فروری کا لفظ زبان پر آتے ہی دھیان خود بخودویلنٹائن ڈے
کی طرف چلا جاتا ہے حالانکہ پانچ فروری کو ہم یوم یکجہتی کشمیر کی رسم بھی
نبھاتے ہیں۔رسم اس لیے کہہ رہا ہوں کہ ہم صرف خالی نعرے بازی کرتے ہیں
یازبانی جمع خرچ،عملاً کچھ نہیں کرتے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ سب کی نظریں
ویلنٹائن ڈے پر لگی ہوتی ہیں۔ ایک طبقہ منانے کے لیے بے تاب دکھائی دیتا ہے
تو دوسرا طبقہ اس کے نقصانات سے آگاہ کرتے ہوئے اسے روکنے کی مہم چلانا
اپنا اصلاحی اور اخلاقی فرض سمجھتا ہے اور یوں ان دونوں طبقوں میں سرد جنگ
دو ہفتے جاری رہتی ہے۔قلمکار اور مذہبی راہنماء بھی اس پر اپنے خیالات کا
اظہار کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔راقم الحروف بھی کافی دنوں سے روزانہ اپنے
قلمکار بھائیوں کے مفید،معلوماتی اور اصلاحی کالمز کا مطالعہ کر رہا تھا۔جب
بھی لکھنے کو دل چاہایہ سوچ کر رک گیا کہ سبھی دوست مجھ سے بہت اچھا لکھ
رہے ہیں جو نسل نو کے لیے انتہائی سود مند ہے۔اس لیے لکھنے سے مکمل دور رہا
مگر آج ایک ایسا مراسلہ موصول ہوا کہ قارئین کی خدمت میں حاضر ہونا
پڑا۔محترم مظفر حسین بابر صاحب نے اپنے مراسلے میں ایک سبق آموز کہانی لکھی
ہے۔ محترم مظفر حسین بابر صاحب لکھتے ہیں ’’مکرمی و محترمی جناب رشید احمد
نعیم صاحب! میں اکثر آپ کے کالمز پڑھتا ہوں۔آپ معاشرتی مسائل پر سیر حاصل
بحث کرتے ہیں۔کافی دیر پہلے ایک کہانی پڑھی تھی جو آپ کی خدمت میں ارسال کر
رہا ہوں۔ امید ہے کہ آپ اسے اپنے کالم کی زینت ضرور بنائیں گے۔ بے شک یہ
میری اپنی تخلیق نہیں ہے مگر ایک اثر انگیز کہانی ہے۔ ہو سکتا ہے یہ بات
کسی کے دل میں اتر جائے اور وہ ویلنٹائن ڈے ضرور منائے مگر اس انداز
میں۔مجھے اس کا ’’مجرا‘‘دیکھتے ہوئے مسلسل دسواں دن تھا۔ کیا غضب کی نئی
چیز ہیرا منڈی میں آئی تھی۔ اس کا نام بلبل تھا۔ جب وہ ناچتی اور تھرکتی
تھی تو جیسے سب تماش بین محو ہو جاتے۔ روزانہ اس کو ناچتا دیکھ کے میری
شیطانی ہوس مزید پیاسی ہوتی جاتی تھی بلکہ میں اندر ہی اندر اپنا دل ہار
چکا تھا۔مجھے نہیں معلوم کہ یہ محبت تھی یا شیطانی جذبات کی شدت مگر میں اس
کی زلفوں کا اسیر ہوا جا رہا تھا۔اس کا حُسین چہرہ ہر وقت میری آنکھوں کے
سامنے رہتا۔ میں کسی مناسب موقع کی تلاش میں تھا کہ میں یہ سب کچھ اس سے
کہہ پاؤں۔آج ویلنٹائن ڈے تھا۔محبت کے اظہار کا دن، محبوب کو پانے کا دن،
اور میں نے فیصلہ کر لیا کہ آج اس سے ضرور ملوں گا۔ میں ہر قیمت پر اسے
حاصل کرنا چاہتا تھا۔اس دن’’مجرا‘‘کے دوران وہ بجھی بجھی سی دکھائی دے رہی
تھی۔ اس کے ناچ میں وہ روانی بھی نہیں تھی لیکن مجھے اس سے ملنا تھا، بات
