ذہنی غلامی
(shabbir Ibne Adil, Karachi)
شبیر ابن عادل امریکہ، برطانیہ اور دیگر یورپی ملکوں کے حوالے سے ہمارا رویہ عموماً مرعوبانہ ہوتا ہے۔ وہاں سے آنے والے ہمارے ہم وطن اُن ملکوں کی ترقی کی داستانیں بہت حیران ہو ہوکر سناتے ہیں۔ اکثر یہ کہتے ہیں کہ وہاں تو انگریزوں نے بس کلمہ نہیں پڑھا، باقی سب کچھ ہم سے اچھا ہی نہیں، بہت اچھا ہے۔ان کے روز وشب کا اور ان کی ترقی کا کیا کہنا۔ بس اصل زندگی تو انگریزوں کی ہے۔ وہاں یہ ہوتا ہے، وہاں وہ ہوتا ہے۔ ا س قسم کی باتیں ہم اکثر وبیشتر سنتے ہی رہتے ہیں۔ یہ تمام باتیں مرعوبیت اور ذہنی غلامی کی نشانی ہیں۔ انگریزوں نے ہندوستان پر تقریباً ڈیڑھ سوسال حکومت کی، دیگر اقوام کے مقابلے میں انگریز بہت چالاک اور عیار قوم ہے۔ اتنے بڑے ہندوستان کو صرف ایک لاکھ انگریز کنٹرول کرتے رہے۔ انہوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں میں پھوٹ ڈال کر بہت مکاری کے ساتھ حکومت کی۔ ہندوستان پر اپنے قبضے کے کچھ عرصے بعد ہی انہوں نے اس امر پر غور وفکر شروع کردیا کہ ایسی کون سی ترکیب اختیار کی جائے کہ ہندوستان کے باشندوں پر سیاسی یا فوجی تسلط نہ ہو، تب بھی وہ برطانیہ کے غلام ہوں۔ چنانچہ انہوں نے ایسا طریقہ تلاش کرہی لیا۔ یعنی ایسا نظام تعلیم تیار کیا، جس کی بدولت مفتوحہ یا غلام قوموں کے ذہنوں کو بھی غلام بنا لیا۔ تاکہ نئی نسل تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد جسمانی طور پر تو ہندوستانی (یعنی ہندویا مسلمان) ہو، مگر ذہنی طور پر وہ انگریزوں کی غلام ہو۔ وہ صدیوں آگے تک دیکھنے کی صلاحیت رکھتے تھے اور تمام کام ان کی توقعات کے مطابق ہوئے۔ یعنی نئی نسل جب بڑی ہوئی تو ذہنی طور پر انگریزوں کی غلام تھی۔ تقسیم ہند کے بعد انگریز ہندوستان سے چلے گئے اور اس بات کو ستّر سال سے زائد عرصہ بھی بیت گیا۔ اس دوران دو تین نسلیں جوان بھی ہوگئیں۔ مگر ہم ابھی تک انگریزوں (جن میں انگریزوں کے بعد امریکی شامل ہیں) کے غلام ہیں۔ غلبہ یا تسلط دو طرح کا ہوتا ہے، ایک سیاسی غلبہ، جس میں کوئی ملک کسی دوسرے ملک پر قبضہ کرلیتا ہے۔ دوسرے کوئی ملک کسی دوسرے ملک پر فوجی قبضہ نہیں کرتا، بلکہ مختلف حربوں سے اس کے عوام کے ذہنوں پر مسلط ہوجاتا ہے۔ اسے ذہنی غلامی کہا جاتا ہے۔ نو آبادیاتی نظام کے خاتمے کے بعد مسلم ملکوں میں اسی قسم کی غلامی پھیلتی چلی گئی۔ برطانوی حکومت یا انگریزوں نے جن مسلم ملکوں کو آزاد کیا تھا۔ وہ سیاسی طور پر تو آزاد ہوگئے، مگر ذہنی طور پر مغر ب کے غلام ہی رہے۔ اپنے اس اخلاقی غلبے کے لئے انہوں نے نو آبادیاتی دور میں غلام ملکوں کا صرف نظام تعلیم ہی تبدیل نہیں کیا۔ بلکہ اپنے غلبے کو وسعت دینے اور اسے دوام بخشنے کے لئے اپنے اپنے ملکوں میں علم کی ترویج اور تحقیق پر بھرپور توجہ دی۔ خاص طور پر سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں اپنی برتری ثابت کردی اور مسلسل اس میدان میں آگے ہی بڑھتے جارہے ہیں۔ خلائی سائنس میں مغربی ممالک خصوصاً امریکہ نے بے مثال ترقی کی، اور سن 1969میں انسان (یعنی امریکی باشندے)نے جب چاند پر اپنا پہلا قدم رکھا تو غلام قوموں کا بس نہیں چلتا تھا کہ ان کے بُت بنا کر پرستش شروع کردیں۔ عملی طور پر تو انہوں نے ایسا نہیں کیا، مگر ان کے ذہن مسخر ہوچکے تھے۔ امریکہ اور دیگر مغربی ملکوں کا خلائی سائنس میں تحقیق اور ترقی کا یہ سلسلہ مسلسل جاری ہے، چاند کے بعد مریخ تک رسائی اور وہاں انسانی بستیاں بسانے کی باتیں ہورہی ہیں اور سائنس کے دیگر شعبوں میں بھی تحقیق کا عمل بہت جاندا ر انداز میں جاری ہے۔ دوسری جانب مسلمانوں نے رسول اکرم ﷺ کے عظیم انقلاب کے نتیجے میں علم وتحقیق کے میدان میں بھی اپنی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ دئیے تھے۔ اس کام میں وہ دنیا کے امام بن گئے تھے۔ جس کے نتیجے میں بو علی سینا، البیرونی، جابر بن حیان اور بے شمار مسلم سائنسدانوں کے ناموں کا طویل سلسلہ ہے۔ بلکہ سیکڑوں مسلم سائنسدان ایسے بھی تھے، جن کے ناموں سے دنیا واقف نہ ہوسکی، لیکن انہوں نے تحقیق اور ایجادات کے میدان میں بھرپور کامیابیاں حاصل کی تھیں۔ ان ہی کے کاموں کو بنیاد بنا کر مغر ب نے ترقی کی۔ مگر افسوس پانچ سو برس پہلے یہ سلسلہ رک گیا، اس کی وجہ سیاسی محاذ پر مسلمانوں کی ہزیمت تھی۔ چنانچہ اگلے پانچ سو برس تک وہ اپنی ماضی کی کامیابیوں پر فخر کرتے رہے۔ اس کے بعد انہوں نے علمی میدان میں امریکہ کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے۔ اب حال یہ ہے کہ علم و تحقیق کے میدان میں عالم اسلام کا نام ونشان تک مٹ چکا ہے۔ اس صورتحال کو تبدیل کرنا مشکل تو ضرور ہے، مگر ناممکن ہرگز نہیں۔ اس حوالے سے مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالاعلی مودودی رحمتہ اللہ علیہ نے 85برس قبل ہی ایک ایسا حل پیش کیا تھا، جس پر عمل کرکے مسلمان ایک بار پھر دنیا کے رہنما اور امام بن سکتے ہیں: ''اب اگر اسلام دوبارہ دنیا کا رہنما بن سکتا ہے تو اس کی بس یہی ایک صورت ہے کہ مسلمانوں میں ایسے مفکر اور محقق پیدا ہوں جو فکر و نظر اور تحقیق و اکتشاف کی قوت سے ان بنیادوں کو ڈھادیں جن پر مغربی تہذیب کی عمارت قائم ہوئی ہے قرآن کے بتائے ہوئے طریق فکر ونظر پر آثار کے مشاہدے اور حقائق کی جستجو سے ایک نئے نظام فلسفہ کی بناء رکھیں جو خالص اسلامی فکر کا نتیجہ ہو۔ ایک نئی حکمتِ طبیعی (Natural Science)کی عمارت اٹھائیں جو قرآن کی ڈالی ہوئی داغ بیل پر اٹھے۔ ملحدانہ نظریہ توڑ کر الٰہی نظریہ پر فکر و تحقیق کی اساس قائم کریں اور اس جدید فکر وتحقیق کی اساس قائم کریں اور اس جدید فکر وتحقیق کی عمارت کو اس قوت کے ساتھ اٹھائیں کہ وہ تمام دنیا پر چھا جائے اور دنیا میں مغرب کی مادی فکر کے بجائے اسلام کی حقانی تہذیب جلوہ گر ہو ''۔ (ترجمان القرآن۔ جمادی الثانی ۳۵۳۱ھ، ستمبر 1934ء) جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ یہ عظیم الشان کام مشکل ضرور ہے، مگر ناممکن نہیں۔ لیکن یہ کام ہوگا، کیسے؟ اور کس طرح؟ اس پر ان شاء اللہ پھر کبھی بات کریں گے۔
|