اشرف المخلوقات ہونے کے سبب انسان کو اﷲ تعالی کی
طرف سے ایک دوسرے سے بولنے اور مخاطب ہونے کا تحفہ بھی دیا گیا ہے جب کہ
باقی مخلوقات کو اس نعمت سے جزوی طور محروم رکھا گیا ہے. اس تحفے کی بدولت
انسان ایک دوسرے سے اپنے خیالات, خواہشات, کیفیات, احساسات اور ضروریات
بیان کرسکتا ہے. وقت کے ساتھ ساتھ علاقائی اور جغرافیائی لحاظ سے زبانیں
بھی ارتقائی عمل سے گزرتی ہیں. وقت کی اس شکست و ریخت کے نتیجے میں مختلف
نئی زبانیں ظہور پذیر ہوتی ہیں جبکہ کئی زبانیں قصہ پارینہ بن جاتی ہیں.
مادری زبان وہ ہوتی ہے جو کسی بھی شخص کو ورثے میں ملتی ہے یعنی بچے کی
پیدائش کے بعد جس زبان سے اسے گھر میں پہلی بار شناسائی ملتی ہے وہ اس کی
مادری زبان کہلاتی ہے بچے کی پہلی پرورش گاہ ماں کی گود ہوتی ہے اس لیے اس
کا پہلا رابطہ بھی ماں کی زبان سے ہوتا ہے. ساتھ ہی معاشرے میں روابط کا
وسیلہ بھی یہی زبان بنتا ہے. یہی رابطے بعد میں قومی اور عالمی سطح پر اس
کی شناخت بن جاتے ہیں اور معاشرے سے اس کی جڑیں مضبوط کرنے کا سبب بھی.
احساس کمتری میں مبتلا بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنی زبان کو کم تر جان
کر اسے بولتے ہوئے شرم محسوس کرتے ہیں. مگر دراصل وہ اپنی مادری زبان سے
کنی کترا کر شرمندہ نہیں ہوتے بلکہ معاشرہ ایسے افراد کی وجہ سے شرمندگی
محسوس کرتا ہے.اور ایسے لوگ معاشرے میں دوسرے شہری کی حیثیت رکھتے ہیں.
مادری زبان کو اولین حیثیت دینے والا اپنا آپ منوا سکتا ہے ورنہ اپنی زبان
کو پست سمجھنے والا خود بھی معاشرے میں اپنا مقام اور اپنی پہچان کھو
بیٹھتا ہے. علامہ اقبال کا ایک مشہور شعر ہے.
مِلّت کے ساتھ رابط اُستوار رکھ
پیوستہ رہ شجَر سے، امیدِ بہار رکھ!
یہ شعر ایک جانب کسی بھی فرد کی اپنے دھرتی ماں سے محبت کی تشریح کرتا ہے
تو وہیں دوسری جانب اس کی اپنی جنم دینے والی ماں سے محبت اور اس کی زبان
کا بھی حوالہ پیش کرتا ہے. جب ہم محفل میں کسی سے پہلی بار ملتے ہیں تو
بیرون ملک ہمارے ملک کا حوالہ ہماری پہچان بنتا ہے مگر اپنے ملک کے کسی
گوشے میں ہمارا صوبہ اور ہمارا گاؤں ہماری پہچان ہوتا ہے اور نام کے بعد
دوسرا تعارف علاقے اور مادری زبان کی بابت ہوتا ہے یہ بات بھی مسلمہ حقیقت
ہے کہ ایک دوسرے سے اپنایت کا تعلق بھی اسی حوالے سے ملتا ہے. جسے کچھ لوگ
عصبیت کا نام دیتے ہیں. مگر یہ عصبیت نہیں اپنی زبان اور اپنی مٹی سے محبت
ہوتی ہے. شجر سے پیوستہ رہنے کی سب سے اولین شرط ہی اپنی زبان کی اہمیت کا
احساس ہونا اور اپنی زمین کی محبت سے سرشار ہونا ہے.