کرنی تھی اور معاملات طے کرنے تھے۔ مجرے کے اختتام پہ جب سب تماش بین چلے
گئے تو میں بھی اٹھا۔ وہ کوٹھے کی بالکنی میں اپنی نائیکہ کے ساتھ کسی بات
پر الجھ رہی تھی۔ دروازے کے تھوڑا سا قریب ہوا تو میں نے سنا کہ وہ اس سے
رو رو کر کچھ مزید رقم کا مطالبہ کر رہی تھی۔ مگر نائیکہ اسکو دھتکار رہی
تھی اور آخر میں غصے میں وہ بلبل کو اگلے دن وقت پہ آنے کا کہہ کر وہاں سے
بڑبڑاتی ہوئی نکل گئی۔بلبل کو پیسوں کی اشد ضرورت ہے، یہ جان کے میرے اندر
خوشی کی اک لہر دوڑ گئی۔ چہرے پر شیطانی مسکراہٹ پھیل گئی کہ اس کی ضرورت
پوری کر کے میں اس کے ساتھ جو چاہے کر سکتا ہوں۔ میں اس کی جانب بڑھا، اس
کا چہرہ دوسری طرف تھا اور وہ برقعہ پہن رہی تھی۔ پاس جا کر جب میں نے اسے
پکارا تو وہ میری طرف مڑی۔ اسکا چہرہ آنسووں سے تر اور برف کی مانند ایسے
سفید تھا جیسے کسی نے اس کا سارا خون نکال لیا ہو۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر
میں چکرا سا گیا اور اس سے پوچھا کہ کیا ہوا ہے؟ وہ ایسے کیوں رو رہی ہے؟
میری طرف دیکھتے ہوئے وہ چند لمحے خاموش رہی اور میرے دوبارہ پوچھنے پر
گھٹی گھٹی آواز میں بولی’’ماں مر گئی ‘‘ ’’کیا؟‘‘ جب مجھے اسکی سمجھ نہیں
آئی تو وہ بے اختیار روتے ہوئے دوبارہ بولی کہ‘‘آج میری ماں مر گئی ہے۔’’اس
جواب سے جیسے میرے منہ کو تالا لگ گیا۔ میری شیطانی ہوس، جس کو پورا کرنے
کے لیے میں اس کی جانب آیا تھا، مجھ سے میلوں دور بھاگ گئی۔‘‘تو تم یہاں
کیا کر رہی ہو؟’’میں نے غصے اور حیرت سے اس سے پوچھا۔ ’’کفن دفن کے پیسے
نہیں ہیں میرے پاس۔ اس لئے میں’’مجرا‘‘ کرنے آئی تھی۔ مگر نائیکہ آج پیسے
ہی نہیں دے رہی۔ کہتی ہے بہت’’مندا‘‘ ہے۔ تماش بین کوٹھے پر نہیں آتے۔ جو
آتے ہیں وہ پہلے کی طرح کچھ لٹاتے نہیں۔ وہ کہہ رہی ہے کہ ’’ایدھی والوں سے
اپنی ماں کے کفن دفن کا انتظام کروا لو‘‘۔اتنا کہہ کے وہ برقعہ پہن کر
کوٹھے سے باہر نکل آئی۔ میں بھی اسکے پیچھے چل پڑا،میں تمھاری ماں کے کفن و
دفن کا بندوبست کرتا ہوں۔وہ چند لمحے مجھے مشکوک نظروں سے دیکھتی رہی اور
پھر خاموشی سے میرے ساتھ بیٹھ گئی۔ گاڑی ٹیکسالی سے باہر نکالتے ہوئے میں
نے بلبل سے اس کے گھر کا پتہ پوچھا۔ وہ علاقہ میرے لیے نیا نہیں تھا۔کئی
بار میں وہاں سے گزرا ہوا تھا۔ میں نے گاڑی اس طرف موڑ دی۔ سارا راستہ وہ
خاموشی سے روتی رہی۔ میرے پاس اسکو تسلی دینے کے لیے الفاظ بھی نہیں
تھے۔کچھ دیر میں ہم بلبل کے گھر پہنچ گئے۔ یہ چھوٹا سا ایک کمرے کا گھر تھا۔
صحن کے بیچ میں چارپائی پر اسکی ماں کی لاش ایک گدلے کمبل میں لپٹی پڑی تھی۔
