اسلام نے عورت کو جو مقام دیا اس کو جاننے سے قبل یہ
جاننا ضروری ہے کہ اسلام سے قبل عورت کا کیا مقام تھا۔تاریخ انسانیت اٹھا
کر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ ایک عرصہٴ دراز سے عورت پر ظلم و ستم جاری
تھا۔ چاہے وہ یونان ہو، مصر ہو، عراق ہو، ہند ہو، چین ہو،الغرض ہرقوم میں
ہر خطہ میں کوئی ایسی جگہ نہیں تھی، جہاں عورتوں پر ظلم وستم کے پہاڑ نہ
ٹوٹے ہوں۔ اسلام کی آمد عورت کے لیے غلامی، ذلت اور ظلم و استحصال کے
بندھنوں سے آزادی کا پیغام تھی۔ لوگ اسے اپنے عیش وعشرت کے لئےحرص کو پورا
کرنے لے لئے عورت کی خریدوفروخت کرتے ان کے ساتھ حیوانوں سے بھی بُرا سلوک
کیاجاتاتھا؛ حتی کہ اہلِ عرب عورت کے وجود کو موجبِ عار سمجھتے تھے اور
لڑکیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے۔ ہندوستان میں شوہر کی چتا پر اس کی بیوہ
کو جلایا جاتا تھا اور ستی کی رسم کو پورا کیا جاتا۔ واہیانہ مذاہب عورت کو
گناہ کا سرچشمہ اور معصیت کا دروازہ اور پاپ کا مجسم سمجھتے تھے۔ اس سے
تعلق رکھناروحانی ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے تھے۔ دنیا کے زیادہ تر
تہذیبوں میں اس کی سماجی حیثیت نہیں تھی۔ اسے حقیر وذلیل نگاہوں سے
دیکھاجاتا تھا۔ اس کے معاشی وسیاسی حقوق نہیں تھے، وہ آزادانہ طریقے سے
کوئی لین دین نہیں کرسکتی تھی۔ اسلام سے پہلے دنیا کے مختلف ممالک میں عورت
اپنے بنیادی حقوق سے بالکل محروم تھی:
(1) فرانس میں عورت کے بارے میں یہ تصور تھا کہ یہ آدھا انسان ہے اس لئے
معاشرے کی تمام خرابیوں کا ذریعہ بنتی ہے-
(2) چین میں عورت کے بارے میں یہ تصور تھا کہ اس میں شیطانی روح ہوتی ہے
لہذا یہ برائیوں کی طرف انسان کو دعوت دیتی ہے-
(3) جاپان میں عورت کے بارے میں یہ تصور تھا کہ یہ ناپاک پیدا کی گئی ہے،
اس لئے عبادت گاہوں سے اس کو دور رکھا جاتا ہے-
(4) ہندوازم میں جس عورت کا خاوند مرجاتا تھا اس کو معاشرے میں زندہ رہنے
کے قابل نہیں سمجھا جاتا تھا- اس لئے ضروری تھا کہ وہ اپنے خاوند کی لعش
کیساتھ زندہ جل کر اپنے آپ کو ختم کرلے، اگر وہ اس طرح نہ کرتی تو اس کو
معاشرہ میں عزت کی نگاح سے نہیں دیکھا جاتا تھا-
(5) عیسائی دنیا میں عورت کو معرفت الہی کے راستے میں رکاوٹ سمجھا جاتا
تھا- عورتوں کو تعلیم دی جاتی تھی کہ کنواری رہ کر زندگی گزاریں- جبکہ مرد
راہب بن کر رہنا اعزاز سمجھتے تھے-
(6) جزیرہ عرب میں بیٹی کا پیدا ہونا عار سمجھا جاتا تھا- لہذا ماں باپ خود
اپنے ہاتھوں سے بیٹی کو زندہ درگور کر دیا کرتے تھے- عورت کے حقوق اس قدر
پامال کئے جاچکے تھے کہ اگر کوئی آدمی مرجاتا تو جسطرح وراثت کی چیزیں اس
کی اولاد میں تقسیم ہوتی تھیں اسی طرح بیوی بھی اس کی اولاد کے نکاح میں
آجاتی تھی-
(7) اگر کسی عورت کا خاوند فوت ہوجاتا تو مکہ مکرمہ سے باہر ایک کالی
کوٹھڑی میں اس عورت کو دو سال کیلئے رکھا جاتا تھا طہارت کیلئے پانی اور
دوسری ضروریات زندگی بھی پوری نہ دی جاتی تھی- اگر دو سال یہ جتن کاٹ کر
بھی عورت زندہ رہتی تو اس کا منہ کالا کرکے مکہ مکرمہ میں پھرایا جاتا- اس
کے بعد اسے گھر میں رہنے کی اجازت دی جاتی تھی-
یہ ان قوموں کا حال ہے جن کو آج انسانیت کا دعویدار سمجھا جاتا ہے۔
اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ بعض مرتبہ عورت کے ہاتھ میں زمام اقتدار بھی
رہا ہے اور اس کے اشارے پر حکومت وسلطنت گردش کرتی رہی ہے، یوں تو خاندان
اور طبقے پر اس کا غلبہ تھا۔لیکن بعض مسائل پر مرد پر بھی ایک عورت کو
بالادستی حاصل رہی، اب بھی ایسے قبائل موجود ہیں، جہاں عورتوں کا بول بالا
ہے؛ لیکن ایک عورت کی حیثیت سے ان کے حالات میں زیادہ فرق نہیں آیا، ان کے
حقوق پر دست درازی جاری ہی رہی اور وہ مظلوم کی مظلوم ہی رہی۔(مسلمان عورت