چین کے بانی اور صدر ماؤزے تنگ کا اپنے وطن اور اپنی زبان کی بابت محبت کا
یہ عالم تھا کہ انگلش پر مکمل عبور رکھنے کے باوجود بھی وہ انٹر نیشنل فورم
پر چینی زبان میں بات چیت کو ترجیح دیتا تھا. اس سلسلے میں ان کا کہنا تھا
کہ ''میں دنیا کو بتانا چاہتا ہوں چین گونگا نہیں‘ اس کی ایک زبان ہے اور
اگر دنیا ہمارے قریب آنا چاہتی ہے, یا ہمیں سمجھنا چاہتی ہے تو اسے ہماری
زبان سمجھنا اور جاننا ہوگی‘‘۔
ایک طرف یہ عظیم لیڈر اور دوسری جانب ہمارے ملک کے عام لوگوں کا معیار
زندگی. اول تو ہم ملکی سطح پر انگلش کو ہی اپنی قومی اور علاقائی زبانوں پر
فوقیت دیتے ہیں. اور ہمارے نزدیک عظیم لیڈر وہ ہوتا ہے جو انگریزی میں بات
چیت کرسکتا ہے. اس لحاظ سے دیکھیں تو نہ صرف ہمارے لیڈر بلکہ ہماری پوری کی
پوری عوام ملک گیر سطح پر گونگی ہے. کیونکہ یہاں علاقائی اور ملکی سطح پر
اپنی مادری زبان میں بات کرنا اور عالمی سطح پر اپنی قومی زبان میں بات
کرنا کسی توہین سے کم تصور نہیں کیا جاتا.
مادری زبان کی اہمیت اور ضرورت کو اجاگر رکھنے کے لیے نومبر 1999ء میں
یونیسکو کی جنرل کانفرنس میں انسانی ثقافتی ورثے کے تحفظ کے سلسلے میں کی
گئی ایک کانفرنس میں ہر سال 21 فروری کو مادری زبانوں کا عالمی دن منانے کا
اعلان کیا گیا تھا۔ تاکہ مختلف ثقافتوں اور ورثوں کے ساتھ ساتھ مختلف
زبانوں کو بھی زبوں حالی سے بچایا جا سکے.اس فیصلے کے بعد 21 فروری 2000ء
سے ہر سال مادری زبانوں کا عالمی دن منایا جانے لگا تاکہ مادری زبان کی
اہمیت اور اس سے وابستہ ثقافتی و تہذیبی پہلوؤں کو عالمگیر سطح پر روشناس
کرایا جا سکے.
دنیا کے مختلف علاقوں میں تقریباً سات ہزار کے قریب زبانیں بولی اور سمجھی
جاتی ہیں. سرفہرست زبانیں مینڈارن چینی، ہسپانوی، انگریزی، ہندی, فارسی اور
عربی ہیں. ہندی اور اردو کو ایک زبان تصور کیا جائے تو یہ تیسری بڑی عالمی
زبان ہوگی. مگر الگ سے ہندی زبان دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے. دنیا بھر کی
زبانوں کو جغرافیائی اعتبار سے تقریباً دس گروہوں میں تقسیم کیا گیا ہے.
آبادی کے لحاظ سے دنیا میں سے سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان مینڈرین ہے.
جو (The Sino - Tibetan Family) فیملی سے تعلق رکھتی ہے۔ اسے بولنے والوں
میں چین, تبت اور برما کے علاقے کے لوگ شامل ہیں. اس زبان کے بولنے والے
افراد ایک اندازے مطابق ایک ارب سے اوپر ہیں۔ دوسرے نمبر پر ہسپانوی زبان
ہے جو تقریباً 400 ملین لوگوں کی ماردری زبان ہے اسپین کے علاوہ یہ کیوبا,
میکسیکو اور ارجینٹائن سمیت 23 مزید ممالک میں سرکاری زبان کا درجہ رکھتی
ہے. اور تیسرا نمبر انگریزی کا ہے یہ تقریباً بتیس کروڑ سے زیادہ افراد کی
مادری زبان ہے. جن کی اکثریت امریکہ، کینیڈا، برطانیہ، آسٹریلیا اور نیوزی
لینڈ میں آباد ہے، لیکن دنیا بھر کے ملکوں میں مزید 35 کروڑ افراد ایسے ہیں
جو انگریزی کو ایک ثانوی زبان کے طور پر استعمال کرتے ہیں. زبانوں کی حدود
بندی کے حساب سے یہ دونوں ہند و یورپی گروہ (Indo - European Family) سے