صحن میں بلب کی پیلی روشنی وہاں بسنے والوں اور گھر کی حالت چیخ چیخ کر
عیاں کر رہی تھی۔ چارپائی کے پاس دو بوڑھی عورتیں بیٹھی تھیں۔ ایک کی گود
میں سات آٹھ ماہ کا بڑا گول مٹول اور پیارا سا بچہ کھیل رہا تھا۔ آدھی رات
ہونے کو آئی تھی۔ جیسے ہی بلبل گھر میں داخل ہوئی، وہ بوڑھی عورتیں بچہ اسے
سونپتے اور دیر سے آنے کی وجہ سے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے وہاں سے رخصت
ہو گئیں۔ بلبل بچے کو لے کر کمرے کی طرف گئی۔ بچہ بہت بے قرار تھا اور پھر
وہ اسکی چھاتی سے لپٹ گیا جیسے صبح سے بھوکا ہو۔ کیا یہ بلبل کا بچہ ہے۔یہ
ایک نیا انکشاف تھا کہ بلبل شادی شدہ بھی ہے۔چند لمحوں بعد وہ کمرے سے باہر
آئی مجھے یونہی کھڑا دیکھ کر پھر کمرے میں گئی اور ایک پرانی کرسی اٹھا
لائی۔‘‘سیٹھ جی! معذرت۔ میرے گھر میں آپ کو بیٹھانے کے لیے کوئی چیز نہیں
ہے۔وہ کرسی رکھتے ہوئے شرمندگی سے بولی۔میں سر ہلاتے ہوئے اس کرسی پر بیٹھ
گیا۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہاں
سے شروع کروں۔ تمھارا اصل نام کیا ہے بلبل؟آخر میں نے اس سے پوچھ ہی لیا۔وہ
چپ رہی شاید بتانا نہیں چاہ رہی تھی ’’افشاں‘‘۔ میرے دوبارہ پوچھنے پر اس
نے آہستہ سے کہا۔ ’’بہت افسوس ہوا تمھاری ماں کی وفات کا۔وہ خاموش رہی۔
تمھارا باپ، بھائی کوئی ہے؟’’اس نے خاموشی سے‘‘نہیں’’میں سر ہلایا۔‘‘یہ بچہ
تمھارا ہے؟’’اس نے پھر خاموشی سے‘‘ہاں‘‘میں سر ہلایا۔‘‘تمھارا شوہر کہاں
ہے؟’’چند لمحوں بعد وہ بولی‘‘چھوڑ گیا۔’’‘‘تم ہیرا منڈی کیسے گئی تم مجھے
ناچنے گانے والی تو نہیں لگتی؟’’اب وہ نظریں اٹھا کر مجھے دیکھتی ہوئی
بولی،‘‘سیٹھ جی قسمت وہاں لے گئی۔ گھر میں کوئی مرد نہیں تھا۔ ایک بیمار
ماں اور بچے کی ذمہ داری تھی۔ کہیں اور کام نہیں ملا تو نہ چاہتے ہوئے بھی
مجبوراًیہ راستہ اختیار کرنا پڑا۔ کچھ عرصے تک نائیکہ نے ناچ گانا سکھایا
اور پھر دھندے پر بیٹھا دیا۔۔ وہ مجھے’’مجرا‘‘کرنے کے روزانہ دو سو روپے
دیتی ہے اور ساتھ میں تماش بینوں کا بچا کھچا کھانا، جو میں گھر لا کے اپنی
ماں کو کھلاتی ہوں اور خود بھی کھاتی ہوں۔ برقعے میں آتی جاتی ہوں۔ جس سے
محلے میں کسی کو پتہ نہیں چلتا اور اک بھرم قائم ہے۔ سیٹھ جی! ایسی کتنی ہی
بے سہارا گمنام لڑکیاں معاشی حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر ان کوٹھوں پر
ناچنے پر مجبور ہیں۔ آپ لوگوں کو کیا پتہ وہ کتنی مجبور ہو کر یہ قدم
اٹھاتی ہیں۔ کوئی لڑکی اپنی خوشی سے یوں سب کے سامنے اپنا جسم، اپنی عزت
نیلام نہیں کرتی۔ جو لڑکیاں ایک بار اس دلدل میں گر پڑتی ہیں پھر وہ دھنستی
ہی چلی جاتی ہیں۔ اور پھر اس میں ہمیشہ کے لیے ڈوب جاتی ہیں۔یہ سب کچھ
