دولت مند کون ہے؟
(shabbir Ibne Adil, karachi)
تحریر: شبیر ابن عادل عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ جس کے پاس کروڑوں روپے ہوں، وہی امیر ہے۔ بھاری بینک بیلنس، دولت کے ڈھیر، وسیع جائیدادیں، بہت سی کاریں، نوکروں کی فوج اور اعلیٰ معیار زندگی دولت مندی کی نشانی سمجھی جاتی ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے، روپیہ پیسہ ہی دولت مندی نہیں۔ اصل دولت مند وہ ہے، جس کا دل غنی یا امیر ہو، وہ لوگوں سے بے نیاز ہو اوران سے کوئی توقعات نہ رکھے۔ کیونکہ اس دنیا میں کامیابی یا خوشی کا معیار صرف دولت ہی نہیں۔ میری اس رائے سے شاید کچھ دوستوں کے ذہنوں میں یہ خیال آئے کہ یہ کیا بات ہوئی، دولت مند تو دراصل دولت والا ہوتا ہے لیکن تھوڑی سی دیر میر ی بات پر غور کریں۔ روپے پیسے واقعی دولت مندی کی نشانی ہیں لیکن خوشی کی ضمانت نہیں۔ اس منزل تک پہنچنے سے قبل ہمیں خود کو دریافت کرنا ہوگا، اپنے اندر کو کھنگالنا ہوگا کیونکہ سب کچھ ہمارے اپنے اندر ہی ہے۔ یعنی تمام قسم کی خواہشیں، خوشیاں، غم اور سب کچھ۔ اسی طرح ہر ایک کی خواہشیں جدا جدا ہیں۔ کسی کی زندگی کا مقصد امیر بننا ہے تو کسی کی زندگی کا دارومدار ہی اپنی من پسند لڑکی سے شادی کرنا ہے۔ کوئی اپنے ملک میں روزگار حاصل کرکے مراد پاگیا تو کسی کی نظر میں خوشحالی ملک سے باہر ہی ہے اور کسی شدید بیمار سے پوچھیں تو وہ کہے گا کہ صرف صحت ہی اصل دولت ہے۔ کوئی کثرت اولاد سے پریشان ہے تو بے اولاد افراداپنی زندگی کو جہنم تصور کرتے ہیں۔ بعض بوڑھے والدین اپنی نافرمان اولاد کی وجہ سے زندگی سے عاجز ہیں تو بعض کی زندگیاں اپنی سعادت مند اولاد کی وجہ سے نکھر گئی ہیں، سنور گئی ہیں۔ جبکہ اہلِ دل بندوں کی نظروں میں رسول اللہ ﷺ سے عشق اور اللہ ربّ العزت کی رضا ہی سب کچھ ہے۔ انہیں دولت سے کسی قسم کا لگاؤ نہیں۔ اسی طرح دولت مندوں کی زندگیوں کا مشاہدہ کریں تو اطمینان وہاں بھی نہیں۔ کوئی دنیا کی بہترین کاریں خریدنے کی فکر میں ہے۔ کوئی اپنے بنگلے کی فروخت کرکے اس سے دگنی چوگنی جگہ پر محل تعمیر کرنے کی تگ ودو میں ہے۔ کوئی ایک فیکٹری سے دوسری او ر کوئی دو ملوں سے چار بنانا اور کوئی اپنے کاروبار کو بیرون ملک وسعت دینے کی فکر میں ہے۔ کوئی سب کچھ حاصل کرنے کے بعد اپنی بیوی کی بے وفائی کی وجہ سے خودکشی کرلیتا ہے تو کسی کی اولاد اپنی کوئی خواہش پوری نہ ہونے کی وجہ سے خودکشی کرتی ہے تو والدین کے لئے ان کی اپنی زندگی بوجھ بن جاتی ہے، اگرچہ ان کے پاس دنیا کی ہر شے ہے۔ آپ غور کریں، ہر انسان بہت سی خواہشیں اور بہت سی آرزوئیں رکھتا ہے اور بقول غالبؔ۔ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے بہت نکلے مرے ارمان، لیکن پھر بھی کم نکلے انسانی اور نفسانی خواہشات کا پیٹ تو قبر کی مٹی ہی بھر سکے گی۔ لیکن دولت مند بننے اور زندگی میں کامیابی کے حصول کے لئے پہلے آپ کو اپنے اندر پوشیدہ صلاحیتوں کو دریافت کرکے ان کی اور اپنی خواہشات کی فہرست تیار کرنا ہوگی۔ یعنی خود کو دریافت کرنا ہوگا۔ میری بات کو شاید شاعر مشرق علامہ اقبالؔ کے اس شعر سے سمجھنے میں مدد مل سکے: اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغ ِ زندگی تُو اگر میر ا نہیں بنتا، نہ بن، اپنا تو بن مغرب میں ہونے والی ایک حالیہ تحقیق میرے مؤقف کی تائید کرے گی، کیونکہ بات چاہے کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو، جب تک اس پر مغر ب کی مہرِ تصدیق ثبت نہ ہو تو وہ معتبر نہیں سمجھی جاتی۔ لندن میں ایک حالیہ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ مال ودولت کے مقابلے میں اچھی صحت اور اچھا شریک ِ حیات لوگوں کی زندگیوں میں خوشیوں کے زیادہ رنگ بھر سکتا ہے۔ لندن اسکول آف اکنامکس کی اس تحقیق میں دو (۲) لاکھ لوگوں کی زندگیوں پر مرتب ہونے والے مختلف حالات کا جائزہ لیا گیا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ڈپریشن یا بے چینی لوگوں کی خوشیوں کو برباد کرکے رکھ دیتی ہے۔ جبکہ اچھے شریک حیات کی وجہ سے سب سے زیادہ خوشی نصیب ہوتی ہے۔ تحقیق کے شریک مصنف پروفیسر رچرڈ لئیرڈ کا کہنا ہے کہ اس دریافت سے' ریاست کا نیا کردار سامنے آتا ہے '۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریاست کو اپنے شہریوں کی خوشی میں نیا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے، اور وہ دولت پیدا کرنے سے زیادہ خوشی پیدا کرنے پر زور دے۔ یہ تحقیق دنیا بھر میں کئے جانے والے رائے عامہ کے متعد د بین الاقوامی جائزوں پر مشتمل ہے۔ سائنسدانوں کے جائزے کے مطابق لوگوں کو آمدنی کے دگنا ہونے پر اتنی خوشی نہیں ہوتی، جتنی اچھے شریک زندگی کے ملنے پر۔ کیونکہ دولت ملنے سے ان کی ہوس اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ جبکہ شریک حیات کی موت یا علیحدگی سے لوگوں کے دکھوں میں اضافہ ہوتا ہے اسی طرح بیروزگاری بھی لوگوں کی زندگیوں میں پریشانی لے کر آتی ہے۔ اس کے علاوہ سماجی تعلقات اور ذہنی اور جسمانی صحت بھی دکھوں کی بنیادی وجوہات ہیں۔ ان معاملات پر غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ غوروفکرسے نت نئی راہیں کھلتی ہیں۔ اگر آپ سچی خوشی کے موضوع پر غور کریں اور اپنی صلاحیتوں اور خواہشوں کی فہرست تیارکریں گے تو آپ پر نت نئے انکشافات ہوں گے۔ جن کے نتیجے میں آپ کو اپنی زندگی کا رخ متعین کرنے اور ترجیحات تیار کرنے میں مدد مل سکے گی۔ ہر فرد کو بامقصد زندگی گزارنا چاہئے۔ صرف کھانا پینا، شادی کرنا اور بچے پیدا کرنا ہی زندگی نہیں۔ یہ کام تو جانور بھی کرتے ہیں۔ لیکن ان کاموں کے ساتھ ساتھ بامقصد زندگی گزارنے کی ہر ایک کو پلاننگ کرنا چاہئے۔ پڑھے لکھے لوگوں کو لکھ کر اور ان پڑھ لوگوں کو زبانی یہ کام کرنا چاہئے۔ اس میں سب سے زیادہ اہمیت اس امر کو دی جائے کہ کون سی چیزیں خوشیاں دے سکتی ہیں۔ خاص طور پر آپ کی زندگی میں۔ کیونکہ صرف دولت کا حصول خوشیوں کی ضمانت نہیں ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|