حکومت پنجاب نے اس سال بھی پتنگ بازی پر پابندی برقرار
رکھی ہے اور یہ کھل کر بتا دیا ہے کہ بسنت کے نام پر ہونے والے موسمی تہوار
کے نام پر کسی قسم کا خونی کھیل کھیلنے کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے
گی۔حکومت کا یہ انتہائی مثبت اقدام ہے، جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے اتنی
ہی کم ہے۔ حکومت پنجاب کی ہدایات پر پنجاب پولیس کے اہلکار ہر علاقے میں
جاکر مختلف ذرائع اطلاعات استعمال کرتے ہوئے عوام الناس کو پتنگ بازی پر
پابندی کے متعلق مطلع کررہے ہیں، اور خلاف ورزی کی صورت میں ممکنہ قانونی
اقدامات کے متعلق متنبہ کررہے ہیں۔ پنجاب پولیس کی جانب یہ اعلان کیا جارہا
ہے کہ ”جو پتنگ اُڑائے گا سیدھا جیل جائے گا“۔پولیس اہلکاروں کی طرف سے
ہونے والے اعلانات کی بہت سی ویڈیوز اس وقت وائرل ہورہی ہیں۔ جس میں خصوصی
طور پر والدین کو warnings دی جارہی ہیں کہ اگر انکا بچہ پتنگ بازی کرتے
ہوئے پکڑا گیا تو مقدمات ان والدین کے خلاف بھی درج کیے جائیں گے۔اک غیر
جانبدارانہ جائزہ لینے کی اشد ضرورت ہے کہ آخر پتنگ بازی پر گزشتہ کچھ
سالوں سے پابندی کیوں عائد کی جارہی ہے، ایسی کونسی وجوہات ہیں کہ اس
تفریحی سرگرمی کو حکومتی سطح پر آہنی ہاتھوں سے روکا جارہا ہے۔
خطہ برصغیر پاک و ہند میں پتنگ بازی عرصہ دراز سے جاری و ساری رہی ہے جس
میں پوری دنیا سے یار دوست، رشتہ دار پاکستان خصوصاً پنجاب اور بالخصوص
زندہ دلان کے شہر لاہور میں ہونے والی پتنگ بازی کرنے کے لیے آیا کرتے تھے،
جس کی بدولت علاقہ میں نہ صرف بہترین تفریح میسر آتی تھی بلکہ پتنگ بازی
لاکھوں کروڑوں روپے کی معاشی سرگرمیوں کا موجب بھی بنا کرتی تھی۔اور پتنگ
سازی سے منسلک ہزاروں افراد کو بہترین روزگار بھی میسر ہوا کرتا تھا، اسکے
ساتھ ساتھ حکومت وقت کے خزانے میں ٹیکس و دیگر محاصل کی صورت میں اچھی خاصی
آمدن جمع ہوا کرتی تھی۔ پھر ماضی قریب میں اس تفریحی سرگرمی کو سختی سے
روکا جانا شروع کردیا گیا۔ پتنگ بازی کی پابندی لگنے کی وجوہات میں سب سے
بڑی وجہ پتنگ بازی کرنے کے لئے استعمال ہونے ڈور جو کسی وقت میں سادہ دھاگہ
اور grand کئے ہوئے شیشہ کے پاؤڈر کے ذریعہ سے بنائی جاتی تھی، پھر وقت
گزرنے کے ساتھ ڈور بنانے میں بھی جدت آتی گئی اور دھاگہ کی جگہ کیمیکل سے
بنا ہوا دھاگہ جسکو دھاگہ کہنے کی بجائے کمیکل یا پلاسٹک یا nylon کی تار
کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔
اصل میں یہ خونی ڈور ہی پتنگ بازی پر پابندی کا باعث بنی ہے کیونکہ جب سے
پتنگ بازی کے لئے اس موت کا سامان والی کیمکل ڈور کا استعمال شروع ہوا ہے
تو آئے روز خبریں سننے اور دیکھنے کو ملتی تھی کہ کٹی ہوئی ڈور گردن پر
پھرنے سے اک نوجوان کی جان چلی گئی، کئی ماوؤں کے لال قبر کی اندھیری وادی
میں چلے گئے۔کیمکل سے بنی ڈور کا سب سے زیادہ شکار موٹر سائیکل سوار ہوئے
ہیں اسکے بعد چھتوں پر کھڑے بچے اس تباہ کن ڈور کی نظر ہوگئے۔ درحقیقت
زندگی کے ہراُس معاملہ جس میں توازن ختم ہو جائے وہ ہمیشہ نقصان دہ ثابت
ہوتا ہے، یہی حال پتنگ بازی کے معاملہ میں ثابت ہوا ہے کیونکہ جب تک پتنگ
بازی میں اک تفریح اور روایتی طریقوں سے کی جاتی رہی یہ اتنی خطرناک کبھی
ہوئی نہ تھی بلکہ پتنگ بازی تفریح کیساتھ ساتھ اک بہت بڑی معاشی سرگرمی بھی
بن چکی تھی اور اس وجہ سے پتنگ سازی بھی اک بہت بڑی صنعت کا روپ دھار چکی
تھی اور موسم بہار شروع ہوتے ہی بسنت اور پتنگ بازی اک موسمی تہوار کے طور
پر منائی جاتی تھی۔ مگر جیسے ہی پتنگ بازی نے روایتی اور دیسی طریقوں سے ہٹ