بتاتے ہوئے افشاں کے لہجے میں بے بسی اور بے چارگی تھی۔ جیسے وہ کسی ناکردہ
گناہوں کی سزا کاٹ رہی ہو۔میں کچھ دیر اس کے چہرے کو دیکھتا رہا۔ پھر پرس
سے چند نوٹ نکالے اور اسکے ہاتھ میں تھماتے ہوئے بولا ’’کل اپنی ماں کی
تدفین کروا لینا اور بچے کے لیے کچھ خوارک اور گھر کے لیے راشن پانی لے
لینا‘‘۔وہ اتنے سارے نوٹ ایک ساتھ دیکھ کر حیران ہو گئی۔’’کیا ہوا؟‘‘میں نے
اس کو یوں چپ دیکھتے ہوئے پوچھا۔سیٹھ جی! مجھے ان روپوں کے بدلے کیا کرنا
ہو گا؟وہ ڈرتےڈرتے پوچھ رہی تھی۔ شاید یہ سوچ رہی تھی کہ ان نوٹوں کے بدلے
سیٹھ پتہ نہیں کب تک اس کا جسم نوچے گا؟ کب تک اس کو سیٹھ کی رکھیل بن کر
رہنا پڑے گا؟ اس کی بات سن کر مجھے اپنے آپ سے اتنی نفرت ہوئی کہ میں خواہش
کرنے لگا کہ زمین پھٹ جائے اور میں اس میں سما جاؤں۔ مجھے احساس ہوا کہ میں
ذلت اور اپنے کردار کی پستی کی آخری حد کو چھو رہا تھا۔ میں اس بے حس
معاشرہ میں ایک تنہا اور بے سہارا لڑکی کی مدد کر رہا تھا مگر وہ اس کو بھی
ایک ڈیل کے طور پر سمجھ رہی تھی۔ شاید جہاں سے میں اٹھ کر آیا تھا وہاں پر
جانے والے لوگوں سے بغیر کسی وجہ کے مدد کی توقع نہیں کی جاتی۔ میں نے
لرزتی آواز میں جواب دیا،‘‘تمھیں کچھ نہیں کرنا پڑے گا۔ اور تم اب کوٹھے پر
مجرا کرنے نہیں جاؤگی۔ اپنے گھر میں رہو گی۔ ہر مہینے تمھیں منی آرڈر مل
جایا کرے گا۔ تم نے کرنا بس یہ ہے کہ یہ جو بچہ تمھاری گود میں ہے اس کی
تربیت ایسے کرو کہ یہ اک دن بڑا ہو کر تمھارا سہارا بن سکے۔ یہ جو رقم میں
بجھواؤں گا یہ تم پر قرض ہے اور جب تمھارا بیٹا جوان ہو جائے گا، ایک قابل
انسان بن جائے گا تو تم مجھے واپس کر دینا۔افشاں حیران پریشان کھڑی مجھے
دیکھ رہی تھی۔ اس انسان کو جس کے سامنے ابھی وہ ناچ کر آئی تھی۔ وہ اس سے
ایسی باتیں کر رہا تھا۔ پھر وہ بے اختیار رو پڑی۔ مجھ سے وہاں رکا نہیں گیا۔
میں نے افشاں کے گھر کا پتہ لیا اور اس کو اپنا کیا وعدہ یاد دلا کر وہاں
سے رخصت ہو گیا۔ سارے راستے میں یہی سوچتا رہا۔ مجھے تم سے کچھ نہیں چاہے۔
مجھے تم سے کچھ نہیں چاہئے افشاں۔جو تم نے مجھے دیا ہے میں اس کا احسان
ساری عمر نہیں اتار پاؤں گا۔ تم نے مجھ میں دفن اس انسانیت کو جگا دیا جو
میں دولت اور شیطانی ہوس کے نیچے دبا کر مار چکا تھا۔ تم نے مجھے پھر سے
انسان بنایا ہے افشاں۔اس واقعے کے بعد میں ان تمام برے کاموں سے توبہ کر کے
اس کی بارگاہ میں گناہوں کا بوجھ لیے حاضر ہوا۔ ہر روز اس کے سامنے اپنے
گناہوں کا اعتراف کرتا، اس سے معافی کی درخواست کرتا۔میں باقاعدگی سے ہر
ماہ‘‘افشاں’’کو منی آڈر بجھواتا رہا۔ کئی دفعہ دل کیا میں اس مسیحا کو مل
