نیا سال، نیا عہد

2021 کا سورج اپنی پوری آب و تاب سے جگمگا رہا ہے-دن گزرتے ہیں اور سال بیتتے جاتے ہیں-ہر سال ایک نئے جوش و جذبے سے کچھ کرنے کا عزم سر اٹھاتا ہے مگر پھر یہ عزم کچھ ہی دنوں میں راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو جاتا ہے-ہر نئے سال پہ نئے عہد، نئے وعدے، نئی تدبیریں کی جاتی ہیں مگر ان کو عملی جامہ پہنانے کا خواب خواب ہی رہ جاتا ہے-ایسا کیوں؟
نیا سال آ جاتا ہے مگر ہمارا حال پرانا ہی رہتا ہے-ہم انہی حالات میں اپنے مقرر کردہ دائرے کے اندر محدود رہتے ہیں کبھی اس دائرے سے باہر آ کر کام کرنے کی کوشش نہیں کرتے-یہ دائرہ آرام طلبی اور کاہلی کا دائرہ ہے جس کے اندر رہنے والے ہمیشہ خود کو ایک کے بعد ایک عذر دیتے نظر آتے ہیں-
ان کے یہ عذر ان کے ساتھ ساری زندگی ایسے دوڑتے ہیں جیسے رگوں میں خون-
''تم نے تو کہا تھا، اس سال بہت محنت کرو گے''
جب ان سے سوال کیا جائے تو جواب کسی عذر کی صورت میں ہی ملتا ہے-
''اس سال تو بیمار تھا نا، اس سال تو چچا کا انتقال ہو گیا، اس سال تو مجھے کتابیں ہی نہیں مل سکیں، اس سال تو اچھے استاد نہیں ملے، اگلے سال ضرور محنت کروں گا اور اول آؤں گا''
ان کے یہ وعدے ہر سال پہ ٹلتے ہیں اور سال آجاتا ہے مگر وعدہ نبھانے کا دن نہیں آتا-یہ وہ انسان ہیں جو اپنی کمی کوتاہی کبھی تسلیم نہیں کرتے کہ جن کے باعث وہ اس عہد کو نبھانے میں ناکام رہے-اگر اپنی ہی کمزوریوں پہ توجہ دی جائے تو جلد ہی ان کی اصلاح کی جا سکتی ہے-
کسی بھی کامیاب انسان کو دیکھتے ہی پہلی سوچ یہی آتی ہے کہ یہ کامیابی اسے پلیٹ میں رکھے کھانے کی طرح مل گئی ہے مگر ایسا کبھی درحقیقت ممکن نہیں-کسی بھی منزل پہ پہنچنے کے لیے سفر ضروری ہے اور سفر کبھی بغیر مشکلات کا سامنا کیے مکمل نہیں ہوتا-حتی کہ اگر آپ ایک شہر سے دوسرے شہر سفر کریں تو ہی کئی طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے-مثلاً سواری کا خراب ہونا، پیڑول ختم ہو جانا، کسی برے انسان سے واسطہ پڑ جانا، زادِ راہ میں کمی، موسم کی مشکلات، حادثاتی عوامل عرضیکہ اس سفر میں بھی مشکلات طے کر ہی منزل تک پہنچنا ممکن ہوتا ہے تو کیا بھلا زندگی کے سفر میں انسان پھول کے بستر پہ چلتا ہوا منزل تک پہنچ سکتا ہے؟ ہرگز نہیں-
اﷲ تعالیٰ بھی قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ کیا تم سمجھتے ہو تم ایمان لاؤ گے اور آزمائے نہ جاؤ گے؟ہر منزل تک رسائی کے لئے قیمت ادا کرنی پڑتی ہے-آزمائش شرط ہے اور آزمائشوں سے گھبرا کر بھاگنے والا کبھی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتا-
