کچھ روز قبل اسلام آباد جسے ہم شہر اقتدار بھی کہتے ہیں.
وہاں ماں کے لعل کو لہو لہان ہوتے ہوئے دیکھا گیا. سانحہ یہ تھا کہ ایک
نوجوان کو فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا. جس کی وجہ سے وہ نوجوان، ماں کا لعل
موقع پر ہی جاں بحق ہوگیا. آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اس نوجوان کا قصور کیا
تھا؟ کیا واقعی وہ قصوروار بھی تھا؟
تو سنیے اس نوجوان جس کا نام اسامہ ندیم ستی تھا اس کا قصور یہ تھا کہ وہ
مملکت پاکستان کا ایک معصوم اور بے گناہ نوجوان تھا. جو کہ مستقبل کے خواب
سجائے اسلام آباد میں ان خوابوں کی تعبیر کے لئے پڑھائی کے ساتھ ساتھ ٹیکسی
چلایا کرتا تھا. اس کا قصور یہ تھا کہ وہ کسی امیر، جاگیر دار یا سیاست دان
کی اولاد میں سے نہیں تھا. نیز اس کا ایک اور قصور یہ بھی تھا کہ اس نے صرف
کالے شیشوں کا استعمال کیا تھا. جو کہ انسداد دہشت گردی فورس کی نظروں میں
شک کا باعث بن گئے اور اس پر یہ کہ وہ ان کے روکنے پر رکا بھی نہیں تھا .
اگر ان سب میں سے وہ ایک میں بھی قصوروار نہ ہوتا تو میں کہہ سکتا تھا کہ
یا تو وہ آج زندہ ہوتا یا پھر یہ قاتل فورس والے یوں اس کو نشانہ نہ بناتے.
خیر اس واقعہ کے بعد پولیس کا کہنا یہ تھا کہ ڈکیتی کی کال چلنے کے بعد
مشکوک ہونے والی کالے شیشوں والی گاڑی کو اے ٹی ایس فورس کے اہلکاروں نے
روکنے کی کوشش کی اور گاڑی نہ روکنے پر فائرنگ کے نتیجے میں اسامہ ستی کی
ہلاکت ہوگئی.
پولیس کا مزید کہنا تھا کہ مقتول واقعے کے وقت اکیلا تھا اور اس کو جمعہ
اور ہفتہ کی درمیانی شب فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا تھا . یہ واقعہ سرینگر
ہائی وے پر رونما ہوا تھا . کشمیر سے یکجہتی کے لئے اس کا نام سری نگر ہائی
وے رکھا گیا تھا. لیکن افسوس یہ ہے کہ ہم جو کشمیر کا مقدمہ لڑنے کی بات
کرتے ہیں. ہم نے اس ہائی وے کو بھی قتل و غارت سے محفوظ نہیں رکھا. بلکہ ہم
نے اس ہائی وے کو ایک معصوم نوجوان کی جائے وقوعہ میں بدل دیا. خیر یہ تو
وہ ظلم ہے جو ہم نے بحیثیت پاکستانی سرینگر نامی ہائی وے پر کیا. لیکن اس
سے بڑا ظلم تو ایک معصوم کی زندگی کے ساتھ کیا گیا تھا. صرف شک کی بنیاد پر
عقب سے فائرنگ کرنا کس قانون میں لکھا ہے؟ یہ اندھیر نگری کب تک جاری رہے
گی؟ اسامہ ستی کوئی واحد ایسا نوجوان نہیں جو کہ محض شک کی وجہ سے ہلاک ہوا
ہے . اس سے پہلے بھی انگنت واقعات میں ایسا ہی ہوا تھا اور کئی معصوم جانیں
یوں ہی شک کی بنیاد پر دار فانی سے کوچ کر گئیں ہیں.
خیر ہم اس پر کیوں بات کریں. ہمارے ساتھ تھوڑی نہ ہوا ہے. اسامہ جانے اور
اس کے خاندان والے ہم تو الحمد للہ محفوظ ہیں. یہ تحریر لکھنے کا مقصد صرف
یہ ہے کہ ایسی سوچ کے حامل افراد کی سوچ کو بدلا جائے. کیونکہ ضروری نہیں
کہ جو آج کسی کے ساتھ ہورہا ہے وہ کل آپ کے ساتھ نہ ہو. کیونکہ یہ مملکت
پاکستان جو کہ مدینہ کی ریاست کے نام سے جانی جارہی ہے. وہاں آج کل قانون
کی کھلے عام دھجیاں اڑائی جارہی ہیں. وہاں آج کل معذرت کے ساتھ جنگل کا
نظام رائج ہے. اس لئے میں یہ بات روز روشن کی طرح عیاں کردوں کہ اس بانانا
سٹیٹ میں آپکی جان محض چند وجوہات کی بنا پر خطرے میں پڑ سکتی ہے. اگر آپ
نے اب تک کسی جاگیردار، یا سیاست دان یا پھر کوئی طاقت ور حلقوں سے پنگا
نہیں لیا تو آپ محفوظ ہیں. لیکن اگر ایسا ہوا ہے تو پھر آپ اپنی جان کی
حفاظت کریں. کیونکہ یہاں تو جان کی یہ وقعت ہے کہ محض شک کی بنیاد پر آپ کی
جان لی جا سکتی ہے.