کر آؤں جس کی وجہ سے مجھے ان تمام گناہوں اور بدکاریوں سے نجات ملی۔ مگر ہر
دفعہ اک شرمندگی آڑے آتی رہی کہ کبھی میں اپنی شیطانی ہوس کے لیے اس کا
پیاسا تھا۔ اور پھر وقت گزرتا چلا گیا دن مہینوں میں بدلنے لگے اور مہینے
سالوں میں تبدیل ہوتے گئے۔ مگر میں افشاں کو بھولا نہیں تھا۔ وہ بھی میری
طرح بوڑھی ہو گئی ہو گی۔ اور اس کا بیٹا بھی جوان ہو گیا ہو گا۔ پتہ نہیں
کسی قابل بنا ہو گا۔ اپنی ماں کا سہارا بنا ہو گا کہ نہیں؟میرے بچے جوان ہو
گئے تھے۔ زندگی اتار چڑھاؤکے ساتھ مسلسل چل رہی تھی۔ ایک شام چھٹی کے دن جب
میں اپنے گھر میں موجود تھا تو ملازم نے آکر مجھے بتایا کہ ایک عورت اور
اسکے ساتھ ایک جوان لڑکا آپ سے ملنے آئے ہیں۔ کون ہیں؟معلوم نہیں صاحب!
پہلی بار ان کو دیکھا ہے۔’’ملازم نے مودبانہ لہجے میں جواب دیا۔‘‘اچھا
انہیں ڈرائینگ روم میں بٹھاؤمیں آرہا ہوں۔کون ہو سکتا ہے یہی سوچتے ہوئے
میں ڈرائینگ روم کی طرف بڑھا۔ ایک عورت پرنور چہرہ کے ساتھ سفید بڑی چادر
میں خود کو چھپائے ہوئے ہاتھ میں ایک پرانی سی ڈائری لیے کھڑی تھی۔ اور اس
کے ساتھ اچھے کپڑوں میں ملبوس ایک بڑا ہینڈسم نوجوان کھڑا تھا۔ اس لڑکے کو
میں جانتا تھا وہ ہمارے علاقے کا نیا ڈی ایس پی احمد تھا۔‘‘سلام سیٹھ جی
میں افشاں ہوں اور یہ میرا بیٹا احمد۔’’جونہی اس نے افشاں کا نام لیا میرے
ذہن میں اسکا ماضی کا چہرہ گھوم گیا۔ اور پھر مجھے پہچاننے میں دیر نہیں
لگی کہ وہ افشاں تھی۔ آپ مجھے پہچان گئے ناں؟میں نے سر ہلاتے ہوئے ’’ہاں‘‘میں
جواب دیا اور ان کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔افشاں پھر اپنے بیٹے سے مخاطب ہو
کر بولی۔ احمد بیٹا!یہی ہیں میرے مسیحا،جن کی بدولت تمھاری ماں گندگی کی
دلدل میں گرتے گرتے نکلی اور یہی ہیں جو تمھاری پڑھائی کا، تمھیں یہاں اس
مقام تک لانے کا ذریعہ ہیں۔میں انکو جانتا ہوں امی جان ان کا شمار علاقے کے
معزز ترین افراد میں ہوتا ہے۔ مگر میں یہ نہیں جانتا تھا کہ مجھے اس مقام
پر لانے میں انکا کردار سب سے اہم ہے۔سیٹھ صاحب! جس طرح آپ ہم بے سہارا اور
بے کس لوگوں کی زندگی میں مسیحا بن کر آئے۔ اس کا احسان ہم کبھی نہیں
بھولیں گے۔احمد بڑی مشکور نظروں سے دیکھتا ہوا بڑی عاجزی سے بول رہا تھا۔
ایسے کہہ کر آپ لوگ مجھے شرمندہ مت کریں۔میں نے افشاں کی طرف دیکھتے ہوئے
کہا۔ آج اسکو پکارتے ہوئے بے اختیار میرے منہ سے افشاں بہن نکل گیا۔ میں
خود حیران تھا مگر یہ سچ تھا۔افشاں صوفے سے اٹھی اور آگے بڑھ کر پرانی سی
ڈائری مجھے تھماتے ہوئے کہنے لگی، سیٹھ جی!اس میں وہ تمام حساب درج ہے۔
میری ماں کی تدفین سے لے کر آپ کے آخری منی آڈر تک۔ میں نے ایک ایک پائی کا
