گورا صحافی ' کھیل اور بیلٹ
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
کیونکہ والدین تو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ سرکار کی بنی ہوئی اکیڈمی میں اپنے بچوں کی تربیت کروا رہے ہیں لیکن اس اکیڈمی کا معیار کیا ہے . اس سے بیلٹ حاصل کرنے والے بچوں کو بیلٹ کی اہمیت کا اندازہ بھی ہے یا نہیں اور کیا یہ بچے میدان میں کھیل بھی سکیں گے یا نہیں . اس کا اندازہ تو مجھے زمین پر پڑے وائٹ بیلٹ کی اس تصویر سے ہوگیا کہ جنہوں نے اگلا بیلٹ تو لے لیا لیکن پرانے بیلٹ زمین پر گرا دئیے . کیا بیلٹ کی یہی وقعت ہے.یہ وہ سوال ہے جو تائیکوانڈو سے وابستہ تمام افراد کو سوچنے کی ضرورت ہے.
|
|
|
حیات آباد سپورٹس کمپلیکس میں بیلٹ ٹیسٹ پروموشن کے بعد کھلاڑیوں کی جانب سے گرائے جانیوالے وائٹ بیلٹ.. |
|
کھیل صبر اور برداشت کے مادے کیساتھ ساتھ صحت مندانہ سرگرمیوں کی فروغ کا باعث بنتے ہیںجو کسی بھی صحت مند معاشرے کی تکمیل کیلئے لازم ہیں کیونکہ آج کا صحت مند معاشرہ مستقبل کا روشن چہرہ ہے لیکن کیا ہم نے کھیل کے میدانوں کو آباد کرنے میں سنجیدہ ہیں اور کیا ہم اپنے آنیوالے مستقبل کوچیلنجز کیلئے تیار کررہے ہیں یا پھر کھیل کے شعبے سے وابستہ افرادکھیل کو کاروبار سمجھ کر کررہے ہیں اس کا اندازہ شائد کسی کو نہیں.کیونکہ پیسے کمانے کی دوڑ اب کھیل کے میدان میں بھی شامل ہو چکی ہیں جس کی وجہ سے پیسہ کمائو اور بنائو مافیا کے مزے ہیں. پشاور کا سب سے بڑا اور پوش علاقہ حیات آباد' جہاں پر درمیانے اور سفید پوش طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کم ہی رہائش پذیر ہیں- گذشتہ دنوں حیات آباد سپورٹس کمپلیکس پشاور میں مارشل آرٹس کے ایک کھیل تائیکوانڈو کے بیلٹ پروموشن کا ٹیسٹ ہوا . اس موقع پر ہماری ہی طرح کے صحافی جن کا رنگ گورا تھا لیکن چونکہ انہیں بیلٹ کی "چھتری "میسر تھی مہمان تھے.جبکہ ہمارا رنگ گندمی اور لوکل تھے اس لئے ہم غلام ہی ٹھہرے.۔اس لئے ہمیں ان کی ویڈیوزبنانے سے منع کیا گیا اور چونکہ ہم ٹھہرے ذہنی غلام اس لئے ان کی طرف دیکھنے کی نہ تو ہماری ہمت تھی اور نہ ہی ہمارے کیمرے کی. دس منٹ بعد پھر بیلٹ کے ساتھ ملازم"بلڈی سویلین" نے دو سری مرتبہ "فرعون " کے لہجے میں کہہ دیا کہ "ویڈیو مت بنانا" . میں نے پھر بھی اسے کہہ دیا کہ بھائی ہمیں تمھاری مجبوری کا پتہ ہے.میں ویڈیو نہیں بنا رہا لیکن اس کا فرعونوں کا لہجہ برا لگا. سو جواب دیا کہ بھائی میرے " بوٹ اور بیلٹ" کیساتھ رہنے کا یہ مطلب نہیں کہ تم آسمان سے اترے ہو" بلڈی سویلین "ہو جب ایک مرتبہ کہہ دیا کہ نہیں بنا رہا تو نہیں بنا رہا . ویسے مجھے آپ نے کونسے سرخاب کے پر لگانے ہیں.بات بیلٹ سے شروع کی ہے اس لئے سو بیلٹ کی طرف آتے ہیں. مارشل آرٹ کے مختلف سٹائل میں بیلٹ کی بڑی اہمیت ہوتی ہیں اور اس میں ہر تین ماہ بعد ٹیسٹ لیکر کھلاڑیوں کو بیلٹ جاری ہوتے ہیں حیات آباد سپورٹس کمپلیکس میں جاری تائیکوانڈو کے کلاسز میں کھلاڑیوں سے زیادہ ان کے والدین دلچسپی لے رہے تھے جو خوشی سے اپنے بچوں کی مختلف تکنیک کرتے دیکھ رہے تھے-تقریبا ہر بچے نے پرفارم کیا جو ایک لحاظ سے بہتر تھا یہ الگ بات کہ پرفارمنس کے دوران بچوں کی کارکردگی یکساں نہیں تھی لیکن ٹیسٹنگ کا عمل کچھ عجیب سا رہا کیونکہ ٹیسٹ کی نگرانی