چین کے سیاسی کلینڈر کی سب سے بڑی سرگرمی اس وقت بیجنگ
میں جاری ہے۔دنیا اسے "دو اجلاسوں" کے نام سے جانتی ہے۔سادہ الفاظ میں اسے
چین کی قومی عوامی کانگریس اور چین کی عوامی سیاسی مشاورتی کانفرنس کے
سالانہ اجلاس کہا جاتا ہے۔چین کی ترقیاتی منصوبہ بندی میں یہ سیاسی سرگرمی
ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ایک جانب جہاں ملک میں اقتصادی سماجی ترقی
کے حوالے سے چینی حکومت کی کارکردگی عوام کے سامنے آتی ہے تو دوسری جانب
مستقبل کے اہم اہداف کا تعین ،قانون سازی اور عوامی فلاح و بہبود کے منصوبہ
جات بھی انہی دو اجلاسوں میں طے پاتے ہیں۔
قومی عوامی کانگریس کے افتتاحی اجلاس میں وزیر اعظم لی کھہ چھیانگ کی جانب
سے حکومتی کارکردگی کی رپورٹ بھی پیش کی گئی اور سال 2021کے اہم اہداف کی
وضاحت کی گئی جسے عالمی میڈیا نے بھرپور کوریج دی ہے۔ایک مختصراً جائزہ لیا
جائے تو چین نے رواں برس جی ڈی پی نمو کے لیے ٹارگٹ 06فیصد سے زائد رکھا ہے
جس پر عالمی حلقوں میں بحث شروع ہو چکی ہے۔اس کی ایک بڑی وجہ تو چین کا
اعتماد بھی ہے کیونکہ گزشتہ برس 2020 میں وبائی صورتحال کے دوران چین مثبت
شرح نمو کی حامل واحد بڑی بڑی معیشت رہی ہے اور اس وقت بھی ملک میں انسداد
وبا کے ساتھ ساتھ اقتصادی سماجی سرگرمیوں کو ہم آہنگ طور پر آگے بڑھایا جا
رہا ہے۔چین کی جانب سے جی ڈی پی نمو کے لیے06فیصد سے زائد کا ہدف مقرر کرنا
یقیناً وبائی صورتحال میں دنیا کی معیشت کے لیے بھی اہم ہے ۔دنیا کی دوسری
بڑی معیشت کی حیثیت سے عالمی معیشت میں چین کا تناسب 17 فیصد ہے لہذا چین
کی معقول ترقی سے بین الاقوامی منڈی کو بھی ضرور فائدہ پہنچے گا۔حکومتی ورک
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین بیرونی دنیا کے لیے مزید وسیع ،کشادہ اور گہرا
کھلا پن اپنائے گا۔ چین عالمی اقتصادی تعاون میں مزید شمولیت اختیار کرئے
گا اور غیر ملکی افراد کی چین میں سرمایہ کاری کا خیر مقدم کیا جائے گا۔
درآمدات سے وابستہ ٹیکس پالیسیوں کو بہتر بنایا جائے گا ، عمدہ معیاری
مصنوعات اور خدمات کی درآمدات میں اضافہ کیا جائے گا ،غیر ملکی سرمایہ کاری
کے لیے منفی فہرست مختصر کی جائے گی۔ ملکی اور غیر ملکی کمپنیوں کے لیے
منصفانہ مسابقت کو فروغ دیا جائے گا ، چین میں غیر ملکی کمپنیوں کے جائز
حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ دی بیلٹ اینڈ روڈ کی مشترکہ تعمیر،
اہم منصوبہ جات کے حوالے سے تعاون اور بنیادی ڈھانچے کے باہمی ربط کو مزید
آگے بڑھایا جائے گا ۔
ہمیشہ کی طرح رواں سال بھی چین کے ترقیاتی اہداف میں روزگار کو اہمیت حاصل
رہے گی۔ روزگار کی پالیسیوں میں مزید بہتری سے شہری علاقوں میں 11 ملین سے
زائد روز گار کے نئے مواقع پیدا کیے جائیں گے ، کنزیومر پرائس انڈیکس میں 3
فیصد اضافہ ہو گا ، جبکہ ملک کو خوراک میں خودکفیل بنانے کے لیے اناج کی
پیداوار650 ارب کلوگرام سے زائد رہے گی ۔چینی حکومت کی ورک رپورٹ میں کہا
گیا ہے کہ سال 2021تا 2025تک ترتیب دیے جانے والے چودہویں پانچ سالہ منصوبے
کے دوران چین مشترکہ خوشحالی کے حصول کے لیے مضبوط لائحہ عمل اپنائے گا۔ جس
کے تحت روز گار کے مواقع میں مزید اضافہ ، شہریوں کی فی کس آمدنی اور جی ڈی
پی کی ہم آہنگ نمو اور اوسط متوقع عمر میں 1 سال اضافے جیسے اہداف شامل ہیں
۔ چین عمر رسیدہ آبادی کی بہبود کے لیے قومی پالیسی اپنائے گا ، موزوں شرح
پیدائش کو فروغ دیا جائے گا اور ریٹائرمنٹ کی عمر میں بتدریج اضافے جیسی
حکمت عملی اپنائی جائے گی ۔ اس کے علاوہ سماجی فلاح و بہبود کے نظام کو
بہتر بنایا جائے گا ۔ حکومتی ورک رپورٹ کے مطابق چین اہم شعبوں میں اصلاحات
کو مزید فروغ دے گا، صنعتی اداروں کی مشکلات کو دور کرنے کے لیے امدادی
پالیسی پر عمل درآمد کے ساتھ ساتھ درکار اصلاحات کو آگے بڑھایا جائے گا اور
متحرک مارکیٹ عوامل کو فروغ دیا جائے گا ۔ چین مارکیٹ پر مبنی ، ضوابط کے
تابع ایک عالمی معیار کا حامل کاروباری ماحول تشکیل دے گا۔ اصلاحات کے
ذریعے صنعتی اداروں کی پیداواری اور انتظامی لاگت کو کم کیا جائے گا ۔
مالیاتی نظام میں مزید اصلاحات لائی جائیں گی اور مالیاتی رسک سے نمٹنے کے
میکانزم کو بہتر بنایا جائے گا۔ چین انسداد آلودگی اور ماحول کی بہتری پر
زور دے گا، طے شدہ اہداف کی روشنی میں آئندہ پانچ سالوں میں موسمیاتی
تبدیلی سے نمٹنے کے لئے اہم اہداف کی تکمیل کرے گا۔ فی یونٹ جی ڈی پی
توانائی کی کھپت اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں بالترتیب 13.5 فیصد
اور 18 فیصد کی کمی واقع ہو گی ۔ جنگلات کے رقبے میں اضافہ 24.1فیصد تک
پہنچ جائے گا ۔
دیہی ترقی کو چین کی پالیسی سازی میں ہمیشہ اہمیت حاصل رہی ہے اور 2021 میں
بھی جامع طور پر دیہی علاقوں کی ترقی کو فروغ دینے کا عزم ظاہر کیا گیا ہے
،زراعت کی مستحکم ترقی ، کسانوں کی آمدنی میں اضافہ اور غربت سے نجات پانے
والے علاقوں کی ترقی کو مزید آگے بڑھایا جائے گا ۔ انسداد غربت میں حاصل
شدہ کامیابیوں کو مزید مستحکم کرنے کے لیے مانیٹرنگ اور امدادی نظام کو
بہتر بنایا جائے گا ۔ قابل کاشت رقبے ، بیجوں کے تحفظ، زرعی مصنوعات کی
مستحکم قیمتوں اور فراہمی سے ایک ارب چالیس کروڑ چینی عوام کے لیے خوراک کے
تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو پاکستان جیسے ترقی پزیر ممالک چین کی انسداد
غربت ،روزگار کی فراہمی ،دیہی علاقوں کی تعمیر و ترقی اور مضبوط و لچکدار
معاشی پالیسیوں سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔چینی قیادت کھوکھلے بیانات کے
بجائے ٹھوس عملی اقدامات پر یقین رکھتی ہے جو آج چین کی کامیابی کا سب سے
بڑا راز ہے۔
|