اسلام عربی زبان کا لفظ ہے جس کی معنی امن کی ہوتی
ہے، اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو بنی نوع انسان کے لئے پرامن زندگی پیش کرنے
کےلئے قانون امن لایا ہے ، جس میں خدا کی لازوال شفقت اور رحمت زمین پر
ظاہر ہوتی ہے۔ خدا نے تمام لوگوں کو اپنی اخلاقی اقدار کے مطابق زندگی
گزارنے کا حکم دیا ہے تاکہ پوری دنیا ہمدردی ، رحمت ، امن، محبت اور سکون
کےساتھ زندگی گزار سکے۔
آئیے :اسلام کے خوبصورت پیغام کو کلام مجید کی روشنی میں جاننے کی سعادت
حاصل کرتے ہیں ۔
قارئین:آپ ہمیشہ سلامت رہیں ۔آپ کی محبت ہی ہمیں اس بات پر مجبور کرتی ہے
کہ ہم آپ تک مصدقہ ومسلمہ اور نفع بخش معلومات آپ تک پہنچاتے رہیں ۔آئیے
بڑھتے ہیں اپنے موضوع کی جانب ۔سورۃ طارق کے بارے میں بنیادی معلومات
سیکھتے ہیں ۔
مقامِ نزول: سورۂ طارق مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ہے ۔اس سورت میں 1رکوع،
17آیتیں ہیں ۔
’’طارق ‘‘نام رکھنے کی وجہ تسمیہ :
اسلام کا کوئی بھی کام حکمت سے خالی نہیں،چنانچہ سورہ طارق کو طارق کیوں
کہتے ہیں ذرااس کی وجہ تسمیہ بھی جان لیتے ہیں ۔اس معاملے میں صراط الجنان
تفسیر سے ہم نے خوب استفادہ کیا۔چنانچہ وہاں سے ماخوذ معلومات آپ کو بیان
کرتے ہیں ۔
اُس ستارے کو طارق کہتے ہیں جو رات میں خوب چمکتا ہے نیز رات میں آنے والے
شخص کو بھی طارق کہتے ہیں ، اور اس سورت کی پہلی آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے
اس ستارے کی قسم ارشاد فرمائی ہے اس لئے اسے ’’سورۂ طارق‘‘ کہتے ہیں۔
قارئین:
اس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ اس میں مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے
جانے،حشر و نشر اور حساب و جزا پر ایمان لانے کے بارے میں کلام کیاگیا ہے
اورا س سورت میں یہ مضامین بیان کئے گئے ہیں :
(1)…اس سورت کی ابتداء میں آسمان اور رات کے وقت خوب چمکنے والے ستار ے کی
قسم کھا کر یہ فرمایا گیا ہے کہ ہر انسان پر حفاظت کرنے والا ایک فرشتہ
مقررہے۔
(2)…انسان کو اپنی تخلیق کی ابتداء میں غور کرنے کا حکم دیا گیا تاکہ اسے
معلوم ہو جائے کہ پہلی بار پیدا کرنے والا رب تعالیٰ دوبارہ زندہ کرنے پر
بھی قدرت رکھتا ہے۔
(3)…یہ بتایاگیا کہ جب قیامت کے دن عقائد ،اعمال اور نیتیں ظاہر کر دی
جائیں گی تو اس وقت مرنے کے بعد زندہ کئے جانے کا انکار کرنے والے کے پاس
کوئی طاقت اور کوئی مددگار نہ ہوگا جو اسے اللّٰہ تعالیٰ کے عذاب سے بچا
سکے۔
(4)…آسمان اور زمین کی قسم کھا کر ارشاد فرمایا گیا کہ قرآنِ مجید کوئی
ہنسی مذاق کی بات نہیں بلکہ یہ حق اور باطل میں فیصلہ کر دینے والا کلام
ہے۔
(5)…اس سورت کے آخر میں بتایا گیا کہ کفار اللّٰہ تعالیٰ کے دین کو مٹانے
کے لئے طرح طرح کی چالیں چلتے ہیں اور اللّٰہ تعالیٰ ان کے بارے میں اپنی
خفیہ تدبیر فرماتا ہے جس کی انہیں خبر نہیں۔
یہی نہیں بلکہ اگر باریک بینی سے کلام الہی میں غور کرتے چلے جائیں گے تو
علم کے بند کواڑ بھی کھلتے چلے جائیں گے ۔ایک معمول بنالیجئے ۔جو سیکھا
اُسے دوسروں تک ضرور پہنچائیں ۔علم عمل کے بنا بھی بے فائدہ ہے چنانچہ اس
معلومات کو زندگی میں نافذ کرنے کی بھی کوشش کیجئے ۔
میرا رب آپ اور ہم سب سے راضی ہوجائے ۔ہمیں اپنے مقبول بندوں میں
شمارفرمالے ۔آمین
|