جب خدائے واحد نے اس دنیا کو خلق کیا تو اس میں خصوصی
خیال رکھا گیا کہ وہ تمام کی تمام زندگی سے متعلقہ اشیا موجود ہوں جن سے
انسان خوشی اور راحت محسوس کرے۔
یہ سب تسلی کر لینے کے بعد انسان کو خلق کیا گیا
اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مالک کون ومکاں ہم سے کس قدر محبت کرتا
ہے
مگر ہم اس دنیا میں رہتے ہوئے بھول چکے ہیں اور اپنے اپنے اندر ایک الگ
تھلگ دنیا بسائے بیٹھے ہیں۔جس میں اپنی مرضی کے مطابق ہم ہر چیز دیکھنا
چاہتے ہیں۔اور پھر اس پر حاکم بن کے زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں۔
جو کہ ایک حماقت سے کم نہیں۔۔۔۔۔
آج کا انسان اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے اتنا آگے نکل چکا ہے کہ اب اسے
واپسی کا راستہ تک یاد نہیں،،،،،مگر ایسا ہرگز نہیں کہ وہ واپس آنا چاہے
اور وہ واپس نہ آسکے کیونکہ وہ ذات اقدس تو ہر لمحہ اس انتظار میں رہتی ہے
کہ کب میرا بندہ مجھے پکارے؟؟؟؟؟؟؟؟؟
وہ تو غفور و رحیم ہے قادر مطلق ہے وہ ہر لمحہ معاف کرنے کو تیار ہے
بشرطیکہ انسان سچے دل سے اس کی طرف رجوع لائے ۔
مگر اس سارے کام کے لیے ہمارے اندر ایک جذبے کی ضرورت ہوتی ہے جس کو ہم
جذبہ ایمانی کہتے ہیں جس کے ذریعے ہم مشکل سے مشکل راہ پر بھی آسانی سے چل
سکتے ہیں۔
یہ جذبہ ہر شخص میں موجود تو ہوتا ہے مگر شیطان اس پر غالب رہتا ہے اور ہم
طرح طرح کے وسوسے اپنے دل میں رکھتے ہیں
کہ ایسا کرنے سے یہ نہ ہو جائے۔۔۔۔۔
یہ کروں گا تو میرا نقصان نہ ہو ۔۔۔۔
غرض یہ کہ ہم خالص مفادپرست بن کر رہ چکے ہیں۔ یہاں تک کہ جب مالک ہمیں
اولاد جیسی نعمت سے نوازتا ہے تو ہم وہاں بھی اپنی مفاد پرستی سامنے رکھتے
ہیں۔
بیٹا پیدا ہو تو خوشی کے شادیانے بجاتے ہیں ہر طرف مٹھائیاں تقسیم کی جاتی
ہیں
بچے کی ماں کو سر آنکھوں ہے بٹھایا جاتا ہے
غرض یہ کہ ہر جانب جشن کا سا سماں ہوتا ہے۔
میں ہرگز یہ نہیں کہتا کہ یہ سب غلط ہے
یہ سب ہونا چاہیے مگر دوسری جانب جب اللہ کی رحمت ینعی بیٹی پیدا ہوتی ہے
تو سب کے چہرے اتر جاتے ہیں
سب سے پہلے ڈاکٹر صاحبہ باہر آکر بڑی دردناک آہ بھر کر کہتی ہے کہ آپ کی
بیٹی پیدا ہوئی ہے جیسے کوئی بہت بڑا نقصان ہو گیا ہو،
یہ حقیقت ہے کہ لوگ نقصان کا ہی سوچتے ہیں۔
کہ اس پر خرچ کرنا پڑے گا اور پھر سب کچھ کرنے کے بعد کسی دوسرے کو سونپ دی
جائے گی۔
اس طرح دکھوں کی داستان کا آغاذ بیٹی کے پیدا ہونے سے ہی ہو جاتا ہے۔اہل
محلہ مبارک تک دینے سے ڈرتے ہیں کہ کہیں برا نہ مان جائیں۔
بعض اوقات ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بیٹی پیدا کرنے والی ماں کو لعن
طعن کیا جاتا ہے۔ یہ تو کچھ نہیں مار پیٹ تک کرتے ہیں
اور جب یہ سب کچھ کرنے کے باوجود جی نہ بھرے تو اسے اس جرم کی سزا طلاق بھی
دینے سے گریز نہیں کرتے۔
ٹھہریے ہم ذرا بات کرتے ہیں دور حاضر میں موجود جدید ٹیکنالوجی "الٹراساونڈ"
جس کے ذریعے آج کا وحشی انسان یہاں تک چیک کر لیتا ہے کہ ماں کے رحم میں '
نر' ہے یا 'مادہ' اور مادہ ہونے پر کچھ درندہ صفت ماں کے رحم میں ہی اس کا
قتل کر دیتے ہیں۔
کیا یہ سب کرنا واجب ہے ہرگز نہیں
کیونکہ ایسا کرنے سے ہم خدا کی مرضی کے مخالف جانے کی کوشش کرتے ہیں۔
جو کہ گناہ کبیرہ ہے جس کی سزا بہت بیانک ہوگی۔
