معراج النبی ﷺ کو ہمارے ہاں بالعموم ایک مذہبی نوعیت کا واقعہ سمجھا جاتا
ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ واقعہ عروج آدم خاکی کا شاندار مظہر ہے،تسخیر
کائنات کے سفر کا ایک اہم سنگ میل ہے ،جدید سائنسی انکشافات اور اکتشافات
کا نقطہ اوّل ہے،اور حضرت انسان کے ذہنی و فکری ارتقاء کی روشن دلیل
ہے۔تاریخ اسلام میں واقعہ معراج کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے ،جن دنوں میں یہ
واقعہ پیش آیا وہ ایام اہل اسلام کے لئے سخت ابتلاء اور آزمائش کے تھے حضور
ﷺ نے تیرہ برس سرزمین مکہ پر پیغام توحید پہنچانے میں صر ف کئے، طائف سے
بھی ہو آئے اگرچہ آپ کا حلقہ اثر پہلے کے مقابلے میں بہت بڑھ چکا تھامگر
اسی حساب سے کفار کے رد عمل میں بھی سختی آتی جا رہی تھی،نظر انداز کر دینے
والی پالیسی سے کفار کا رد عمل شروع ہوا تھااب وہ باقاعدہ جسمانی تعذیب تک
پہنچ چکا تھا، اس دوران میں طنزو استہزا، کٹ حجتی،الزام تراشی ،غلام اور
نادار صحابہ ؓ پر تشدد، سماجی مقاطعہ ایسی مشکلات سے حضور ﷺ اور آپ کے
رفقاء دوچار رہے اب کھلم کھلا پیغمبر کے قتل کے منصوبے بن اور چرچے ہو رہے
تھے ، اس ماحول میں آپ ﷺ کا سفر معراج اپنے اندر بہت سی حکمتوں کا حاصل
معلوم ہوتا ہے ۔
ایک طرف اپنے رفقاء کے لئے حوصلہ افزائی تھی کہ اہل دنیا چا ہے لاکھ مخالفت
کریں لیکن اﷲ تعالی کی مدد او ر قرب بہرحال ہمیں حاصل ہے دنیا خواہ ہمیں
نظر انداز اور فراموش کر دے خداوند عالم کبھی ہمیں نظر انداز اور فراموش
نہیں کرے گا،دوسری طرف کفار کے لئے یہ تنبیہہ موجود تھی کہ تم جس قدر چاہو
ہم پر اپنی سر زمین تنگ کر دواﷲ تعالی نے اس کے مقابلے میں ہمارے لئے
آسمانوں کے دروازے کھول دیئے ہیں اور یہ ایک طرح کا استعارہ تھاکہ جو خدا
اپنے نبی کے لئے خلاف عادت آسمانوں پر جانے کے لئے راستہ کھول سکتا ہے وہ
دنیا کی توقع کے برعکس فروغ اسلام کے لئے بھی نئی راہیں ہموار کر سکتا ہے ،چنانچہ
یہی ہواکہ سفر معراج سے واپس آتے ہی متصل زمانے میں حضور ﷺ کو اذن ہجرت
ملا،اور سفر ہجرت اسلامی انقلاب کے قیام اور اسلام کی وسعت کا ذریعہ ثابت
ہوا،قیام مکہ کے تیرہ برس میں جو چھوٹی سی جماعت تیار ہوئی تھی وہ مدینہ
منورہ پہنچتے ہی ایک ملت اور امت کی تشکیل کا باعث بن گئی،ہجرت کے بعد یہ
پیغام دس برس کے اندر اندر دس لاکھ مربع میل تک پھیل گیااور فتح مکہ جیسا
عظیم واقعہ بھی ہوا ۔سفر معراج اپنے اندر یہ معجزانہ شان بھی رکھتا ہے کہ
اﷲ تعالی جب چاہے دنیا کے اندازے اور قاعدے ضابطے پلٹ کر رکھ دے ، معراج کے
حوالے سے کفار کو یہ حیرت تھی کہ رات کے ایک حصے میں اتنا بڑا سفر کیسے کیا
جا سکتا ہے ؟وہ لوگ اﷲ کی قدرت کو بھلا بیٹھے تھے اس طرح دنیا بھر کو یہ
حیرت لاحق رہی کہ مدینے میں قدم رکھتے ہی چند برسوں کے اندر اتنا عظیم
الشان انقلاب کیسے برپا ہو گیا ؟واقعہ معراج میں ایک حکمت یہ بھی پو شیدہ
تھی کہ اس سے منصب نبوت اور اس کا مزاج واضح ہوا ہے، منصب نبوت یہ ہے کہ وہ
