قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ھے۔
ترجمہ۔۔ اور جان رکھو تمہارے مال اور تمھاری اولاد حقیقت میں سامانِ آزمائش
ھیں۔۔ (سورہ انفال۔۔28)
امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔
جان لیں کہ بچہ /بچی والدین کے پاس امانت ھے۔اور اس کا پاکیزہ ذہن منقش
موتی کی طرح ھوتا ھے جس پر کچھ بھی نقش کیا جا سکتا ھے۔اگر اس کی اچھی
پرورش اور تربیت کی جائے تو وہ دنیا اور آخرت میں سعادت مند رہتا ہے ۔
بچوں کی تعلیم وتربیت ایک بھاری ذمہ داری ہے۔ یہ اولاد اللہ کی طرف سے
ودیعت کردہ ہے اس تحفے کی قدر اور حفاظت کرنا والدین کا اولین فرض ہے ۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اپنی اولاد اور اپنے
گھر والوں کو خیر و بھلائی کی باتیں اور ادب سکھاؤ ۔
دانشوروں کا مقولہ ہے جو شخص بچوں کو ادب سکھاتا ہے وہ دشمن کو ذلیل و خوار
کرتاہے ۔
ماں کی تربیت کی بہت اہمیت ہے۔ ماں کو اپنی پوری توجہ اسی وقت بچے پر مرکوز
کر دینی چاہیے جب وہ اس دنیامیں جنم لے ۔ بلکہ آغازِ حمل سے ہی اسے لائحہ
عمل تیار کرلینا چاھیئے کہ وہ اپنے بچے/بچی کی تربیت کیسے کرے گی؟.
ایک صالحہ ماں اپنے بچے /بچی کی تربیت کے ھمیشہ اسلامی تعلیمات کی روشنی
میں کرے گی تاکہ وہ بڑا /بڑی ھو کر اسلامی معاشرے کی تشکیل میں اپنا کردار
ادا کر سکے ۔
ایسی ھی عظیم المرتبت ماؤں کے حوالے سے نپولین نے کہا تھا کہ تم مجھے اچھی
مائیں دو ،میں تمہیں اچھی قوم دوں گا۔
علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا ،" قوموں کی تاریخ اور ان
کا ماضی ان کی ماؤں کا فیض ہے ۔
ہر بچہ فطرتِ اسلام پر پیدا ہوتا ہے۔ اس کی شخصیت اندرونی اور بیرونی عوامل
مثلاً والدین، خاندان، ماحول اور معاشرہ سے مل کر تشکیل پاتی ھے۔اگر معاشرہ
صحت مند اقدار اعلی کا حامل ہو تو اس کی گود میں میں بچے کے لئے تعمیر
شخصیت کا عمل بہت آسان ہو جاتا ہے ۔اس کے برعکس اگر معاشرہ شر پسند عوامل
اور غلط اقدار کا پیرو کار ھو تو نسلِ نو خودبخود گمراہی اور بے راہ روی کا
شکار ہو جائے گی ۔ معاشرہ افراد کے لیے ایک تربیت گاہ بھی ھے اور اپنے
اعمال و افعال کو پرکھنے کی کسوٹی بھی ہے ۔ معاشرے سے الگ ہو کر نسلِ نو کی
تعمیر کرنے کا سوچنا سراسر غلط ھے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ اپنی اولاد کی
عزت افزائی کیاکرو اور انھیں اچھے آداب سکھایا کرو۔
والدین کو چاھیئے کہ بچوں کی کامیابیوں کو سراہا کریں خواہ وہ معمولی ہی
کیوں نہ ہو ۔والدین کو چاھیئے کہ ان کے اچھے کاموں کی تعریف کریں ۔
ان کی حوصلہ افزائی کریں ۔۔جب ان کو والدین کی شفقت اور توجہ ملے گی تو ان
میں اعتماد پیدا ھوگا۔ والدین اور ان کے تعلقات خوشگوار رھیں گے۔جو کہ
اولاد کی کردار سازی کے لیے معاون ثابت ھونگے ۔ والدین یہ بات ھمیشہ ذھن
میں رکھیں کہ وہ اپنے بچے کا موازنہ ھرگز کسی دوسرے کے بچے کے ساتھ نہ کریں
۔ بچے کو اسکی اپنی ذہنی و جسمانی استعداد کے مطابق آگے بڑھنے دیں ۔ بچے سے
ھمیشہ نرمی سے بات کریں ۔
والدین بچے کو نصیحت علیحدگی میں کریں اگر اس سے کوئی غلطی یا کوتاہی ھو
بھی جائے تو اس کو دوسروں کے سامنے بے عزت نہ کریں ۔ اس طرح بچے کی عزت نفس
مجروح ھوتی ھے اور وہ سرکشی کرتا ہے ۔ بچوں کے ساتھ میانہ روی والا رویہ
اختیار کریں یاد رہےکہ حد سے ذیادہ لاڈ پیار اور سختی بچے میں بگاڑ پیدا
کرتی ھے۔ والدین کی ذمّہ داری بنتی ہے کہ وہ جہاں بچوں کی بہتر نشوونما کے
لیے اقدامات کرتے ھیں وہیں بچوں کی صحیح اور درست خطوط پر تعلیم وتربیت پر
بھی توجہ دیں تاکہ ہماری نسل نو سے ایک اسلامی صحت مند اور باکردار معاشرہ
فروغ پا سکے ۔
|