تعلق رکھتے ہیں. یہ زبانوں کا سب سے بڑا گروہ ہے اس گروہ میں انگریزی اور
ہسپانوی کے علاوہ اردو, سنسکرت, لاطینی, ہندی، بنگالی،پنجابی فارسی اور
بلوچی زبانیں آتی ہیں۔ زبانوں کا تیسرا بڑا خاندان The Afro - Asiatic)
Family) یا Hamito-Semitic ہے جسے سامی گروہ بھی کہا جاتا ہے اس میں قدیم
زبانیں شامل ہیں. عربی,آرامی، اسیری، سمیری، اکادی اور کنعانی اس فیملی میں
شامل ہیں. سامی گروہ میں عربی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے جو
عبرانی اور آرامی زبان سے مشابہت رکھتی ہے. سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات
سمیت 25 ممالک میں سرکاری حیثیت کی حامل ہے. چوتھے نمبر پر دراوڑی گروہ
(The Dravidian Family) ہے. یہ ہندوستان کے جنوبی علاقوں میں بولی جانے
والی زبانوں کا گروہ ہے. جو ہندوستان کے شمالی علاقوں میں بولی جانے والی
زبانوں سے بالکل مختلف ہیں. جنوبی بھارت اور سری لنکا میں اس گروہ کی 26
زبانیں بولی جاتی ہیں لیکن ان میں زیادہ معروف تامل، تلیگو، ملیالم اور کنڑ
ہیں۔ اس کے علاوہ افغانستان میں بولی جانے والی فارسی اور بلوچستان میں
بولی جانے والی براہوی بھی دراوڑی خاندان کا ہی حصہ تصور کیے جاتے ہیں.
پاکستان میں تقریباً 74 زبانیں بولی جاتی ہیں۔ سب سے زیادہ بولی جانے والی
زبان پنجابی ہے جو اڑتالیس فیصد افراد کی مادری زبان کی حیثیت رکھتی ہے. اس
کے علاوہ دیگر اہم زبانوں میں سندھی، سرائیکی، انگریزی، اردو، پشتو,بلوچی،
ہندکو اور براہوی شامل ہیں.ہر ایک کے لیے اس کی مادری زبان ہی اس کی پہلی
محبت ہے اور دنیا کی سب سے شیرین زبان ہے. آج کے دن کے حوالے سے میں بات
کرنا چاہوں گی اپنی مادری زبان کی جو میری اصل پہچان اور ماں کی نسبت میرے
پہلے پیار کا اظہار بھی ہے. اور وہ ہے ''بلوچی'' زبان یہ ہند یورپی گروہ کی
ایرانی شاخ کا حصہ ہے۔ یہ زبان عالمی سطح پر ساٹھ بڑی بولی جانے والی
زبانوں میں شمار کیا جاتا ہے. دنیا میں بلوچی بولنے والے بیس ملین کے قریب
ہیں اور پاکستان میں تقریباً تین فیصد افراد کی مادری زبان کا درجہ رکھتی
ہے. بلوچی زبان بلوچ قوم کی پہچان ہے. یہ سننے میں ایران میں بولی جانے
والی زبان فارسی سے بہت حد تک مشابہت رکھتی ہے. رسم الخط کے ساتھ ساتھ
الفاظ بھی بہت حد تک ایک دوسرے سے مشابہہ ہیں. اگر فرق ہے تو ادائیگی اور
لب و لہجہ کا. تاریخی حوالے سے بلوچی زبان کے قدیم فارسی، سنسکرت، اوستائی
اور پارتھین کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔ یہ خلیج فارس کے کچھ علاقوں متحدہ
عرب امارات، عمان سمیت جنوب مغربی پاکستان کے صوبہ (پاکستانی بلوچستان),
ایران کے جنوب مشرقی علاقہ (ایرانی بلوچستان), سیستان, کردستان جنوب مشرقی
افغانستان (افغانستانی بلوچستان) کے ملحقہ علاقوں میں تھوڑی بہت ردو بدل کے
ساتھ بولی جاتی ہے. اس کے علاوہ عربستان، ترکمنستان، افریقہ اور دیگر
علاقوں کے بلوچ تارکین وطن کی بھی زبان ہے۔ بلوچی زبان کی جغرافیائی حیثیت
سے انکار ممکن نہیں کیونکہ یہ سنٹرل ایشیا کو مڈل ایسٹ سے ملانے والی زبان
ہے. ہر چند کلو میٹر کے فاصلے پر زبان اور الفاظ اور لہجوں میں فرق آتا ہے.
