtaq
About the Author: Shahid Mushtaq Read More Articles by Shahid Mushtaq: 114 Articles with 77628 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.