حساب رکھا۔ آپ کے دیے پیسوں کا امانت کے طور پر استعمال کیا۔ اپنے بیٹے کو
ایک قابل انسان بنایا۔ آپ نے مجھے بائیس سال پہلے کہا تھا کہ یہ قرض ہے اور
یہ تب واپس کرنا جب تمھارا بیٹا ایک قابل انسان بن جائے۔کچھ لمحے خاموش
رہنے کے بعد افشاں پھر سے بولی،‘‘سیٹھ جی! آج وہ وقت آگیا ہے۔ میں آپ کے
احسانوں کا بوجھ تو میں نہیں اتار سکتی مگر جو پیسے آپ نے مجھے دئیے تھے
میرا بیٹا وہ ضرور اتارے گااور آپ سے درخواست ہے آپ انکار مت کریں۔میں
افشاں کو بڑی تحسین نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ آخر اس نے وہ کر ہی دکھایا۔
یقیناً قول و قرار کو نبھانا، وعدہ پر قائم رہنا اک اچھے کردار کے حامل
انسان کی بڑی نشانی ہے۔ یہ سب سن کر میرے دل میں اسکی عزت اور احترام اور
بڑھ گیا۔ میں نے تم کو بہن کہا ہے افشاں بہن اور میں کیسے تم سے یہ پیسے
واپس لے سکتا ہوں۔ مجھے یوں شرمندہ مت کرو۔میرے رکے رکے الفاظ میں پیسے نہ
لینے کی معذرت چھپی تھی۔ مگر وہ بضد تھی۔ مجھے اس کے سامنے ہار ماننا پڑی
اور وہ تمام پیسے جو میں اسکو منی آرڈر کی صورت میں بھیجتا تھا اس کو واپس
لینے کی حامی بھرنی پڑی۔ پھر وہ دونوں مجھے اپنے نئے گھر کا پتہ دے کر اور
آنے کی تاکید کر کے وہاں سے چلے گئے۔ ارم میں نے تمہیں کسی سے ملوانا ہے
میرے ساتھ چلو گی۔؟ ’’شام کو میں نے اپنی بیگم سے کہا۔ کیوں نہیں چلوں گی۔
مگر کون ہے؟ اور کس سلسلے میں ملنا ہے؟بیگم نے سوالوں کی بوچھاڑ کر دی۔ میں
نے روبی بیٹی کے لیے ایک لڑکا پسند کیا ہے۔ تم مل لو اگر تم کو پسند آجائے
تو پھر اس کے بعد روبی سے بات کر لینا۔میں نے مختصر لفظوں میں اسے وجہ
بتائی۔ اگلے دن میں اور میری بیگم ارم ناز افشاں کے گھر میں تھے۔ ارم کو
بھی احمد بہت پسند آیا۔ ہم نے پھر افشاں سے احمد اور روبی کے رشتے کی بات
کی۔ افشاں کو بھلا اس پہ کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ وہ پھولے سے نہیں سما رہی
تھی۔ اور یوں میری بیٹی کا رشتہ افشاں کے بیٹے احمد سے طے ہو
گیا۔’’ویلنٹائن ڈے‘‘ سے قائم ہونے والاوہ تعلق جو اک طوائف اور تماش بین
جیسے گندے رشتے سے شروع ہوا تھا اس کا اختتام ایک نہایت مہذب رشتے کی شکل
میں ہوا۔یہ سچ ہے کہ ہر انسان کو قدرت سدھرنے کا موقعہ ضرور دیتی ہے۔ کبھی
گندگی کے ڈھیر سے اس کو ایسا سبق سیکھا دیتی ہے، کبھی دو بھٹکے لوگوں ملا
کر سیدھے راہ پر لے آتی ہے اور انسان ساری زندگی اسی کے مطابق گزارنے کو
فخر محسوس کرتا ہے۔ کبھی وہ طوائف اور میں تماش بین تھا۔ مگر آج وہ میری
منہ بولی بہن اور اس کا بیٹا میری بیٹی کا شوہر ہے۔ اور مجھے ان دونوں
رشتوں پر فخر ہے
|