بی اے اور ایم اے کے طلبہ کا مسئلہ
(Naeem Ur Rehmaan Shaaiq, Karachi)
2017ء میں ہائر ایجوکیشن کمیشن نے تمام جامعات کے وائس چانسلرز کوہدایت کی کہ وہ 2018ء سےدو سالہ بی اے، بی ایس سی اور 2020ء سے دو سالہ ایم اے ، ایم ایس سی کے پروگرامز میں طلبہ کو داخلےنہ دیں۔اس ضمن میں جاری کردہ نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ اب دوسالہ بی اے، بی ایس سی کی جگہ چار سالہ بی ایس پروگرام لے لے گا۔ یعنی انٹر کے بعد طلبہ کو کسی بھی مضمون میں چار سالہ بی ایس کی ڈگری حاصل کرنی پڑے گی۔ اگر طلبہ انٹر کے بعد محض دو سالوں کے لیے تعلیم جاری رکھنا چاہتے ہیں تو پھر انھیں بی اے، بی ایس سی کی بجائے ایچ ای سی کی نئی متعارف کردہ"ایسوسیٹ ڈگری" دی جائے گی۔ 28 اپریل 2020ء کو ایچ ای سی نے ایک اور نوٹیفکیشن جاری کیا، جس میں بتایا گیا کہ جن طلبہ نے بی اے، بی ایس سی کی ڈگریا ں حاصل کر لی ہیں، وہ بی ایس کے لیے اہل ہیں۔ ان کو پانچویں سمسٹر میں داخلہ دیا جائے گا۔ یعنی ان کو دو سال مزید پڑھنا پڑے گا۔
برصغیر میں دو سالہ گریجویشن اور ماسٹرز کی ڈگریاں انگریزوں نے متعارف کروائی تھیں۔ ہم سنتے ہیں کہ مولانا حسرت موہانی، مولانا ظفر علی خان اور مولانا محمد علی جوہر نے بی اے کیا ہوا تھا، جب کہ علامہ اقبال نے فلسفے میں ایم اے کر رکھا تھا۔ ایچ ای سی کو یہ نظام ِ کہنہ پسند نہ آیا ۔ اس لیے اس کے ذمے داران نے فیصلہ کیا کہ اب اس پرانے نظام کو تبدیل کر دیا جائے۔سو بی اے، بی ایس سی اور ایم اے، ایم ایس سی کی جگہ ایسوسیٹ ڈگری اور بی ایس کے پرگرامز متعارف کروائے گئے۔ پاکستان میں بی ایس اور اے ڈی کے پروگرامز سب سے پہلے ڈاکٹر عطاء الرحمان نے متعارف کروائے تھے، جو بین الاقوامی شہرت یافتہ سائنس دان اور ایچ ای سی کے سابق چیئر مین ہیں۔ ایچ ای سی کے اس امتیازی فیصلے کی وجہ سے پرائیویٹ امید واروں کی حیثیت سے تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو کافی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ بی اے، بی ایس سی کو مکمل طور پر ختم کر دینے سے ان غریب طلبہ کو نقصان ِ عظیم ہورہا ہے، جو روز گار اور تعلیم کو ایک ساتھ چلا نا چاہتے ہیں، جو غربت کے باعث ریگولر طلبہ کی حیثیت سے جامعات میں تعلیم حاصل نہیں کر سکتے۔ یعنی اب ایسے نوجوان اعلیٰ تعلیم کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ دیں، جو ریگولر نہیں پڑھ سکتے، کیوں کہ ایچ ای سی نے ایسے طلبہ کے لیے حصول ِ تعلیم کی راہیں مکمل طور پر مسدود کر دی ہیں۔ ہر سال لاکھوں طلبہ پرائیویٹ امید وار کی حیثیت سے ملک کی مختلف جامعات میں داخلہ لیتے ہیں۔ ایک خبر کے مطابق پچھلے سال عبد الولی خان یونیورسٹی مردان میں تیس ہزار ،پشاور یونی ورسٹی میں پچیس، بنوں یونی ورسٹی میں بیس ہزار چار سو پچاس اور گومل یونی ورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان میں گیارہ ہزار طلبہ نے گریجویشن کے پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے امتحانات دیے۔ یہ صرف خیبر پختون خواہ کی چار جامعات کا ریکارڈ ہے۔ ملک کی سیکڑوں جامعات میں پرائیویٹ امیدواروں کی حیثیت سے داخلے لینے والے طلبہ کو اعداد و شمار کے ذمرے میں لایا جائے تو لاکھوں طلبہ بن جائیں گے۔ ایچ ای سی کے قانون سازوں کو ان طلبہ کے بارے میں ضرور سوچنا چاہیے۔ لاکھوں طلبہ کو تعلیم سے دور کردینا اچھی بات نہیں ہے۔ ہم تعلیم میں ویسے ہی بہت پیچھے ہیں۔ پاکستان کی شرح ِ خواندگی انسٹھ فی صد ہے۔ ہم سے کم ترقی یافتہ ممالک تعلیم میں ہم سے آگے نکل چکے ہیں۔ ایچ ای سی کی یہ پالیسی پاکستان کو تعلیم کے ضمن میں مزید پیچھے کر سکتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ جو جس طرح تعلیم کی طرف راغب ہو، اسے کرنا چاہیے۔ اگرچہ باقاعدہ امیدوار کی حیثیت سے جامعات میں تعلیم حاصل کرنے کی اپنی اہمیت و افادیت ہے، مگر پرائیویٹ امید وار کی حیثیت سے پڑھنے والا طالبِ علم بھی پڑھا لکھا شمار ہوتا ہے۔ اب انٹر نیٹ کا زمانہ ہے۔ پرائیویٹ طلبہ انٹرنیٹ سے بہت کچھ سیکھ لیتے ہیں۔ ان کو ریگولر طلبہ سے زیادہ تگ و دو کرنی پڑتی ہے۔ انھیں در در بھٹکنا پڑتا ہے۔امتحانات میں ریگولر اور پرائیویٹ طلبہ کو تقریبا ایک جیسا پرچہ حل کرنے کو دیا جاتا ہے۔ پرائیویٹ امیدوار بڑی مشکل سے گریجویشن اور ماسٹرز کے امتحانات پاس کرتے ہیں۔ اگر ایچ ای سی کے عہدیداران ان طلبہ کے بارے میں نہیں سوچیں گے تو پاکستان میں تعلیم کو شدید ضرب لگے گی۔ شرح ِ خواندگی بلند ہونے کی بہ جائے پست ہوگی۔ ایچ ای سی کے اس فیصلے کو جامعات میں مستحسن نظروں سے نہیں دیکھا گیا۔ ایچ ای سی نے جامعات کے وائس چانسلرز کو 2018ء سے بی اے بی ایس سی میں ایڈمیشن نہ دینے کی ہدایات جاری کی تھیں، لیکن ملک کی معروف جامعہ، جامعہ کراچی میں اس وقت بھی دو سالہ بی اے، بی ایس سی، بی کام کے پروگرامز میں داخلے جاری ہیں اور طلبہ دھڑا دھڑ داخلے لے رہے ہیں۔جامعہ نے ایچ ای سی کا فیصلہ مسترد کر دیا۔ جامعہ کراچی کے اعلیٰ عہدیداران نے اعلیٰ تعلیمی کمیشن کی امتیازی فیصلے پر شدیدتنقید کر تے ہوئے سندھ کو حکومت کو ایک سمری بھجوائی، جس میں کہا گیا کہ ایچ ای سی نے پرائیویٹ طلبہ کے مستقبل اور تعلیم کے ساتھ ساتھ جامعات کی مالی صورت ِ حال کو بھی مد ِ نظر نہیں رکھا۔ دوسری طرف گومل یونی ورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر افتخار احمد نے کہا ہے کہ گومل یونی ورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان میں ایچ ای سی کے اس فیصلے کے خلاف صوبے بھر میں آن لائن کانفرنس منعقد کی جارہی ہے۔ ان کے مطابق ایچ ای سی کے اس فیصلے کی وجہ سے پرائیویٹ تعلیم کے خواہش مند تعلیم حاصل نہیں کر سکیں گے، جو کہ بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے۔ انھوں نےہائیر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین سے اس فیصلے پر نظرِ ثانی کی اپیل کی ہے۔ چیئرمین ایچ ای سی کو فی الفور اپنے فیصلے پر نظرِ ثانی کرنی چاہیے، کیوں کہ طلبہ اور اساتذہ، دونوں اس وقت شدید پریشان ہیں اور ایچ ای سی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ پرائیویٹ طلبہ کو اپنا مستقبل تاریک نظر آرہا ہے۔ وہ اس وقت شدید اضطراب کا شکا ر ہیں۔ کچھ شہروں میں ایچ ای سی کے اس فیصلے کے خلاف طلبہ کے احتجاج کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ اگر ایچ ای سی کا یہ فیصلہ صحیح ہوتا تو ملک کی بڑی جامعات اس کو مسترد نہ کرتیں۔ یہ اس بات کو واضح ثبوت ہے کہ ایچ ای سی کا یہ فیصلہ نہ طلبہ کو پسند آیا، نہ اساتذہ کو اور نہ ہی جامعات کو۔ امید ہے کہ ایچ ای سے کے ذمےداران طلبہ، اساتذہ اور جامعات کی مجبوریوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اس ضمن میں ضرور کوئی ایسا فیصلہ کریں گے، جو پرائیویٹ طلبہ کے اس تعلیمی مسئلے کا بہترین حل ہوگا۔ تحریر: نعیم الرحمان شائق میرا تعارف: میرا نام نعیم الرحمان شائق ہے۔ پیشے کے لحاظ سے استاد ہوں۔شہرِ قائد کا رہائشی ہوں۔ لکھنے کا بے حد شوق ہے۔ مختلف ویب سائٹوں اور اخبارات میری اردو اور انگریزی تحریریں شائع ہو چکی ہیں۔ شعر و شاعری سے بھی شغف ہے۔ ہلکی پھلکی شاعری بھی کر لیتاہوں۔
|