ایک مرتبہ ہمارے دوست عطا محمد تبسم اپنی فیملی کے ہمراہ
شمالی علاقوں میں گھومنے پھرنے گئے، شاید ایک مہینے کے لئے۔ جب وہ واپس آئے
تو بہت خوش، بہت مسرور۔ خوشی اُن کی آنکھوں سے پھوٹی پڑرہی تھی۔ وہ اپنے
سفر کا احوال یا سفرنامہ چسکیاں لے لے کر سنا رہے تھے۔ آخر ایک دم اُن کے
منہ سے سردآہ نکل گئی۔ میں نے کہا کہ عطا، یہ کیا؟ یہ کس کی یا د آگئی؟ کیا
شمالی علاقے کے ٹور میں کسی کو دل دے بیٹھے؟ میرے اس مذاق پر انہوں نے ہلکی
سی خفگی کا اظہار کیا اور کہا کہ نہیں ایسی بات نہیں۔ سب کچھ ٹھیک رہا۔ مگر
ایک غلطی ہوگئی؟ میں نے اشتیاق سے کہاکہ وہ کیا؟ کہنے لگے کہ یار، سب کچھ
ٹھیک رہا۔ بس ہوا یہ کہ میں اپنے گھر کے لان میں سبزہ زار اور پودوں کی
دیکھ بھال کا انتظام کرانا بھول گیا۔ جس کے نتیجے میں پورا لان برباد ہوگیا،
پھولدار اور سرسبزپودے سوکھ گئے۔ گھاس بڑھ گئی اور بہت سی جھاڑیاں اور
کانٹے نکل آئے۔ یوں لگا کہ جیسے جنگل ہو، اس بات کا بہت دکھ ہوا۔ بس نیم
اور آم کے چند بڑے درخت بچ گئے۔
اس کے بعد اُن سے ڈھیر ساری باتیں ہوتی رہیں، کھانے کے بعد وہ تو چلے گئے۔
مگر میں سوچتا رہا کہ گھر کے سرسبز لان یا باغ کی مثال بالکل ہمارے جیسی ہے،
جس طرح لان کو مسلسل توجہ کی ضرورت ہوتی ہے (باغبانی کے ماہر حضرات کو اس
کا بخوبی تجربہ ہوگا)، اسی طرح، بالکل اسی طرح ہمارے جسم کو اور ہماری روح
کو مسلسل توجہ اور محنت درکار ہوتی ہے۔
اگر ہم اپنے جسم کی صفائی ستھرائی پر توجہ نہیں دیں گے، تو جسم سے بدبو آنے
لگے گی اور سر اور داڑھی کے بال اتنے بڑھ جائیں گے کہ ہم جنگلی محسوس ہونے
لگیں گے اور اتنی وحشت برسنے لگے گی کہ ہر کوئی ہمیں روک روک کر پوچھنے پر
مجبور ہوجائے گا کہ کیا ہوا؟ خیر تو ہے۔ یہی حال ہماری روح کا بھی ہے، اگر
اس پر توجہ نہیں دیں گے تو وہ پژمردہ ہوجائے گی اور ہم شیطان کے ہاتھوں
کھلونا بن کر گناہوں بھری زندگی گزارنے لگیں گے۔ ہمارے اخلاق وکردار کا
بیڑہ غرق ہوجائے گا اور ہمارا پورا وجود برباد ہوکر رہ جائے گا۔ بالکل اسی
طرح جیسے میرے دوست عطا کے لان کا حشر ہوا۔ اس نے بعد میں بتایا کہ اس نے
مالی کو بلوا کر پورے لان کو اکھڑوا دیا اور اس میں نئی کھاد ڈلوا کر نئی
گھاس اور درجنوں نئے پودے لگوائے اور مالی کی مدد سے پورے تین ماہ تک دیکھ
بھال کی اور پھر مجھے بلوایا۔ اس کا پورا لان خوشبوؤں سے مہک رہا تھا،
درجنوں پھولدار پودے اور بیلیں۔ اور ہری بھری گھاس۔ اس کا لان بالکل تبدیل
ہوچکا تھا۔
ہماری شخصیت بھی گھر کے لان کی طرح ہے اور ہمیں اس پر بھرپور اور مسلسل
توجہ دینا چاہئے۔ اپنی شخصیت کے کانٹوں اور جھاڑیوں کو صاف کرنا چاہئے اور
اس میں پھول اور پھلدار پودے لگانا چاہئے۔ ان کی مسلسل دیکھ بھال سے ہماری