کرنے والے بھی کوئی نہیں تھے نہ ہی فیڈریشن سے کوئی ان بچوں کی کارکردگی چیک کررہا تھا اور نہ ہی متعلقہ ایسوسی ایشن کے لوگ موجود تھے- جب اس حوالے سے بات ہوئی تو متعلقہ کوچ کا یہ موقف تھا کہ وہ کوچ بھی خود ہیں ' ایسوسی ایشن میں بھی ان کا عہدہ ہے اور فیڈریشن میں بھی وہ خود ہیں اس لئے ٹیسٹ وہ خود لے رہے ہیں. مارشل آرٹس کے مختلف کھیلوں کی کوریج کرتے ہوئے اتنا اندازہ تھا کہ بیلٹ پروموشن میں فائٹ کیلئے الگ نمبرات ہوتے ہیں اسی طرح بریکنگ کے اپنے نمبرات ' تکنیک اور سیلف ڈیفنس کے الگ الگ نمبرات ہوتے ہیں جسے موقع پر تین سے چار افراد جن کا تعلق متعلقہ کھیل سے ہو ' بیٹھ کر دیکھتے ہیں ' باقاعدہ مارکنگ کے بعدرزلٹ انائونس کیا جاتا ہے لیکن یہ رزلٹ بھی ایک دو روز بعد جاری ہوتا ہے.اور پھر کھلاڑیوں کو بیلٹ جاری ہوتے ہیں . لیکن حیات آباد سپورٹس کمپلیکس میں جاری ٹیسٹ پروموشن کے ان مقابلوں میں فائٹ ' اور بریکنگ تو ہوئی لیکن وہ بھی صرف چند کھلاڑیوں کی لیکن بیلٹ سب کو تبدیل کردئیے گئے ' وائٹ سے لیکر مختلف قسم کے بیلٹ بچوں کو دئیے گئے - تائیکوانڈو کی تربیت لینے والے تمام بچے خوش تھے خصوصی طور پر پانچ سال سے کم عمر کی بچیاں جن سے وائٹ بیلٹ لیکر دوسرا بیلٹ پہنا دیا گیا . بچوں کے والدین بھی خوش دکھائی دے رہے تھے کہ ان کے بچوں نے بیلٹ لے لیا- اور ہر کوئی اپنے بچے کی تصویر اور ویڈیو بنا رہا تھ کہ " بچی مے تورہ کڑے دا" لیکن کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ بھائی میرے یہ کس طرح کا ٹیسٹ ہوا ' کیا صرف بیلٹ تبدیل کرنے کا نام ہی ٹیسٹ ہے -یہ وہ سوال ہے جو ان بچوں کے والدین کو کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ وہ تو اپنے بچوں کی فیسیں جمع کرواتے ہیں لیکن عملی میدان میں یہ بچے کیسے فائٹ کرتے ہیں ' کیسی ان کی کارکردگی ہے . یہ وہ سوال ہیں جس کے بارے میں نہ صرف والدین کو بلکہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کی انتظامیہ کو بھی سوچنے بلکہ دیکھنے کی ضرورت ہے. کیونکہ والدین تو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ سرکار کی بنی ہوئی اکیڈمی میں اپنے بچوں کی تربیت کروا رہے ہیں لیکن اس اکیڈمی کا معیار کیا ہے . اس سے بیلٹ حاصل کرنے والے بچوں کو بیلٹ کی اہمیت کا اندازہ بھی ہے یا نہیں اور کیا یہ بچے میدان میں کھیل بھی سکیں گے یا نہیں . اس کا اندازہ تو مجھے زمین پر پڑے وائٹ بیلٹ کی اس تصویر سے ہوگیا کہ جنہوں نے اگلا بیلٹ تو لے لیا لیکن پرانے بیلٹ زمین پر گرا دئیے . کیا بیلٹ کی یہی وقعت ہے.یہ وہ سوال ہے جو تائیکوانڈو سے وابستہ تمام افراد کو سوچنے کی ضرورت ہے. سب سے مزے کی بات اس وقت آئی جب ایک خاتون نے انسٹرکٹر سے کہا کہ میرے بچے کا بیلٹ تو دوسرا ہے آپ نے غلط رنگ دیا جس پر انسٹرکٹر نے دوسرے کھلاڑی سے پوچھ لیا اور وہ بھی پریشان ' او ر آخر کار خاتون کے غصہ کرنے پر انسٹرکٹر نے یہ کہہ کر جان چھڑا دی کہ بیلٹ مل جائیگا. بیلٹ تو شائد مل بھی گیا ہوگا کیونکہ اس کیلئے رقم بھی والدین ہی جمع کراتے ہیں . لیکن کیا یہی معیار ہے بیلٹ کی ٹیسٹنگ کا ' یا سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے زیر انتظام اکیڈمی کا حال ..تو پھر ..کس طرح کے مارشل آرٹ کے ماہر پیدا ہونگے. یہ اللہ ہی جانے .
|