" />

خواتین کے حقوق اور ایوا الائنس ایک نظر میں


ریاستی اداروں کے احتساب کے حوالے سے نعرے بلند کرنے والی این جی اوز کی اس الائنس کے اپنے احتساب کا کیا طریقہ کار ہے اس بارے میں ایوا الائنس اور اقوام متحدہ کی یو این وومن چیپٹر بھی خاموش بلکہ گونگی کیساتھ بہری بھی ہے .اس الائنس نے اپنی کامیابیوں میں بہت ساری باتیں تحریر کر رکھی ہیں لیکن اپنے چوبیس صفحات پر مشتمل سٹریٹجی پلان میں یہ بھی لکھا ہے کہ خواتین پر تشدد کے خلاف مجوزہ بل انہوں نے تجویز کیا تھا. ساتھ میں مختلف قوانین کیلئے "ٹرمز آف ریفرنس" بھی انہوں نے تجویز کئے. قریبا ایک ہفتہ قبل خواتین پر تشدد کیخلاف بل کی حمایت میں ہونیوالے پریس کانفرنس میں خاتون نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے جو مجوزہ بل بھیجا تھا اسے تو سرے سے لایا ہی نہیں گیا. اور ہاں دوسرے اداروں کیلئے" ٹی او آرز" بنانے والے " ایوا الائنس " کے اپنے ٹی آو آرز کہاں ہیں-اس پر خاموشی ہے اسی کے ساتھ کیا اسمبلیوں میں بیٹھی خواتین ممبران اسمبلی کی قابلیت کیا رہ گئی ہیں اور وہ کر کیا رہی ہیں کہ اگر سب کچھ این جی اوز کی جانب سے انہیں تیار قوانین ملتے ہیں تو پھر انہیں قانون سازی کیلئے رکھا ہی کیوں گیا . لاکھوں روپے مراعات میں عوامی ٹیکس کا پیسہ کھانے والے ممبران اسمبلی کی حقیقت پھر کیا ہے.. یہ وہ سوال ہیں جو ہر کسی کے ذہن میں گھومتے ہیں.
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یو این وومن کی ٹیکنیکل اور مالی امداد سے وجود میں انے والے " "ایوا الائنس" کی بنیاد 2007 میں رکھی گئی- پہلے پہل ایوا الائنس نے مرکز کے سطح پر اپنا کام شروع کیا اور رفتہ رفتہ صوبائی اور بعد ضلعی سطح تک اس کا دائرہ کار بڑھایا گیا- 2010 میں الائنس نے خیبر پختونخواہ میں اپنے کام کا آغاز صوبائی دارالحکومت پشاور سے اپنے کام کاآغاز کیا- جہاں صوبائء اور ضلعی سطح پر خواتین پر تشدد کے خاتمے کیلئے کام کرنے والے اداروں نے شمولیت اختیار کی- الائنس کے بنیادی مقاصد میں خواتین پر تشدد کے خاتمے کیلئے کام کرنیوالے سٹیک ہولڈرز بشمول غیر سرکاری تنظیموں کے مابین کوآرڈینیشن کو بہتر بنانا ' باہمی ہم آہنگی سیبین الاقوامی' قومی اور صوبائی سطح پر صنفی برابری کے مقاصد اور وعدوں کی تکمیل اور حصول کیلئے متفقہ مقاصد کوشش کرنا' قومی سطح پر ایوا الائنس کو ترجیح دینے سمیت قومی سطح پر خواتین پر تشدد کے خاتمے کے حوالے سے کئے گئے اقدامات اور وعدوں پر نظر رکھنے سمیت قومی سطح پر خواتین پر تشدد کے خاتمے کی پالیسی اور قانون سازی کیلئے پیروی کرنا شامل ہے-

اگر بنیادی طور پر دیکھا جائے تو یو این وومن نے بین الاقوامی ایجنڈے کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ قومی اور مقامی سراکاری اور غیرسرکاری اداروں کے ذریعے تکمیل تک پہنچانے کی بھرپور کوشش کی- بادی النظر میں یو این وومن کے اہلکاروں کو بذات خود کسی قسم کی پریس کانفرنسز' مظاہروں وغیرہ کی کافی حد تک اجازت نہیں ہوتی اور نہ ترجیح دی جاتی ہے- لہذا الائنس کے زیراحتمام خواتین پرتشدد کے خاتمے کیلئے کام کرنیوالے اداروں سے یہ کام لیا گیا -اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ ابتدا میں ایوا الائنس کو رضاکارانہ طور پر چلانے کے دعوے کیئے گئے تاہم بعد ازاں پنجاب' سندھ اور خیبر پختونخواہ میں ایوا الائنس کے بینر تلے کام کرنے والے صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے اہلکاروں کو نہ صرف تحفے تحائف سے نوازا گیا بلکہ خیبرپختونخواہ اسمبلی میں قراردادوں اور بلز کو پیش کرنے کیلئے بھی مدد دی گئی-