ہر سال کی طرح اس سال بھی اگر آپ کوئی عہد کر بیٹھے ہیں تو رکیے پہلے اپنا محاسبہ کیجیے-
کیا آپ پچھلے سال کا ہدف مکمل کر چکے ہیں؟
اگر نہیں تو اس کی وجوہات کیا تھیں؟
کیا آپ کا ہدف حقیقی تھا یا غیر حقیقی؟
کیا آپ پچھلا ہدف مکمل کیے بغیر ہی آگے بڑھ رہے ہیں؟
کیا پچھلے سال کا ہدف اب بھی ضروری ہے یا غیر ضروری حیثیت اختیار کر گیا ہے؟
محاسبہ کیے بغیر اگلا ہدف مقرر کرنا سوائے غیر دانشمندانہ اقدام کے اور کچھ نہیں-آئیے ان سوالات کے تناظر میں اپنا محاسبہ کیسے کیا جائے سیکھیے اور عمل کیجئے-
فرض کر لیجیے کہ آپ کا پچھلے سال کا ہدف وزن کم کرنا تھا تو سوال کیجیے کہ کیا وزن کم ہوا اگر تو جواب مثبت ہے تو اگلا ہدف مقرر کرنے سے ہہلے اس ہدف میں آنے والی رکاوٹوں اور پریشانیوں کا جائزہ لیجیے اور انہیں دور کرنے کی کوشش کیجئے-اگر اس پہلے سوال کا جواب نہیں ہے تو خود سے پوچھیے کہ کونسی وجوہات آپ کے مطلوبہ ہدف کی راہ میں رکاوٹ بنیں؟ مثلاً زیادہ کھانا،ورزش نہ کرنا، چہل قدمی نہ کرنا، ایسے لوگوں کا ساتھ جو کم کھانے پہ طنز کرتے یا پھر کسی اچھے سپورٹر کا ساتھ نہ ہونا-
ان عوامل کی لسٹ بنا کر ان پہ کام کیا جائے تو ہدف یقیناً حاصل کیا جا سکتا ہے-کچھ لوگ ہدف ہی غیر حقیقی بناتے ہیں جیسے کہ میں ایک ماہ میں تیس کلو کم کروں گا، حالانکہ یہ ایک غیر حقیقی عمل ہے جس کے باعث لوگ جلد بیزار ہو کر اس پہ عمل کرنا چھوڑ دیتے ہیں-
کچھ لوگ پچھلا ہدف چھوڑ کر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ چلو یہ کام تو ہوا نہیں اگلا کرتے ہیں حالانکہ جب یہ کام نہیں ہوا تو اگلا بھی نہیں ہو گا-اصولا ایک ہدف کو مکمل کر کے ہی اگلے ہدف کی جانب بڑھنا چاہیے-یہی وجہ ہے کہ ضروری ہدف بھی اگلے سال تک غیر ضروری کی فہرست میں جا کھڑا ہوتا ہے-امید ہے اس مثال سے آپ کو اپنا محاسبہ کرنا سمجھ آ چکا ہو گا-
اب بات کرتے ہیں ان لوگوں کی جو واقعی کچھ کرنا چاہتے ہیں مگر انہیں سمجھ نہیں آتا کہ وہ کیا کریں-ایک استاد سے سوال کیا گیا کہ کچھ کرنا چاہتے ہیں سمجھ نہیں آتا کیا کریں اور کیسے کریں-استاد نے فرمایا''کوئی خیال جو دل میں ہو زبان پہ لائیں''
کہنے لگے''کاروبار''
استاد نے کہا ''کیسا کاروبار کس چیز کا کاروبار''
جواب ملا ''کچھ آن لائن کاروبار مختلف اشیا کا''
استاد نے نہایت عظیم جملہ کہا کہ
''جب کسی کام کی نیت کر لیں تو پھر کر دیں سوچیں مت، کیونکہ سوچنے اور پوچھنے سے ارادے پست ہو جاتے ہیں''
اپنی جانب نظر اٹھا کر دیکھیے، آس پاس دیکھیے، جو شخص سالوں سے کہہ رہا ہے