کچھ خاندانوں میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کچھ لوگ اپنی بیٹی کو بچپن ہی سے
لڑکوں والے کپڑے پہناتے ہیں تاکہ وہ لڑکی ہوتے ہوئے بھی والدین کو لڑکا نظر
آئے
اس کی ذات کی نفی کا آغاذ اس طرح ہو جاتا ہے۔ اس طرح وہ ہر لمحہ محرومیوں
کا شکار ہونا شروع ہو جاتی ہے۔
باپ بیٹے کو پکارے گا تو کہے گا "میرا شیر" وغیرہ وغیرہ
مگر بیٹی کو اصلی نام سے بھی بمشکل پکارا جاتا ہے ۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ
بیٹی کو منحوس تصور کیا جاتا ہے
جس کی وجہ سے ایسی بیٹیاں توڑ پھوڑ کا شکار ہوتی رہتی ہیں اور وہ کبھی سمجھ
ہی نہیں پاتیں کہ ہم کیا ہیں اور ہمارا جرم کیا ہے؟
جس کی نہ ختم ہونے والی سزا ملتی رہتی ہے اور پھر اسی سوچ بیچار میں بیٹیاں
بالغ ہو جاتی ہیں
جس کی وجہ سے والدین غصے اور نفرت سے انہیں دیکھنا شروع کر دیتے ہیں کہ اب
اس کی شادی کرنی ہو گی اور ڈھیروں خرچہ ہو گا
والدین پھر رشتے کے لیے ہاتھ پاوں مارنا شروع کر دیتے ہیں۔
کچھ تو بڑے اچھے طریقے سے یہ فرض نبھاتے ہیں اور کچھ تو محض جان چھڑا تے
ہیں
کسی بھی ایرے غیرے کے پلے باندھ دیتے ہیں وہ پھر جیئے یا مرے اس کی قسمت،
دوران تلاش جب لڑکے والے لڑکی کو دیکھنے آتے ہیں تو اس انداز سے۔۔۔۔ کہ
کوئی گائے یا بھنس خریدنی ہو،
آتے ہی خواہش کا اظہار کرتے ہیں کہ لڑکی کو بلائیں
اور شروع ہو جاتے ہیں اسے سر سے پاوں تک دیکھنے اور وہ بیچاری ان کے سامنے
بغیر کچھ کہے بیٹھی رہتی ہے
اور پھر اٹھتے وقت کہتے ہیں کہ گھر مشورہ کر کے اطلاع کر دیں گے
اگر پیغام مثبت آ جائے تو بہتر ورنہ بیٹی پر ایک اور الزام لگتا ہے کہ اسے
کوئی قبول کرنے کو تیار نہیں۔
اور بیچاری بیٹی چپ چاپ سہہ لیتی ہے اپنے والدین کی عزت کی خاطر کہ کہیں وہ
برا نہ مان جائیں ۔
اگر شادی ہو بھی جائے تو اس کے دکھوں کا بوجھ کم نہیں ہوتا بلکہ بڑھ جاتا
ہے۔
دوسرے لفظوں میں آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ چھوٹی جیل سے بڑی جیل میں منتقل کر
دیا جاتا ہے۔جہاں جاتے ہی وہاں کے لوگ اسے دیکھ کر خوش ہو جاتے ہیں کہ ایک
ملازمہ آگئی اور پھر گھر کے تمام افراد اپنے اپنے کام اسے سمجھانا شروع ہو
جاتے ہیں۔اور وہ سب کے کام خوشی خوشی کرنا شروع ہو جاتی ہے کہ شاید ان سب
کے دلوں میں گھر بن جائے،کبھی ایک کے کام نمٹارہی ہے اور کبھی دوسرے کے اسی
طرح اسکا دن گزر جاتا ہے
اگر کبھی ان میں سے کوئی ناراض ہوتا ہے تو اس صورت میں میاں صاحب کا غصہ
بھی بیوی کے حصے آتا ہے اور وہ اس طرح ہونے والا ہر ستم سہتی رہتی ہے
کیونکہ وہ اپنے دکھڑے سنائے تو کس کو؟
اگر وہ ایسا کرتی ہے تو اسے گھر سے نکال دینے کی دھمکیاں ملتی ہیں۔
ایک عورت کا سب سے بڑا خوف یہی ہوتا ہے کہ کہیں اسے گھر سے نکال نہ دیا
جائے
وہ "درد زہ " تو خوشی سے سہہ لیتی ہے جو تمام تکالیف سے بڑھ کے ہے مگر گھر
سے نکالنے کا ڈر اسے ہر لمحہ کھاتا رہتا ہے وہ بوڑھی بھی ہو جائے تو یہ ڈر
اس کے دل سے نہیں جاتا۔
کیونکہ والدین بھی اپنی بیٹی کو گھر سے رخصت کرتے وقت کہتے ہیں کہ جا بیٹا
اپنے حقیقی گھر اور ہمیشہ وہاں کی ہو کر رہنا ،
اب وہاں سے صرف اور صرف تیرا جنازہ ہی نکل سکتا ہے ۔اور اس جملے کے بعد وہ
ساری زندگی ڈری رہتی ہےاور اسی ڈر میں وہ اپنی زندگی بسر کرنے پر مجور ہوتی
ہے۔
میرے خیال کے مطابق اگر ایک عورت کے دل سے یہ ڈر کم کر دیا جائے تو وہ دنیا