ایسا ہی ہم نے ساہیوال سانحے میں دیکھا تھا. جہاں محض شک کی بنیاد پر بچوں
کے سامنے ان کے والدین کو فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا تھا. لہٰذا ایسے
واقعات میں ملوث افراد بعد میں بری بھی ہوجاتے ہیں. کیونکہ ملت اسلامیہ میں
کسی کو بھی شک کی بنیاد پر مارنا کوئی بڑا جرم نہیں ہے. بس یہی ساہیوال
سانحے میں ہوا اور ملوث تمام افراد کو انسدادِ دہشت گردی عدالت نے شک کی
گنجائش دیتے ہوئے رہا کردیا تھا. اسامہ کے واقعے میں بھی یہی نظر آرہا ہے.
لیکن کب تک یہ ہوگا؟ کب تک یوں قیمتی جانیں محض شک کی بنیاد پر ضائع ہوں
گی. اگر آپ چاہتے ہیں کہ یہ واقعہ آخری واقعہ ہو اور اس کے بعد کوئی یوں
کسی شک کا نشانہ نہ بنے تو اسامہ کے انصاف کے لئے آواز بلند کریں. جب تک ان
واقعات میں ملوث افراد کو سزائے موت نہیں دی جائے گی. ہر کوئی شک کا فائدہ
اٹھاتا رہے گا. کیونکہ اس کو معلوم ہے کہ مجھے رہائی بھی مل ہی جائے گی.
لیکن اب وقت ہے کہ ہم اس جبر کے خلاف قانونی تحفظ فراہم کرنے کی آواز بلند
کریں. نیز اس حوالے سے سخت قانون سازی کی جائے. کیونکہ یہ کسی انسانی
معاشرے کا قانون نہیں جہاں محض شک کی بنیاد پر بغیر مزاحمت کے پولیس والے
یا کوئی بھی فورس والے یوں عقب سے 17 گولیاں کسی کو مار دیں. لہٰذا اس
حوالے سے جو احتیاط برتی جاسکتی ہے. وہ یہ ہے کہ کسی بھی گاڑی کو شک کی
بنیاد پر روکنے کے لئے صرف اس کے ٹائرز پر فائرنگ کی جائے اور وہ بھی پیچھے
سے عقب سے ہر گز نہیں. وہ بھی اس شرط پر کہ آگے سے آپ کو کسی مزاحمت کا
سامنا درکار ہو. اگر اس احتیاطی تدابیر کو ملحوظ خاطر رکھا جائے تو ایسے
واقعات سے بچا جا سکتا ہے. میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس حوالے سے منظم منصوبہ
بندی کی جائے کہ کیسے ان حالات میں اس قسم کے واقعات سے بچا جائے. کیونکہ
جان سے قیمتی کوئی چیز نہیں ہے. ہمارا مذہب بھی اس حوالے سے رہنمائی فراہم
کرتا ہے اور اسلام میں تو کسی بھی انسانی جان کی قدر و قیمت کا اندازہ اس
بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے بغیر کسی وجہ کے ایک فرد کے قتل کو پوری
انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا ہے.ﷲ عزوجل نے بھی تکریم انسانیت کے
حوالے سے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے جس کا ترجمہ یوں ہے کہ؛ "جس نے کسی
شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد (پھیلانے کی سزا) کے (بغیر، ناحق)
قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا" ۔
لہذا جو دین اسلام اس حد تک انسانی جان کی تکریم کرتا ہو، وہاں اسلام کے
نام پر بننے والے ملک میں اسلام آباد نامی شہر میں ایسے کسی نوجوان کا
سفاکیت سے بھرپور ناحق قتل قابل مذمت ہے. کسی نے موجودہ حالات کا سہی تدارک
کرتے ہوئے لکھا تھا کہ موجودہ دور میں انسانی جان کی قیمت ساحل پر پڑے ریت
کی زروں سے بھی ارزاں ہو چکی ہے. ﷲ عزوجل سے دست بستہ یہ ہی دعا ہے کہ
ہماری سب کی جانیں وہ محفوظ فرمائے. نیز انسانی جان کی حرمت کرنا ہم سب کو
نصیب فرمائے. آمین |