مختصرا گذشتہ دس سالوں میں ایوا الائنس کے پلوں تلے بہت ساری امداد بہہ چکی ہے- چند مخصوص قومی اور صوبائی غیر سرکاری اداروں کو لاکھوں کروڑں کی فنڈنگ کی گئی - اس حوالے سے اگر نتائج پر نظر ڈالی جائے تو وہ " اونٹ کے منہ میں زیرہ" ثابت ہو گا- مزید برآں اس حوالے سے ایوا الائنس کو استعمال کرتے ہوئے کس نے کتنے فنڈز حاصل کئے اور کہاں کہاں کس کس طور ان فنڈز کا استعمال ہوا اس بابت کوئی خاطرخواہ آڈٹ نہیں ملتی - یہاں یہ سوال بھی کم از کم کے پی کی سطح پر بار بار سر اٹھاتا ہے -خواتین پر تشدد کے خاتمے کیلئے وجود میں آئے اس الائنس میں ایک آدھ بار کے علاوہ چیئر اور کو چیئر کذشتہ کئی سالوں سے دو تین "چہیتے" ہیں جو باری باری غیر جمہوری طریقے سے ایوا الائنس کے کو چیئر بنتے آ رہے ہیں-جس سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یو این وومن ایوا الائنس کے حوالے سے کتنی سنجیدہ ہے -

گذشتہ چند سالوں سے الائنس کا کوئی خاطر خواہ اجلاس ہی نہیں ہوا ' نہ ہی کسی کو اس الائنس کے بارے میں کوئی خاص پتہ ہے- درجنوں ممبر اداروں میں چند ایک برائے نام اس الائنس کا حصہ ہیں جبکہ باقی صرف نام کی حد تک ہی اس الائنس کا حصہ ہیں-خیبر پختونخواہ کے انتیس سے زائد اضلاع میں سینکڑوں کی تعداد میں غیر سرکاری تنظیمیں اس حوالے سے کام کررہی ہیں لیکن اس الائنس میں صرف پشاور میں ہی کام کرنے والی تنظیمیں ہی شامل ہیں .اور کم و بیش تمام شعبہ جات میں کام کررہی ہیں ضلع سوات ' چترال ' شانگلہ ' مردان ' بنوں' وزیرستان سمیت دیگر اضلاع سے تعلق رکھنے والی کوئی بھی خواتین کی تنظیمیں بمشکل ہی اس الائنس کا حصہ ہیں- جس کا ثبوت ایوا الائنس کا گروپ ہے جس میں بتایا جاتا ہے کہ اس میں بہت ساری این جی اوز شامل ہیں- تاہم ان کے اپنے وٹس گروپ میں اس وقت 33کے قریب این جی اوز کے لوگ شامل ہیں-

سب سے دلچسپ بات تو یہ ہے کہ ایک ہی ادارے سے تین سے چار افراد بھی اس الائنس کا حصہ ہیں- سوال یہ بھی بنتا ہے کہ یہ کس قسم کی الائنس جس میں پشاور سے تعلق رکھنے والے اداروں کے بیشتر اراکین شامل ہیں- کیا الائنس افراد کیلئے ہے یا اداروں کیلئے- مزید تشویش کی بات یہ ہے کہ الائنس صنفی برابری کی بات کرتا ہے تاہم ٹی او آرز کے برعکس الائنس میں مرد حضرات کی بھرمار ہے۔ میڈیا' وکلا ' تعلیمی ادارے' نیٹ ورک ' این جی اوز ' ڈونرز ' یو این سے ممبرز نہ ہونے کے برابر ہیں- اگر مذکورہ رائے کع مدنظر رکھا جائے تو ایوا الائنس کی ممبرشپ کو بیلنس کیا جا سکتا ہے- تاہم گذشتہ دس سالوں میں ابھی تک دیکھنے میں نہیں آرہا- اسی طرح مذہبی افراد کو خواتین کے حقوق اور آگاہی سمیت میڈیا کو بھی سوشل میڈیا ' ٹی وی چینل ' پریس کانفرنس ' سروے رپورٹ کے ذریعے آگاہ کیا جائیگا لیکن. یہ وہ خوبصورت نعرے او ر دعوے ہیں جو گذشتہ دس سالوں میں صرف کاغذات میں ہی نظر آرہے ہیں . میدان میں کچھ بھی نہیں ہیں.

