مجھے میرے رشتہ داروں سے بچاؤ

قارئین آپ کو شاید یہ نام سنا سنایا لگے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ یہ عنوان میں نے اپنے ایک عظیم فطین اور قدیم لکھاری سجاد حیدر یلدرم کا مضمون"مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ"پڑھ ہی تجویز کیا ہے۔یہ عنوان تجویز کرنے کا اولین مقصد تو سجاد حیدر یلدرم کے فلسفہ حیات کو خراج تحسین پیش کرنا ہے اور دوسرا اس موضوع کو مزید وسیع کرتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کرنا ہے۔موضوع میں کوئی خاص فرق تو نہیں ہے۔ مثلاً دوست رشتہ دار بھی ہو سکتے ہیں اور رشتہ دار دوست بھی ہو سکتے ہیں۔مگر ایک فرق تو واضح ہے کہ دوست پرایوں میں بھی بنائے جا سکتے ہیں مگر رشتہ دار صرف اپنے ہو تے ہیں۔اپنے بھی ایسے کہ جن کے سپنوں سے بھی اللّٰہ بچائے۔

جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ انسان کی اولین رشتہ داری ماں باپ سے شروع ہوتی ہے۔اسکے بعد اوپر تلے رشتوں کی ایک لائن ہی لگ جاتی ہے۔ مثلاً: بھائی،بہن،چچا،چچی،ماموں،ممانی،دادا،دادی،نانا،نانی،پھپھو،پھوپھاوغیرہ وغیرہ: یہ تو ہوتے ہیں انسان کے قریبی رشتہ دار اس کے بعد تھوڑا دور اور پھر دور کے رشتہ داروں کی ایک لامحدود تعداد ہوتی ہے۔ان میں بھی ہمہ قسمی رشتہ دار پائے جاتے ہیں۔ مثلاً: چالاک ،مکار،لالچچی، بھولے،غدار،منافق اور زبان دراز ہر طرح کا مصالحہ ملتا ہے۔ابھی ایک قسم بےوقوفوں کی بھی پائی جاتی ہے جو کہ تمام اقسام کے سونے پہ سہاگا ہوتی ہے۔اب جو ان کی کچھار سے بچ جائے اس کی سمجھداری کو سلام۔ورنہ جو ان کے آوے میں آجائے تو بیچارہ بن جلے ہی مر جائے۔

ابھی حالیہ دنوں کی بات ہے،میری ایک عزیزہ کا ہاضمہ خراب رہہتا تھا۔اس دن چونکہ اس کے پیٹ میں شدید درد تھا اس لیے آلے دوالے کے سارے رشتہ دار اکٹھے ہوگئے،کسی نے کہا،تمہیں فلیجل کی گولی کھانی چاہیے،دوسرےنے کہا،سونف کا کاڑھا دو اسے ابھی درد رفع ہو جائے گی۔

ایک نے مشورہ دیا،پودینے والا کہ وہ پیو،بیماری یوں یوں دفع ہو جائے گی۔ایک نے کہا،یہ سب زیادہ کھانے سےہوتا ہے۔دو چار دن بھوکی رہو،دیکھنامعدہ کیسے ٹیٹ ہوتا ہے۔کسی نے کہا،کوئی دم وم کرواؤ۔کہیں تعویذ وعویذ نہ ہوگئے ہوں۔

ایک بھلے مانس نے حافظہ خراب ہونے کا بھی عندیہ دے ڈالا۔اوپر سے معائنہ بھی اپنے اپنے انداز میں ہو رہا تھا۔کوئی کہتا ہے پتا میں خرابی لگتی ہے۔کسی نے کہا تلی سوج گئی ہوگی۔کوئی اور کہتا ہے آنتوں میں زخم ہیں۔اوپر سے ایک نے آتے ہی آنتوں کے سکڑ جانے کا بتایا۔ایک نے تو آنتوں کی چمڑی ہی اتار ڈالی۔ آلقصہ خدا کے کسی بھی بندے کو مریضہ کے حال پر رحم کھاتے ہوئے ڈاکٹر کے پاس جانے کا خیال نہیں آیا۔جیسے جیسے مریضہ کی ہائے ہو بڑھ رہی تھی،ہریڑ،کچور،سونف کی پھکی کی ایک ایک تلی زبردستی اس کے پیٹ میں دھکیلی جارہی تھی۔اور پھر دو گھونٹ پانی تو بن مانگی برسات کی طرح انڈیلا جا رہا تھا۔آخر کار ہم نے بڑی مشکل سے مریضہ کے شوہر کو ڈاکٹر کے پاس جانے کےلئے راضی کیا۔اس کے علاوہ بھی اگر دیکھا جائے تو کہیں شادی ہو،مرگ ہو یا کوئی تقریب،طنبو لگوانے سے لے کر دفتر خوان بچھانے تک رشتہ داروں کے طعنے ٹسکے اور انگڑائیاں ہی چلتی ہیں۔انھیں ولیمہ کی دعوت پر پکنے والا حلوہ لگتا تو مزیدار ہے مگر گھی زیادہ ہونے کی وجہ سے اندر کم جاتا ہے۔دلہن کے کپڑے اگرچہ مہنگے تو ہوتے ہیں مگر پھر بھی چج کے سلے ہوئے نہیں ہوتے۔اورتو اور رشتہ داروں کے اعتراضات قل خوانیوں پر بھی نہیں تھمتے۔

"ارے بیٹا! تم نے ماں کی قل خوانی کھانا تو بہت اچھا دیا مگر سارا کچھ نمکین ہی تھا،میٹھے کی تو پھر الگ ہی بات ہوتی ہے ناں"کسی کے فروٹ ہوتے تو ہیں مگر موسم کے لحاظ سے موزوں نہیں ہوتے۔
اور پھر جلتی پہ تیل ڈالنا تو میرے رشتہ داروں کو خوب آتا ہے۔کہیں لڑائی ہو رہی ہو یا کسی کے درمیان لڑائی ہو چکی ہو۔میرےرشتہ دار دیوار بن جاتے ہیں وہ بھی چار کانوں والی۔"آئے ھائے!اس نے تو تمہارے سفید بالوں کا بھی لحاظ نہیں کیا"۔" اللّٰہ جھوٹ نہ بلوائے اس نے تمہیں مکّار کہا ہے مکار"۔"اونہہ،یہ منہ اور مسور کی دال،ارےوہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا"۔"اس کو تو کوئی منہ بھی نہیں لگاتا،تم ہی ہو جو برداشت کرتی ہو اس کے لچھن"وغیرہ وغیرہ۔ایسا بھی نہیں ہے کہ میرے سارے رشتہ دار ہی ایسے ہی ہیں۔ان میں کچھ اچھے بھی ہیں مگر ان کی تعداد ذرہ قلیل ہے۔لیکن میری دھائی وہی ہے۔" مجھے میرے رشتہ داروں سے بچاؤ"۔

 

Surat Khan
About the Author: Surat Khan Read More Articles by Surat Khan: 13 Articles with 26469 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.