سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ وہ شخصیت ہیں جن پر
جتنا لکھا جائے کم ہے۔ یہی وہ ہستی ہے جو آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ
بچپن سے لے کر پچپن تک چلی۔صرف چلی ہی نہیں بلکہ چلنے کا ایسا حق ادا کیا
کہ رہتی دنیا تک فخر کے ساتھ یاد رکھا جائے گا بلکہ یوں کہا جائے تو غلط
نہیں ہو گا کہ یہ ایسی دوستی تھی جس پر دوستی نے بھی ناز کیا ہو گا۔ جناب
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ عام الفیل سے اڑھائی سال پہلے اور ہجرت نبوی
صلی اللہ علیہ وسلم سے پچاس برس چھے ماہ پہلے 573 عیسوی میں دارالفنا میں
قدم رکھتے ہیں، اس لحاظ سے آپ کا اس دنیا میں آنا آقا صلی اللہ علیہ وسلم
سے اڑھائی سال بعد ہوا، آپ رضی اللہ عنہ کا نام عبد اللہ بن عثمان ،آپ رضی
اللہ عنہ کی کنیت ابوبکر، آپ رضی اللہ عنہ کا لقب صدیق ہے۔ اور لقب دینے
والی مبارک ہستی صدیقین کی بادشاہ جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کی تھی، آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ ہر کسی نے میرے نبی ہونے کے
لیے دلیل مانگی ابوبکر رضی اللہ عنہ بلا دلیل مسلمان ہوئے یہ سیدناابوبکر
رضی اللہ عنہ کی ذات اقدس کی پاکیزگی کی اعلی مثال ہے۔ جناب ابوبکر رضی
اللہ عنہ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ کی دوستی کا آغاز حضرت ابوبکر
رضی اللہ عنہ کی اٹھارہ سال کی عمر میں ہوتا ہے، صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے
آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے چالیس برس مکمل ہوتے ہی نبوت کے اظہار پر محمد
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گواہی دی۔ یوں اڑتیس سال کی عمر میں مردوں
میں پہلے مسلمان ہونے کا اعزاز بھی اپنے نام کیا، معراج کا واقعہ سن کر
مشرکین مکہ جب پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو مجنون کہتے ہوئے بغلیں بجا
رہے تھے اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس اس ارادے سے پہنچے کہ آج
ابوبکر لاجواب ہو کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفت پر اتر آئیں گے۔ اس
نازک وقت میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان کہ اگر یہ بات محمد صلی
اللہ علیہ وسلم کی زبان کہ رہی ہے تو یہ سچ کے سوا کچھ نہیں۔ اس ناک وقت
میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی دوستی
کا حق ادا کیا اور وجہ کائنات ﷺ سے صدیق کا لقب حاصل کیا، اور سیدنا ابوبکر
رضی اللہ عنہ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ آپ کا تمام گھرانہ، کیا والد ،کیا
والدہ ،کیا بچے ،اور کیا بڑے سب کے سب مشرف با اسلام ہوئے۔ اور عشرہ مبشرہ
رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین میں سب سے پہلا نمبر جناب ابوبکر رضی اللہ
عنہ کا ہی ہے۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ مکہ کے ایسے عظیم تاجر تھے کہ مکہ
جیسے شہر میں ریشم کی سات دکانیں رکھتے تھے، لیکن جب یار کے لیے قربانی کا
وقت آیا سب کچھ اپنے یار کی نذر کر دیا چشم فلک نے وہ وقت بھی دیکھا کہ سات
ریشم کی دوکانوں کا مالک ابوبکر ٹاٹ کا لباس زیب تن کیے دربار رسالت ﷺمیں
آتا ہے،جس پر اہل دنیا تو کیا داد دیتے اہل عرش بھی داد دئیے بغیر نہ رہ
سکے ،ربِ کائنات کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی یہ قربانی اور یہ ادا اتنی
پسند آئی کہ ملائکہ کو ابوبکر رضی اللہ عنہ کی سنت میں ٹاٹ کا لباس پہنا
دیا گیا، جب مشرکین مکہ نے اہل اسلام پر زمین تنگ کر دی اور آقا صلی اللہ
علیہ وسلم کو بیت اللہ میں نماز ادا کرنے سے روک دیا اس وقت صدیق اکبررضی
اللہ عنہ نے اپنے گھر میں مسجد بنا کر اسلام کی پہلی مسجد بنانے کا اعزاز
بھی اپنے نام کیا، اللہ تعالیٰ کو ابوبکر رضی اللہ عنہ کی یہ جانثاری اتنی
پسند آئی کہ محبوب دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہجرت کے سفر میں بھی حضرت
ابوبکر رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھی بنا دیا،اور
ہجرت کے سفر میں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے دوستی کا ایسا حق ادا کیا کہ