انہی لہجوں کے فرق کے ساتھ بلوچی بھی علاقائی اعتبار سے مغربی اور مشرقی
بلوچی میں تقسیم کی گئی ہے. مغربی یا مکرانی بلوچی جو پاکستان میں زیادہ تر
کراچی کے علاقے لیاری, تربت, مند, پسنی اور گوادر میں بولی جاتی ہے. یہ
پہلوی اور سیٹھوی زبانوں کے ملاپ سے وجود میں آئی ہے. اور مشرقی بلوچی یا
رخشانی بلوچی خالص بلوچی زبان ہے جس میں اردو اور پشتو کے کچھ الفاظ مدغم
ہوئے ہیں..
بلوچستان میں براہوی زبان بھی بولی جاتی ہے جو سننے اور بولنے میں بلوچی
زبان سے بالکل مختلف ہے بلکہ نسبتاً مشکل بھی ہے. اس کے بولنے والے پاکستان
میں ایک فیصد تک ہیں. ماہر لسانیات ڈاکٹر گریرسن کی تحقیقات کے مطابق اس
زبان کا بنیادی ڈھانچہ دراوڑی گروہ سے تعلق رکھتا ہے۔ مگر وقت کے ساتھ اس
میں سندھی، بلوچی اور فارسی کے الفاظ کی آمیزش ہوئی اور دراوڑی الفاظ
تقریباً منہدم ہوگئے. لہجوں کے فرق سے سراوانی اور جھالانی براہوی میں
تقسیم ہوتی ہے.جھالانی زبان میں سندھی زبان کے الفاظ کی آمیزش پائی جاتی
ہے.
ماہر لسانیات کے تجزیوں کے مطابق دنیا میں زبانوں کی تعداد روز بروز کمی کا
شکار ہو رہی ہے. نوے فیصد زبانوں کے بولنے والوں کی تعداد ایک لاکھ سے کم
ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ساڑھے پانچسو کے قریب زبانیں بولنے والے افراد
کی تعداد پچاس سے بھی کم ہوگئی ہے اور پچاس کے قریب زبانیں آخری ہچکی لے
رہی ہیں کیونکہ ان کے بولنے والے اکا دکا رہ گئے ہیں. مادری زبان جہاں
معاشرے میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑے رہنے کا احساس پیدا کرتی ہے وہیں اپنی
دھرتی کے ساتھ محبت کا رشتہ بھی استوار کرتی ہے اور اپنی ثقافت کو اجاگر
رکھنے کی وجہ بھی ہوتی ہے. اپنی ثقافت اور اپنی مادری زبان سے اجتناب احساس
کمتری میں شمار ہوتا ہے. ایسا عمل محکوم قوموں کی نشان دہی کرتا ہے. کسی
بھی قوم کو ختم کرنے کے لیے اگر اس کی ثقافت پر وار کیا جائے تو وہ ختم ہو
جاتا ہے اور ثقافت میں زبان کا شمار بھی ہوتا ہے.اپنی ثقافت, اپنی زبان سے
تعلق توڑنا اپنی مٹی سے رشتہ کمزور کرتا ہے اور یہی بات آگے چل کر کسی بھی
قوم کی تباہی اور شکست و ریخت کا باعث بنتی ہے.
مادری زبان انسان کی ذات کا بنیادی جز ہے
زبان کو عالمی سطح پر بنیادی حقوق کا درجہ دیا گیا ہے.اس بنیادی ورثے اور
ثقافتی میراث کی حفاظت ہر شخص پر لاگو ہے. اپنی زبان کو زمانے کی شکست و
ریخت سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے اندر کے احساس کمتری کو ختم کریں
اپنی زبان اور ثقافت کو اپنی مجبوری کے بجائے اپنی طاقت بنائیں اور کوشش
کریں کہ تعلیم بھی مادری زبان میں ہو تاکہ استاد اور طالب علم کے مابین
زبان کا رشتہ مضبوط ہونے کے ساتھ ساتھ طالب علم کی اپنی مادری زبان ہونے کی
وجہ سے تعلیم حاصل کرنا بھی آسان ہو.
مادری زبان کی عالمی دن کے حوالے سے ملکی سطح پر اس امر کی ضرورت ہے کہ اس
بات کو اجاگر کیا جائے کہ ملک میں پائی جانے والی ساری زبانوں کی آبپیاری
کی جائے اور انہی مرنے سے بچایا جائے. کیونکہ کسی ایک زبان کی موت اس زبان
کے بولنے والوں کے ثقافت کی موت ہے
|