خواتین کے حقوق کیلئے احتساب اور برابری کی بنیاد پر ریاستی اداروں کے خلاف آواز اٹھانے والے اس اس الائنس نے سال 2019-23 کیلئے جو اپنی سٹریٹجی رپورٹ بنائی ہیں ا س میں بھی اعتراف کیا ہے کہ ان میں کمیونیکیشن کی کمی سمیت اپنے آپ کو درپیش خطرات میں قبائلی اضلاع سمیت خیبر پختونخواہ کی امن و امان کی مجموعی صورتحال 'اور سوشیو کلچرل فیکٹر کو بھی شامل کیا گیا ہے لیکن انہوں نے یہ نہیں لکھا کہ امن وامان کی صورتحال تو سب کیلئے خراب ہیں ' اسی طرح جتنی احترام و عزت سے آج بھی نئے ضم ہونیوالے اضلاع میں خواتین کو دیکھا جاتا ہے اتنی تو شائد پشاور میں بھی نہیں. یقین نہیں آتا تو آپ قبائل جانیوالے کسی بھی گاڑی کو دیکھ لیں ' مرد چھتوں پر لٹکتے نظر آئیں گے لیکن کسی پرائی بہن ' بیٹی اور ماں کیلئے جگہ ضرور خالی کرینگے اور اگر کہیں کسی نے غلطی سے چھیڑنے کی کوشش کی یا بدتمیزی کی تو پھر رشتہ اورناطے کو خاطر میں لائے بغیر خاتون کی خاطر سب کی درگت بناتے ہیں. جبکہ اسی پشاور میں بی آر ٹی میں تعلیم یافتہ خواتین کھڑی نظر آتی ہیں جبکہ مرد کرسیوں پر بیٹھے سفر کرتے نظر آتے ہیں- ایسے میں صرف ضم اضلاع کو ٹارگٹ کرنے کا مقصد کیا ہے اور کس کیلئے اس کی تفصیل میں جاننے کیلئے شائد کسی چیز کی ضرورت نہیں.

ریاستی اداروں کے احتساب کے حوالے سے نعرے بلند کرنے والی این جی اوز کی اس الائنس کے اپنے احتساب کا کیا طریقہ کار ہے اس بارے میں ایوا الائنس اور اقوام متحدہ کی یو این وومن چیپٹر بھی خاموش بلکہ گونگی کیساتھ بہری بھی ہے .اس الائنس نے اپنی کامیابیوں میں بہت ساری باتیں تحریر کر رکھی ہیں لیکن اپنے چوبیس صفحات پر مشتمل سٹریٹجی پلان میں یہ بھی لکھا ہے کہ خواتین پر تشدد کے خلاف مجوزہ بل انہوں نے تجویز کیا تھا. ساتھ میں مختلف قوانین کیلئے "ٹرمز آف ریفرنس" بھی انہوں نے تجویز کئے. قریبا ایک ہفتہ قبل خواتین پر تشدد کیخلاف بل کی حمایت میں ہونیوالے پریس کانفرنس میں خاتون نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے جو مجوزہ بل بھیجا تھا اسے تو سرے سے لایا ہی نہیں گیا. اور ہاں دوسرے اداروں کیلئے" ٹی او آرز" بنانے والے " ایوا الائنس " کے اپنے ٹی آو آرز کہاں ہیں-اس پر خاموشی ہے اسی کے ساتھ کیا اسمبلیوں میں بیٹھی خواتین ممبران اسمبلی کی قابلیت کیا رہ گئی ہیں اور وہ کر کیا رہی ہیں کہ اگر سب کچھ این جی اوز کی جانب سے انہیں تیار قوانین ملتے ہیں تو پھر انہیں قانون سازی کیلئے رکھا ہی کیوں گیا . لاکھوں روپے مراعات میں عوامی ٹیکس کا پیسہ کھانے والے ممبران اسمبلی کی حقیقت پھر کیا ہے.. یہ وہ سوال ہیں جو ہر کسی کے ذہن میں گھومتے ہیں.

اقوام متحدہ کے وومن چیپٹر کے زیر انتظام کام کرنے والے ایوا الائنس نے سٹریٹجی پلان میں ترتیب دیا ہے کہ ا س حوالے سے کام بھی شروع کیا جائیگا اور باقاعدہ سٹاف تعینات کیا جائیگا جو ٹریننگ کا سلسلہ بھی جاری رکھے گا. جو کہ ایک اچھی کاوش ہے. لیکن..ایوا الائنس کے وٹس گروپ کے 33 ممبران میں سے 13 ممبران کی زوم ' ویب نار پر ہونیوالی سیشن میں یہ نہیں بتایا گیا کہ نئے ضم ہونیوالے قبائلی اضلاع میں کونسے تعلیمی ادارے ' صحافی ' این جی او یا اس کی خاتون کو اس گروپ میں انتخابات کیلئے شامل کیا گیا ہے ' کیا ممبران کی تعداد جانے بغیر انتخابات ہوسکتے ہیں ' کیا الائنس کے سابقہ مرد سربراہوں میں ہونیوالے کمیٹی اس بات کو یقینی بنا سکتی ہیں کہ خواتین برابری کی بنیاد پر کام کرسکتی ہیں. اور کیا جو لوگ اس کمیٹی میں شامل کئے گئے ہیں کیا وہ غیر جانبدار رہ سکتے ہیں. یا نہیں.حکومتی اور ریاستی اداروں پرتنقید سب سے آسان کام ہے لیکن اپنی " گوبھی کے پھول" کو " گلاب کا پھول" تو شائد کاغذوں میں آسانی سے کیا جاسکتا ہے لیکن حقیقت میں اب ایسا ممکن نہیں رہا.

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 589 Articles with 425234 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More