شخصیت کا لان پھولوں کی خوشبوؤں سے مہک جائے گی اور جب پھلوں کے پودے
نشوونما پانے کے بعد درخت بنیں گے اور پھل دیں گے تو اس سے نہ صرف ہمیں
بلکہ دوسروں کو بھی فائدہ ہوگا۔ مزیدار انگور کی بیلیں، کینو، آم، سیب اور
دوسرے مزے مزے کے پھلوں سے ہماری شخصیت کے باغ کے پھلوں کی دھوم مچ جائے گی۔
لیکن اپنی شخصیت کے لان پر ہمیں مسلسل توجہ دینا ہوتی ہے، کیونکہ ذرا سی
عدم توجہی ہمارے باغ کو نقصان پہنچائے گی اور اگر ہم نے یہ عمل جاری رکھا
تو ہماری شخصیت کا باغ بھی اجڑ جائے گا اور پھر ایسا اجڑے گا کہ بسائے نہیں
بس سکے گا۔
دنیا میں بہت سے انسان اپنی شخصیت پر بھرپور توجہ دیتے ہیں، چاہے کسی بھی
علاقے، رنگ، نسل یا مذہب سے تعلق رکھتے ہوں۔ مگر ان کی اکثریت خودساختہ
اصولوں کی بنیاد پر اپنی شخصیت کی تعمیر کرتی ہے۔ جس کے نتیجے میں نہ صرف
فرد بلکہ پورے معاشرے بھی فلاحی اور انسان دوست بن جاتے ہیں۔ لیکن چونکہ اس
حوالے سے وہ اپنے خالق یعنی اللہ ربّ العزت کی ہدایت سے رہنمائی حاصل نہیں
کرتے، اس لئے ان کے بعض پہلو تشنہ رہتے ہیں، بلکہ ان کی بنیادیں کھوکھلی رہ
جاتی ہیں۔ اس کی مثال بالکل ایسی ہے، جیسے ہم الیکٹرانک کی کوئی بھی مشین
اس کے مینوئل کی ہدایت کے بغیر استعمال کریں۔
ہم مغرب سے بہت مرعوب ہیں اور بڑے فخر سے اس کی مثال دیتے ہیں اور بہت سے
دوست تو مرعوبیت میں اس قدر بڑھ جاتے ہیں کہ یہ کہنے سے بھی گریز نہیں کرتے
کہ امریکہ اور یورپ والے ہم سے اچھے مسلمان ہیں، بس انہوں نے کلمہ نہیں
پڑھا۔ اس حوالے سے تفصیل میں جانے کا موقع نہیں، صرف ان کا ایک پہلو ہی
دیکھ لیں، جو بُری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ ان کا خاندانی نظام تباہ و
برباد ہوچکا ہے۔ شادی کا نظام ختم ہورہا ہے، مرد عورتیں شادی کے بغیر زندگی
کے چند سال گزارتے ہیں اور پھر دوسرے ساتھی کے ساتھ۔ شادی کرکے بھی تھوڑے
عرصے بعد طلاقیں دے دیتے ہیں۔ ہزاروں ناجائز بچے یتیم خانوں میں پرورش
پارہے ہیں۔
مسلم معاشروں کا حال بھی اچھا نہیں، کیونکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اُس
ابدی ہدایت سے منہ موڑ لیا ہے اور دنیا حاصل کرنے کے لئے ہر وہ کام کررہے
ہیں، جو مغرب کے لوگ کرتے ہیں۔ یعنی تعلیم کا حصول، روزگار پر لگنا، شادی
کرنا، بچے پیدا کرنا اور مرجانا۔ یہ کام تو جانور بھی ہیں، تو کیا ہم میں
اور جانوروں میں کوئی فرق نہیں؟؟؟
ہم ساری عمر خوابوں کے پیچھے بھاگنے میں گزار دیتے ہیں۔ دنیا حاصل کرنے کے
خواب، پیسہ، کار، بنگلہ، اور دیگر آسائشیں۔ یہ سب کچھ مل بھی جاتا ہے تو بے
چینی اور بے سکونی دور نہیں ہوتی۔ بات وہی ہے کہ ہم نے اپنی شخصیت کے باغ
کو اجاڑ دیا ہے اور اس پر کوئی توجہ دینے کو تیا رنہیں۔ آئیے اپنی ذات کے
باغ کی تعمیر کریں۔
|