بندوں اور خدا کے درمیان رابطے کا کام دیتا ہے ، اسوہ نبوی ﷺ سے بندے جان
جاتے ہیں کہ اخلاق الہی کیا ہے ؟
واقعہ معراج سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سائنس دان ہو یا فلسفی ،اس کے سارے
دعوے اور فلسفے کی بنیاد ظن اور گمان پر ہوتی ہے وہ عمر کے آخری حصے میں
بھی اپنی بات کو حرف آخر قرار دینے کی پو زیشن میں نہیں ہوتالیکن پیغمبرجو
بات بھی کہتا ہے سرا سر مشاہدے کی بنیاد پر کہتا ہے اس لئے سائنس دان کی
آخری بات بھی تشنہ ہوتی ہے اور فلسفی کی ہر کلی اور جزئی محتاج صداقت ہوتی
ہے جبکہ پیغمبر کی پہلی بات ہی حتمی اور قطعی ہوتی ہے اس لئے کہ اس کا
ذریعہ علم قیاسی اور سماعی نہیں ہوتا بلکہ ایقانی اور مشاہداتی ہوتا ہے۔
سفر معراج کا ایک مقصد یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سر زمین مکہ پرجو کشمکش
برپا تھی اس کی بنیاد یہ تھی کہ ڈھیر سارے خداؤں کے مقابلے میں ایک خدا کو
کیسے مان لیا جائے؟ اور فی الواقع ایک خدا ہے تو وہ کس نے دیکھا ہے؟پہلے
نبی سے لے کر عیسی ؑ تک ہر ایک نے توحید کی بات کی مگر کسی نے خدا کو
دیکھنے کا دعوی نہیں کیا ،حضرت موسی ؑ نے کلام خدا وندی براہ راست سنا لیکن
دیکھنے کی خواہش پرانہیں لن ترانی کا جواب ملا،اب چونکہ حضور ﷺ آخری نبی
تھے آپ ﷺ کے بعداﷲ تعالی نے براہ راست کسی سے مخاطب نہیں ہونا تھااس لئے
ضروری تھاکہ لوگوں کو اس سوال کا حتمی جواب آنا چاہیئے کہ کسی نے خدا کو
بھی دیکھا ہے یا نہیں ؟ آپ ﷺ نے سر کی آنکھوں سے مشاہدہ کر کے دنیا کو
بتایاکہ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کے ذمے سوال کا جواب میں مہیا کرتا
ہوں کہ ہاں اس خدائے واحد کو میں نے دیکھا ہے، اور سر کی آنکھوں سے دیکھا
ہے اس طرح عقیدہ توحید قیاسی نہیں مشاہداتی بن گیا ، سفر معراج نے وہ آخری
دلیل بھی مہیا کردی اور اس عقدے کی گرہ کشائی کر دی جو مشہود خدا کا تصور
رکھنے والے ذہنوں میں صدیوں سے موجود چلا آرہا تھا ۔
آج تسخیر آفاق ایک سائنسی مشاہدہ بن گیا ہے مگر اس مشاہدے کو بنیاد سفر
معراج نے فراہم کی ،یہ امر ہر ایک جانتا ہے کہ معلوم انسانی تاریخ میں
صدیوں تک ستارے ،چاند ،سورج اور آسمان کی پوجا ہوتی رہی اس لئے کہ یہ چیزیں
انسانی دسترس سے باہر تھیں ، ان تک انسان پہنچ نہیں پاتا تھا، ستاروں کا
جھرمٹ بہت دلفریب لگتا تھا، چاند بہت نظر معلوم ہوتا تھا ، سورج کی تمازت
میں ایک طرح کی ہیبت تھی، آسمان کی بلندی کے سامنے انسان خود کو بہت پست
تصور کرتا تھا سفر معراج نے انسان کو اس کے حقیقی مقام سے روشناس کرایا،
انسان کو یہ ادراک پہلی بار حاصل ہوا کہ کارخانہ قدرت میں جو کچھ بھی ہے
خواہ وہ نظر فریب ہو یا دلنواز ،وسیع ہو یا بسیط ،جلال آمیزہو یا دہشت
انگیز ،کچھ بھی ہومقام و مرتبے میں بندہ خاکی سے فروتر ہے اور اپنی تمام تر
گہرائیوں ، رعنائیوں ،پہنائیوں اور وسعتوں کے باوجود اس کی گرفت میں ہے
،علامہ اقبال ؒ اسی مفہوم کو بیان کرتے ہیں ۔
سبق ملا ہے یہ معراج مصطفےٰﷺ سے مجھے
کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں
|