کی بہادر ترین ہستی بن سکتی ہےاور پھر وہ اپنے فرائض بہتر سر انجام دے سکتی
ہے۔
یہ سب برداشت کرتے کرتے جب خدا اسے اولاد جیسی نعمت سے نوازتا ہے تو اس کی
ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں اور وہ تمام دکھوں کو بھول جاتی جب اس کی گود میں
اسکا بچہ آتا ہے اور پھر اسی کی پرورش میں باقی زندگی بسر کرنا شروع کر
دیتی ہے کہ شاید یہ مستقبل میں میری مشکلات میں آسانیاں پیدا کرے۔
خود پیٹ بھر کے کھائے یا نہ کھائے مگھر بچے کا پیٹ اپنے دودھ سے بھر کر
اپنی خوش نصیبی سمجھتی ہے۔
راتوں کو اٹھ اٹھ کر سنبھالنا،
اپنے ہاتھوں سے اس کے پیشاب کو صاف کرنا،
اسے خشک جگہ اور خود گیلی جگہ سونا ، یہ سب ماں کی قربانیاں ہیں جو وہ اپنی
اولاد کےلیے دیتی یے۔
مگر جب اولاد جوان ہوتی ہے تو کہتی ہے کہ "ہم پر کون سا احسان کیا ہے یہ تو
سب کے والدین کرتے ہیں"
آپ نے کون سا انوکھا کام کیا ہے۔
ایسے لمحات ماں کے لیے بڑے دردناک ہوتے ہیں۔
مگر یہی ماں ان سب ادوار سے گزر کر جب اس مقام پر پہنچتی ہے کہ اپنی اولاد
کی شادی کرے تو اس وقت وہ بھی ایک روایتی ساس کا روپ دھار لیتی ہے۔
اور پھر وہ سب کچھ کرتی ہے جو اس کے ساتھ ماضی میں ہوتا رہا ہےاور زندگی کا
چکر اسی طرح چلتا رہتا ہے۔اور ہم ایک دوسرے کو قصور وار ٹھہراتے رہتے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اصل قصور وار ہے کون؟
اور یہ سب کیسے ختم ہو سکتا ہے؟
سوال مشکل ضرور ہیں مگر ان کے حل تلاش کرنا مشکل کام نہیں ہے صرف ضرورت اس
امر کی ہے کہ ہم سب مل کر ان کے حل تلاش کرنے میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں۔
میرے خیال کے مطابق اس ساری بیماری کی جڑ ہمارے اندر کا لالچ ہے جس کے گرد
یہ سارا جال بنا جاتا ہے جس میں عورت پھنس کر رہ جاتی ہے اور بعد میں وہ
طرح طرح کی مشکلات کا شکار ہوتی رہتی ہے۔
معاشرے میں اس موذی بیماری کو ختم کرنے کا واحد حل یہ ہے کہ ہم سب خدا کی
تمام تر نعمتوں کا صدق دل سے ہر لمحہ شکر ادا کیا کریں اور مالک جس حال میں
رکھے صبر کریں ۔
دور حاضر کے والدین پر بھی بھاری ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کی پرورش
میں کسی قسم کی کمی نہ چھوڑیں اور برابری کے اصولوں ہر عمل پیرا ہوتے ہوے
اولاد کے دلوں سے بیٹے اور بیٹی کا تفرقہ ختم کریں۔
بیٹیوں کی تعلیم و تربیت میں کمی نہ چھوڑیں تاکہ وہ ایک بیٹی ہونے پر
شرمندہ نہ ہو بلکہ فخر محسوس کرے جتنا کے ایک بیٹا۔۔۔۔۔
اور آج کی ماں پر لازم ہے کہ وہ اپنے اوپر ہونے والی تمام تر ذیادتیاں بھول
کر اپنی بہو سے پیار کرے جیساکہ وہ اپنی بیٹی سے کرتی ہے
اور بہو پر بھی لازم ہے کہ وہ اپنی ساس کو مقام دے جو وہ اپنی پیدا کرنے
والی ماں کو دیتی ہے۔
انشااللہ ایسا کرنے سے ہمارے گھریلو مسائل میں کمی واقع ہو گی اور یہ جو
بیٹیوں کو بوجھ سمجھنے والا سلسلہ ہے ختم ہو سکتا ہے۔
اس تحریر کے آخر میں میں بس یہی کہنا چاہوں گا ایک دوسرے کی برداشت کرنا
سیکھں تو پھر ہم ایک دوسرے کو معاف کرنے کا بھی حوصلہ رکھیں گے۔
حقیقت میں یہی ہماری بربادی کی وجہ ہے
جس کے نتیجے میں ہم تباہی کی طرف گامزن ہیں ۔
دعا ہے اس رب العزت کی بار گاہ الہی میں کہ وہ ہمیں سچ سننے،
سچ بولنے
اور سچ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین |