تحریر: شہروزہ وحید، گوجرانوالہ
خواتین کے لیے امید و آگہی کی شمعیں روشن کرنے، محافل منعقد کرنے،
کانفرنسوں، سیمینارز اور ورک شاپس میں خواتین کی عظمت و وقار کو اجاگر کرنے
کے حوالے سے دنیا بھر میں 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن بڑے زور و شور اور
جوش و خروش سے منایا جاتا ہے، جو دنیا بھر کی عورتوں کے لیے ایک وسیع مفہوم
رکھتا ہے۔ یوم خواتین تغافل کی نیند سے جاگنے کا دن ہے۔ دوسروں کو بیدار
کرنے کا دن ہے، اپنے حصے کی شمع روشن کرنے کا دن ہے۔ اپنے پاکستانی معاشرے
کے مثبت پہلوؤں سے دنیا کو روشناس کروانے کا دن ہے۔ اپنے فرائض سے آگہی کا
دن ہے۔ خاندان کو انتشار سے بچانے کا دن ہے۔ آج خواتین کو معاشرے میں عزت و
وقار سے جینے کا درس دینے کا دن ہے۔ اس حقیقت کی وضاحت کا دن ہے کہ عورتیں
ہی قوموں کا سرمایا ہوتی ہیں۔ یہ باور کروانے کا دن ہے کہ اس معاشرے کو
پاکیزہ عورتوں اور غیرت مند مردوں کی ضرورت ہے، جو ایک دوسرے کا احترام
کرنا جانتے ہوں۔ جن کی نگاہوں میں شرم و حیا ہو۔ آج کا دن مجھ پر بہت سے
سوالات کی بارش کر رہا ہے، میرا ذہن سوچنے سمجھنے سے قاصر ہے۔ وقت کے تیزی
سے بہتے طوفان کے ساتھ ساتھ میری بے چینی بھی بھڑتی جا رہی ہے۔ لیکن مجھے
معلوم نہیں ہے کہ مجھے آج کی تاریخ میں ان سوالات کے جواب مل بھی پائیں گے
یا نہیں۔
زمانہ جاہلیت میں جہاں عورتوں کے خلاف شدید نفرت پائی جاتی تھی، بیٹیوں کو
باعث ندامت سمجھا جاتا تھا، بیوی کی کوئی اوقات نہ تھی، ماں کی کوئی حیثیت
نہ تھی۔ وہاں اﷲ کی رحمت کا سورج چمکا، تو ہمارے پیارے نبی حضرت محمدﷺ جو
تمام دنیا کے لیے رحمت بن کر تشریف لائے۔ انہوں نے عورت کو وہ مقام عطا
فرمایا، جس کی مثال کہیں نہیں ملتی۔ انہوں نے عورت کا مقام متعین کرتے ہوئے،
اسے مرد کے برابر حقوق عطا کیے بلکہ ایک مقام پر تو عورت کے مرتبے کو اتنا
بلند کر دیا کہ جنت بھی ماں کے قدموں تلے رکھ دی۔ عورت کے مقام کا اندازہ
اس بات پر لگایا جا سکتا ہے، کہ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے اپنی مقدس کتاب قرآن
مجید میں عورت کے نام سے پوری سورت نازل فرمائی اور اس مبارک سورت میں عورت
کے عزت و مرتبے کو بیان کیا، جو کہ سورہ النساء کے نام سے وجود ہے۔
میرا ان تمام خواتین سے سوال ہے، جو خواتین کی آزادی کے لیے عورت مارچ کر
رہی ہیں۔ جو مردوں کو اپنے حقوق غاصب کرنے والا قرار دیتی ہیں اور ہر اس
کام کی نفی کرتی ہیں، جو عورت کو اس کی معراج تک لے جاتا ہے۔ سڑکوں پر جلوس
اور ریلیاں نکالنے والی یہ خواتین کیا آزاد نہیں ہیں۔ یوم خواتین پر ان
خواتین کے یہ سارے اقدامات اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ آزاد ہیں، ہر قسم کا
عمل کرنے کے لیے اور اس کے بعد اب وہ کون سی آزادی کے لیے طلبگار ہیں۔ کیا
خواتین کا عالمی دن آزادانہ گھومنا، چھوٹے اور تنگ لباس اوڑھنا، بیہودہ
پوسٹر اور بینرز لہرانے کا نام ہے۔ ہر سال عورتوں کے حقوق کی علمبردار بن
کر کھڑی ہونے والی ان خواتین کو اپنی توانائیاں مثبت اور تعمیری سرگرمیوں
پر لگانی چاہیں۔ انہیں اﷲ تعالی نے جس کرم سے نوازا ہے، اس سے کسی مفلس
خاتون کی مدد کرنی چاہیے۔ غریب بچیوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے پر توجہ
دینی چاہیے۔ یہ بے فضول چیخ و پکار اور بلاوجہ کی محاذ آرائی سے کچھ حاصل
نہیں ہو سکتا۔ کچھ کرنا ہی ہے تو انہیں عورت کے مفاد میں کچھ کرنے کی کوشش
کرنی چاہیے۔
جب اسلام نے بہت واضح طور پر مرد اور عورت کے حقوق و فرائض کا تعین کر دیا
ہے، تو اس کے بعد ایک دوسرے کو اس کے حقوق و فرائض بتانے کی ضرورت باقی
نہیں رہ جاتی لیکن مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ عورت مارچ کیا ہے؟ ان کا ایجنڈا
کیا ہے؟ ان کے نعرے عجیب کیوں ہیں؟ ان خواتین کے منفی جملوں اور بیہودہ
گفتگو کا جواز کیا ہے؟ جب میں خواتین کو ہاتھوں میں بینرز اٹھائے دیکھتی
ہوں، جن پر بیہودہ قسم کے جملے لکھے ہوتے ہیں، تو میری روح شدید زخمی ہوتی
ہے۔ میرا سر شرم سے جھک جاتا ہے، میرا دل خون کے آنسو روتا ہے، میرے پاؤں
سے زمین نکل جاتی ہے۔ عورت کی عظمت، حرمت، عزت و تکریم، بلندی اور توقیر کی
بات کرنے کے بجائے، اسے مزید پستیوں کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ عورت مارچ کے
نام پر معاشرے میں فساد پھیلایا جا رہا ہے، عورت کی تذلیل کی جا رہی ہے۔
ہمیں عورت مارچ کے نام پر ہونے والی شدت پسندی کی مخالفت کرنی چاہیے اور اس
زہریلی ہوا سے اپنے معاشرے کو بچانے کے لیے لوگوں میں آگہی پیدا کرنی
چاہیے۔ عورت مارچ ہماری عام عورتوں کے حقوق کے قتل کا سامان ہے۔
عورت صرف اپنے جینے کا حق مانگتی ہے، اس کے عظمت و وقار کو اپنے پاؤں تلے
نہ روندا جائے کہ چشم فلک کو بھی حیا آنے لگے۔ عورت ہی سے زندگی میں رنگ
ہیں۔ یہ امید کی کرن ہے، روشنی کا سفر ہے، ایک حسین خواب ہے۔ ایک عورت محبت
کے 4 خوبصورت اور مقدس رشتوں کا احساس ہے۔ بیٹی ہے تو سراپا رحمت، بہن ہے
تو سراپا شفقت، بیوی ہے تو سراپا عزت اور اگر ماں ہے تو سراپا محبت لیکن
غیر مسلم معاشرے کے ساتھ ساتھ آج اسلامی معاشرہ بھی عورت کی و تصویر نہیں
دکھا پا رہا، جو اس کا روپ ہے۔ مجھے بڑے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے
کہ آج عورت محفوظ نہیں ہیں، وہ رات کی تاریکی میں تنہا سفر نہیں کرسکتی۔ اس
حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ کسی بھی معاشرے کی بہترین تشکیل کے لیے
معاشرے کے اہم ستون ’’عورت‘‘ کو سب سے پہلے ذہنی، نفسیاتی، فکری، معاشرتی
اور قانونی تحفظ چاہیے۔ جب تک عورت عدم تحفظ کا شکار رہے گی تو کبھی بھی
ایک اچھے معاشرے کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی، لیکن آج ہمارا المیہ یہ ہے کہ
مسلم معاشرہ ہونے کے باوجود ہم ان حقوق سے محروم ہیں، جو قرآن کا فرمان اور
آقائے دو جہاں ﷺ کے ارشادات ہیں اور جو مسلم معاشرے کا خاصہ ہونا چاہیں۔
غیر مسلم اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اسلام نے عورت کی عصمت و عزت کا
تحفظ کیا ہے اور اس کے لیے معاشرے میں جو راہیں متعین کی ہیں، وہ اسلام ہی
کا خاصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب و یورپ کی خواتین اب بھی اسلام ہی کو اپنی
جائے پناہ سمجھتے ہوئے بھاری تعداد میں اسلام قبول کر رہی ہیں، جس کی تصدیق
بھی کی جا سکتی ہے۔
آج کسی حد تک وطن عزیز پاکستان میں خواتین مختلف شعبہ جات میں اپنی
صلاحیتوں کے بل بوتے پر وطن کی خدمت کے ساتھ ساتھ ملک کا نام بھی روشن کر
رہی ہیں۔ انہوں نے زندگی کے تمام شعبہ جات میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ
کیا ہے اور مختلف سرکاری و غیر سرکاری اداروں میں ملک کی ترقی کے لیے خدمات
سرانجام دے رہی ہیں، لیکن ابھی بھی دور دراز کے علاقوں میں خواتین کو وہ
مقام حاصل نہیں، جو دین اسلام نے چودہ سو برس پہلے دیا تھا۔ میری چھوٹی سی
التجا ہے کہ عورت کے اصل منصب و مقام کو پہچانا جائے، تا کہ وہ دنیا کے ہر
شعبے میں اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کرکے دنیا کو بتا دے کہ اسلام کی نظر میں
مرد و زن کے درمیان حقوق و فرائض اور صلاحیتوں میں کوئی تفریق نہیں ہے
لہٰذا، عورت کے مقام کو جان کر اسے عزت دینا آج با حیثیت مسلمان ہم پر لازم
ہے۔
|