'' کچھ کروں گا، کچھ کر کے دکھاؤں گا، کچھ بنوں گا، اپنا بھی ٹائم آئے گا،لوگ دیکھیں گے میں دکھاؤں گا'' تو وہ ابھی تک یہی کہہ رہا ہے اور آگے بھی کہتا رہے گا-وقت آیا اور نکل بھی گیا لیکن اس کا ٹائم کبھی نہیں آیا نہ ہی آئے گا-
البتہ وہ شخص جس نے مشورہ نہیں لیا، دلیلیں نہیں دیں، بحث و مباحثے نہیں کیے،بے کار کی باتوں میں وقت ضائع نہیں کیا، غیر ضروری لوگوں کے ساتھ وقت برباد نہیں کیا آج وہ پچھلے سالوں سے بہتر حال میں ہو گا-اس کا ہر گزرتا کل پچھلے سے بہتر ہو گا-وہ آپ کو بتائیے گا نہیں کہ وہ کیا ہے بلکہ آپ اسے بتائیں گے کہ وہ''کہاں'' پہنچ چکا ہے-وہ آپ کو دکھائے گا نہیں آپ خود اسے دیکھیں گے-اس نے اپنے وقت کا بہترین استعمال کر کے مٹی کو سونا کر دیا اور سوچنے والے بس سوچتے ہی رہ گئے-
نئے سال کے آغاز پر اتنا ضرور کہوں گی ہر گزرتے لمحے پہ اپنا محاسبہ ضرور کیجیے آیا کہ آپ نے اپنے وقت کا بہترین استعمال کیا یا اسے بری طرح ضائع کیا؟ہر انسان کو اﷲ نے چوبیس گھنٹوں کا ہی وقت عنایت کیا ہے پھر ایسا کیا ہے کہ ایک شخص چوبیس گھنٹے بستر میں رہتا ہے اور ایک شخص انہی گھنٹوں میں دنیا میں اپنی فتح کے جھنڈے گاڑ دیتا ہے-کامیاب ترین افراد اپنے وقت کا بہترین استعمال کرتے ہیں اور ایک ایک لمحہ بامقصد کام کرنے اور عمل کرنے میں وقف کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کی ملاقات کے اوقات مخصوص ہوتے ہیں-ان کا وقت باہر کے کاموں اور گھریلو معاملات کے لئے متوازن طور پہ تقسیم ہوتا ہے-
دنیا کے کامیاب ترین افراد ہر کام مقررہ وقت پر کرنے کے عادی ہوتے ہیں-ان کا کھانا پینا، سونا جاگنا، گھریلو کام، ملاقات، میٹنگز سب ایک طے شدہ معمول کے مطابق ہی چلتی ہیں-
اگر آپ کچھ کرنا چاہتے ہیں تو آگے بڑھیے اور کیجیے-آپ کو اگر کسی نے روکا ہے تو وہ آرام طلبی کا دائرہ ہے جو آپ کو اکساتا ہے کہ جتنا مزہ بیٹھ کر فلم دیکھنے میں ہے وہ دوستوں کے ساتھ کھیل میں کہاں-جتنا مزہ لحاف میں سونے کا ہے وہ صبح صبح قدرت کے نظاروں میں کہاں-جتنا مزہ دوسروں کے کام میں نقص نکالنے میں ہے وہ بھلا خود کچھ کرنے میں کہاں-
جس دن اس سستی اور کاہلی کے دائرے سے باہر نکل کر آپ نے ذہنی اور جسمانی سختی برداشت کی اس دن آپ ضرور اپنے ہدف کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے، تو پھر تیار ہیں؟
بستر چھوڑئیے اور دنیا کو تسخیر کر لیجیے-اس سال اپنے عہد کو پایا تکمیل تک پہنچانے کا وقت آ گیا ہے
 

Sarah Omer
About the Author: Sarah Omer Read More Articles by Sarah Omer: 15 Articles with 10914 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.