خود تو سانپ کا ڈسنا بھی برداشت کر لیا لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم کو جگانا برداشت نہ کیا اور اپنی جان کی پرواہ کیےبغیر اپنے دوست کی
فکر میں لگے رہے۔یہ ادائیں اللہ رب العزت کو اتنی پسند آئیں کہ رب کائنات
نے قرآن بنا کر اتار دیا۔چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے:
"جس وقت اسے کافروں نے نکالا تھا کہ وہ دو میں سے دوسرا تھا جب وہ دونوں
غار میں تھے جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا تو غم نہ کھا بے شک اللہ
ہمارے ساتھ ہے۔"
جسے پڑھ کر ہر مسلمان اور ہر قاریِ قرآن سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو داد
دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں جناب ابوبکر رضی اللہ
عنہ اپنے دوست سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے سفیر رہے اور کوئی غزوہ
ایسا نہیں جس میں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے شانہ
بشانہ نہ کھڑے ہوئے ہوں،غزوہ بدر میں پیاےآقا صلی اللہ علیہ وسلم کے پہرے
داری حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آئی ۔اور غزوہ احد میں جب
مسلمانوں پر کڑا وقت آیا اور مسلمانوں کے قدم اکھڑنے لگے اس وقت میں بھی
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے دوست پیارے آقاﷺ کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر
دوستی کا حق ادا کرتے رہے اور غروہ تبوک میں جب چندے کا اعلان کیا گیا تو
جناب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر کا سارا سامان اپنے حبیب صلی
اللہ علیہ وسلم کے قدموں ڈھیر کر دیا، جس پر زبان نبوت پکار اٹھی کہ ابوبکر
تیرا قرضہ اللہ ہی اتارے گا، آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الوفات کے دنوں
میں حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کو امامت صغری یعنی مصلی نبوت پر کھڑا کر
دیا اور لوگوں کو نماز پڑھانے کا حکم دیا،اللہ تعالی کو یہ دوستی اتنی پسند
آئی کہ دونوں دوستوں کی عمر بھی برابر تریسٹھ برس فرما دی، آقا صلی اللہ
علیہ وسلم کی وفات کے بعدصدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ اڑھائی سال زندہ رہے۔ اور
بااجماع امت مسلمانوں کے پہلے خلیفہ منتخب ہوئے جو محبوب کبریا حضرت محمد
صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی دوستی کا تتمہ
تھا، محبوب کبریا صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر جب تمام عشاقان ِرسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم دم توڑ رہے تھے۔ جنابِ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے
دوست کی محنت کے ثمر کو سنبھالا اور اور امت مسلمہ کو مجتمع کیا اور اپنے
دوست کے مشن کو اس قدر دل لگی سے جاری رکھا اور یہاں تک فرمایا کہ اس حالت
میں بھی آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو پورا کیا جائے گا اور جیش اسامہ
جسے آقا ﷺ نے جہاد کے لیےروانہ فرمایا تھا بلا تاخیر اسی وقت روانہ کیا
جائے گا۔ اور مانعین زکواة کا فتنہ جب سر اٹھانے لگا تو خلیفہ بلافصل سیدنا
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس قدر دو ٹوک الفاظ میں اپنا فیصلہ صادر
فرمایا کہ لوگ حیران رہ گئے۔ ارشاد فرمایا اگر کوئی ایک رسی بھی زکواة میں
آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں دیتا تھا اب روکے گا تو ابوبکر رضی
اللہ عنہ اس کے خلاف بھی جہاد کرے گا اور ارشاد فرمایا۔
"اینقص الدین وانا حیی"
یعنی ابوبکر زندہ ہو اور اپنے دوست کےمشن میں کمزوری آئے؟ ایسا ممکن ہی
نہیں۔ اگر دیکھا جائے تو سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ کا یہ ڈھائی سال کا عرصہ
ہی آپ کی دوستی کا سب سے بڑا امتحان تھا۔ جسے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ
عنہ نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر احسن طریقے سے پایائے تکمیل تک پہنچایا،
اور رہتی دینا تک دوستی کی مثال اورنئی تاریخ رقم کرتے ہوئے، بائیس جمادی
الثانی تیرہ ہجری بروز سوموار مغرب اور عشاء کی نمازوں کے درمیان دار الفنا
سے دار البقا کی طرف روانہ ہوئے اور یار غار کے ساتھ ساتھ یار مزار بھی بن
گئے۔دعا ہے اللہ تعالیٰ ہمارا حشر بھی ان دوستوں کے ساتھ فرما دے ۔آمین!
|