کے حقوق اور ان پر اعتراضات کا جائزہ، سید جلال الدین عمری، مطبع ادارہٴ
تحقیق وتصنیفِ ا سلامی، مارچ۱۹۸۶ء،ص:۱۵)
لیکن اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس نے عورت پر احسان عظیم کیا اور اس کو ذلت
وپستی سے نکالا جب کہ وہ اس کی انتہاکو پہنچ چکی تھی، اس کے وجود کو گو ارا
کرنے سے بھی انکار کیا جارہا تھا تو نبیِ کریم ﷺ رحمة للعالمین بن کر تشریف
لائے اور آپ نے پوری انسانیت کو اس آگ کی لپیٹ سے بچایا اور عورت کو بھی
تحت الژری کی گہرائیوں سے نکال کر اوج ثریا کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ اور
اس زندہ دفن کرنے والی عورت کو بے پناہ حقوق عطا فرمائے ۔ اسلام نے ان تمام
قبیح رسوم کا قلع قمع کردیا جو عورت کے انسانی وقار کے منافی تھیں اور عورت
کو وہ حقوق عطا کیے جس سے وہ معاشرے میں اس عزت و تکریم کی مستحق قرار پائی
جس کے مستحق مرد ہیں۔
مغربی تہذیب بھی عورت کوکچھ حقوق دیتی ہے؛ مگر عورت کی حیثیت سے نہیں؛ بلکہ
یہ اس وقت اس کو عزت دیتی ہے، جب وہ ایک مصنوعی مرد بن کر ذمہ داریوں
کابوجھ اٹھانے پر تیار ہوجائے؛ مگر نبیِ کریم ﷺ کالایا ہوا دین عورت کی
حیثیت سے ہی اسے ساری عزتیں اور حقوق دیتا ہے اور وہی ذمہ داریاں اس پر
عائد کی جو خودفطرت نے اس کے سپرد کی ہے۔
اسلام میں عورت کامقام، مرتبہ: ثریابتول علوی، اسلامک بک فاوٴنڈیشن، نئی
دہلی ۱۹۹۳ء، ص: ۱۵
اسلام نے عورت کا جو مقام ومرتبہ معاشرے میں متعین کیا، وہ جدید وقدیم کی
بے ہودہ روایتوں سے پاک ہے، نہ تو عورت کوگناہ کا پُتلا بنا کر مظلوم بنانے
کی اجازت ہے اور نہ ہی اسے یورپ کی سی آزادی حاصل ہے۔
اسلام میں عورت کامقام، مرتبہ: ثریابتول علوی، اسلامک بک فاوٴنڈیشن، نئی
دہلی ۱۹۹۳ء، ص: ۲۹۔۳۰
یہاں ہم اسلام کے قائم کردہ معاشرے میں عورت کی تکریم و منزلت کا جائزہ پیش
کرتے ہیں :
1۔ اللہ تعالیٰ نے تخلیق کے درجے میں عورت کو مرد کے ساتھ ایک ہی مرتبہ میں
رکھاہے، اسی طرح انسانیت کی تکوین میں عورت مرد کے ساتھ ایک ہی مرتبہ میں
ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
’’اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو، جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا فرمایا پھر اسی سے
اس کا جوڑ پیدا فرمایا۔ پھر ان دونوں میں سے بکثرت مردوں اور عورتوں (کی
تخلیق) کو پھیلا دیا۔‘‘القرآن، النساء، 4 : 1
2۔ عورت پر سے دائمی معصیت کی لعنت ہٹا ئی اور اس پر سے ذلت کا داغ دور کیا
کہ عورت اور مرد دونوں کو شیطان نے وسوسہ ڈالا تھا، جس کے نتیجے میں وہ جنت
سے اخراج کے مستحق ہوئے تھے جبکہ عیسائی روایات کے مطابق شیطان نے حضرت
حواء علیہا السلام کو بہکا یا اور یوں حضرت حواء علیہا السلام حضرت آدم
علیہ السلام کے بھی جنت سے اخراج کا سبب بنیں۔ قرآن حکیم اس باطل نظریہ کا
رد کرتے ہوئے فرماتا ہے :
’’پھر شیطان نے اُنہیں اس جگہ سے ہلا دیا اور انہیں اُس (راحت کے) مقام سے،
جہاں وہ تھے، الگ کر دیا۔‘‘
القرآن، البقرة، 2 : 36
3۔ اللہ تعالیٰ نے اجر کا استحقاق میں بھی برابر مقام دیا۔ ان دونوں میں سے
جو کوئی بھی کوئی نیک عمل کرے گا، اسے پوری اور برابر جزاء ملے گی۔ ارشادِ
ربانی ہے :
’’ان کے رب نے ان کی التجا کو قبول کرلیا (اور فرمایا) کہ میں تم میں سے
کسی عمل کرنے والے کے عمل کو ضائع نہیں کروں گا، چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔
تم سب ایک دوسرے میں سے ہی ہو۔‘‘القرآن، آل عمران،
4۔ اسلام نے عورت کے لیے تربیت اور نفقہ کے حق کا ضامن بنا یاکہ اسے روٹی،
کپڑا، مکان، تعلیم اور علاج کی سہولت ’’ولی الامر‘‘ کی طرف سے ملے گی۔یہ
ذمہ داریاں اسلام نے مرد کے ذمہ لگائیں کہ وہ ان کو پورا کرے گا۔
5۔ عورت کی تذلیل کرنے والے زمانۂ جاہلیت کے قدیم نکاح جو درحقیقت زنا تھے،
اسلام نے ان سب کو باطل کرکے عورت کو عزت بخشی۔
|