کر مصنوعی طور طریقوں کو اختیار کیا تو یہ تفریح عدم توازن کا شکار ہوگئی
اور اک خونی کھیل بن گئی۔
پتنگ بازی میں استعمال ہونے والی خونی ڈور انسانی جانوں کے ضیاع کے ساتھ
ساتھ بجلی کے گریڈ اسٹیشنوں کے لئے بھی انتہا ئی نقصان دہ ثابت ہوئی، جسکی
بناء پرکئی مرتبہ بجلی کی سپلائی میں تعطل ہوا اور عوام الناس کی روزمرہ
زندگیاں مفلوج ہوکر رہ گئی، اس کے ساتھ گریڈ اسٹیشنوں کی انتہائی قیمتی
املاک اور مشینری کو بھی شدیدنقصانات پہنچے۔آخرکار بجلی سپلائی کرنے والی
واپڈا کی کئی کمپنیوں نے حکومت وقت کو پتنگ بازی پر مکمل پابندی عائد کرنے
کی درخواستیں بھجوائیں۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق لاہور پولیس آپریشنز ونگ نے، ڈی آئی جی آپریشنز
اشفاق احمد خان کی نگرانی میں، پنجاب پروبیشن آف کائٹ فلائنگ آرڈیننس 2001
میں ترمیم کے لئے ٹھوس تجاویز پیش کی ہیں، جو وزیر اعلی پنجاب کی منظوری کے
بعد باضابطہ طور پر نافذ کی جائیں گی۔ شہریوں کی جانوں کے تحفظ کو یقینی
بنانے کے لئے، جرم کی نوعیت کے مطابق پتنگ فروشوں، سازوں اور پتنگ بازوں کو
سزا میں اضافہ کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔پتنگ سازی اور پتنگ بازی کی
حوصلہ شکنی کے لئے مجوزہ تجاویز کے تحت ، پتنگ بنانے کی کی سزا ایک سے پانچ
سال قید یا 5 لاکھ سے 20 لاکھ تک جرمانہ یا دونوں کی ہے۔ اسی طرح پتنگ
فروخت کرنے کی صورت میں ایک سال سے پانچ سال قید یا 2 لاکھ سے 5 لاکھ روپے
تک جرمانہ یا دونوں ایک ساتھ مل کر تجویز کیے جاتے ہیں۔ پتنگ بازی کی صورت
میں، تین ماہ سے ایک سال قید یا پچاس ہزار سے ایک لاکھ روپے جرمانہ یا
دونوں کی سفارش کی گئی ہے۔پولیس تجاویز کے مطابق، ایف آئی اے کو یہ حق حاصل
ہوگا کہ وہ سائبر مجرموں کے خلاف فیس بک پیجز اور ویب سائٹس کے خلاف
کارروائی کریں جو پتنگ سازی، پتنگ بیچنے اور مینوفیکچرنگ کے اس منظم جرم
میں ملوث ہیں۔لاہور پولیس کی مجوزہ تجاویز کے مطابق، کیمیکل ڈوروں کی تیاری
میں استعمال ہونے والے nylon دھاگے اور دیگر تاروں کی درآمد روکنے کے لئے
ایف بی آر اور وزارت تجارت سے رابطہ کیا جائے گا۔
اک ذمہ در شہری ہونے کے ناطے ہم سب کو ذاتی حیثیت میں اور معاشرہ کے طور پر
مجموعی حیثیت میں اس خونی کھیل کی نہ صرف حوصلہ شکنی کرنی چاہئے بلکہ حکومت
وقت کی اس خونی کھیل کے تدارک کے لئے کی جانے والی کوششوں میں بھرپور تعاون
کرنا چاہئے۔کیونکہ دکھ، تکلیف اور قرب وہی محسوس کرسکتا ہے جس کے جگر کا
ٹکڑا، جس کے سر کا تاج، جس کا سہاگ اس خونی کھیل میں اپنی جان گنوا
بیٹھے۔اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ چند لمحوں کی تسکین کی خاطر کسی قیمتی
انسان کے لئے خطرہ نہ بنیں اور تکلیف دہ قانونی گرفت سے محفوظ رہنے کی کوشش
کریں۔کیونکہ کسی بھی حادثہ کی صورت میں نقصان کسی ایک خاندان کا نہیں ہوتا
بلکہ حقیقت میں دیکھا جائے تو نقصان اور تکلیف دہ قانونی گرفت میں بہت سے
خاندان آجاتے ہیں۔کیونکہ پکڑے جانے کی صورت میں سیدھا سیدھا قتل شبہ کا
مقدمہ درج ہوتا ہے۔
؎اور ہمارے لئے توتعلیمات اسلامیہ میں یہ درس پہلے ہی سے موجود ہے جس کا
تذکرہ قرآن مجید و فرقان حمید میں ملتا ہے۔
جو کوئی کسی کو قتل کرے، جبکہ یہ قتل نہ کسی اور جان کا بدلہ لینے کے لئے
ہو اور نہ کسی کے زمین میں فساد پھیلانے کی وجہ سے ہو تو یہ ایسا ہے جیسے
اس نے تمام انسانوں کو قتل کردیا اور جو شخص کسی ایک کی جان بچا لے تو یہ
ایسا ہے جیسے اس نے تمام انسانوں کی جان بچائی۔
اللہ کریم مجھ سمیت سب کو را ہ ہدایت نصیب فرمائے، اور اس طرح کی فضول اور
پرخطر سرگرمیوں سے ہم کو محفوظ رکھے، آمین ثم آمین
|