روح، نفس اور وجود کا مرکز

وَمَا تَوْفِيْقِيْٓ اِلَّا بِاللّٰهِ ۭ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَاِلَيْهِ اُنِيْبُ
(سورة هود , آیت 88)

"فرشتہ موت کا چھُوتا ہے گو بدن تیرا

ترے وجود کے مرکز سے دُور رہتا ہے!"

روح کا موضوع انسانی دنیا میں اتنا ہی قدیم ہے جتنا انسان خود قدیم ہے۔ انسانوں کی دنیا میں دو طرح کا علم ہے

عقلی علوم (انسانوں کی عقل کا علم)
غیر عقلی علم (وحی کا علم جو انبیاء
کے وسیلہ سے ہم تک پہنچتا ہے)

میں کوشش کروں گا کہ اپنے موضوع کو اسی ترتیب سے زیربحث لاؤں جو ترتیب ہمیں غیر عقلی علم(وحی) قرآن حکیم کی حکمت میں ملتی ہے۔

قرآن حکیم کے علم کے مطابق یہ کائنات عدم سے وجود میں آئی ہے۔

اگر ہم قدیم يونان کے فلاسفہ کے عقلی علوم کا مطالعہ کریں تو ان کا نظریہ تھا کہ ماده قدیم ہے حادث نہیں ہے۔
ہمارے کچھ مسلم مفکرین بھی یونان کے فلسفہ سے متاثر تھے جن کے بارے میں علامہ اقبال نے اپنے اانگریزی خطبات کہا ہے کہ
"قرآن کے بارے میں مجموعی طور پر مسلم مفکرین کی سوچ کو یونانی فکر نے متاثر کرتے ہوۓ دھندلا دیا۔"

قرآن حکیم میں امر اور خلق دو الفاظ آے ہیں۔ جس کی وضاحت علامہ اقبال کے خطبہ میں اس طرح رقم ہے جس کو علامہ غلام احمد پرویز نے اپنے تبویب القرآن میں اس طرح quote کیا


"خلق وامر دونوں خدا کے لئے ہیں
سلسلہ کائنات کے ضمن میں کہا کہ خلق وامر خدا کے لئے ہیں۔ (7:54) ۔
مغربی مفکر (PRINGLE-PATTISON) نے کہا ہے کہ انگریزی زبان کی بد قسمتی ہے کہ اس میں خدائی تخَیق کے لئے صرف ایک لفظ (CREATION) ہے۔ عربی زبان بڑی خوش قسمت ہے کہ اس میں خدا کے تخلیقی پروگرام کے لئے دو الفاظ (امرؔ اور خلقؔ موجود ہیں ۔امرؔ اس مرحلہ کا نام ہے جس میں تخلیق کی جانیوالی شے کی (DIRECTION) متعین کی جاتی ہے اور خلقؔ وہ منزل ہے جس میں وہ شے ہمارے نقطہ نگاہ سے محسوس پیکرا ختیار کر لیتی ہے۔" (بحوالہ خطباتِؔ اقبالؒ ؔ )

آپ لوگوں نے غور فرمایا کہ امر وہ مرحلہ ہے جب کائنات ابھی وجود میں نہیں آئی تھی تو اس مرحلہ میں تخلیق کی جانے والی شے کی (Direction) متعین کی جاتی ہیں۔ اور جب کائنات عدم سے وجود میں آ گئی تو وہ تمام اشیاء خلق ہونا شروع ہو گئی۔

روح کا تعلق بھی عالم امر سے ہے قرآن حکیم نے ان کو بھی روح کہا ہے
ملائکہ
وحی
روح القدس( جبرئیل امین)
اور انسان کے متعلق بھی فرمایا کہ

فَاِذَا سَوَّيْتُهٗ وَنَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِيْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِيْنَ(سورة الحجر , آیت 29)
" لہٰذا جب میں اس کو پوری طرح بنا لوں، اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدے میں گر جانا"
(ترجمہ از تقی عثمانی)

روح کے بارے میں بے شمار تصورات ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ کوئی انسان بھی روح کی ماہیت کو نہیں سمجھ سکتا۔ پرانے تصورات کے مطابق روح کو مادے کی لطیف شکل سمجھا جاتا تھا جو کہ انسان کے عقلی علم کی قیاس آرائی ہے۔ لہٰذا قرآن پاک میں اللّه فرماتا ہے کہ

وَيَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ ۭ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّيْ وَمَآ اُوْتِيْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِيْلًا(سورة بنی اسراءیل , آیت 85)
مندرجہ بالا آیت میں اللّه فرما رہا ہے روح رب کا امر ہے اور انسان اس کی ماہیت کو نہیں جان سکتا کیوں کہ انسان کو بہت کم علم دیا گیا ہے۔

کچھ لوگ روح کو توانائی بھی سمجتے ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ توانائی مادے کی ضد ہے۔ لیکن یہ بھی تصور باطل ہے۔ روح اس توانائی کے تصور سے کوسوں دور ہے۔
توانائی مادے کی پیداوار ہے اور اسی سے مادیت پسند یہ قیاس آرائی کرتے ہیں کہ نفس مادے کی پیداوار ہے جو کہ ایک باطل نظریہ ہے۔

ہمارے موضوع میں روح کے بعد نفس ہے
نفس کیا ہے؟ اگر ہم قرآن پاک پر غور فرمائیں تو یہ حقیقت افشاں ہو گی کہ انسان کو اللّه نے مٹی سے پیدا فرمایا ہے اور پھر اس میں اپنی روح پھونکی
جب روح اس جسم میں پھونک دی جاتی ہے تو یہ روح نفس کی حالت میں آ جاتی ہے اور ہم جانتے ہیں کہ قرآن پاک نے نفس کی تین حالتیں بیان فرمائی ہیں
نفس اماراه
نفس لوامہ
نفس مطمئنہ
قرآن پاک میں تینوں کا ذکر اس طرح ہے
جس کا مفہوم القرآن میں مفہوم کچھ اس طرح درج ہے
نفس اماره

وَمَآ اُبَرِّئُ نَفْسِيْ ۚ اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَةٌۢ بِالسُّوْۗءِ اِلَّا مَارَحِمَ رَبِّيْ ۭ اِنَّ رَبِّيْ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ(سورة يوسف , آیت 53)

(53) عزیز کی بیوی نے اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے کہا کہ‘ میں اپنے بے گناہ ہونے کا دعویٰ نہیں کرتی۔ میرے نفس نے مجھے بہکا دیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کے حیوانی جذبات اُسے برائی کے لئے اکساتے رہتے ہیں۔ اس سے وہی شخص محفوظ رہ سکتا ہے جس پر خدا رحم کرے۔ وہی‘ اس قسم کی لغزشوں سے محفوظ رکھنے والا اور مرحمت کرنے والا ہے۔

نفس لوامہ

وَلَآ اُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ(سورة
القيامة , آیت 2)

(2) اور اس شخص کو اس پر شاہد ٹھہراتا ہوں جو اپنی غلطی کے احساس سے نادم ہو 1؎ ۔(12 :53) ....کہ خدا کا قانون مکافات ایک حقیقتِ ثابتہ ہے۔ انسان کا ہر عمل ایک نتیجہ برآمد کرتا ہے‘ خواہ وہ اس دنیا میں اس کے سامنے آجائے‘ خواہ مرنے کے بعد۔

نفس مطمئنہ

يٰٓاَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىِٕنَّةُ(سورة الفجر , آیت 27)

(27) اس کے برعکس‘ وہ شخص جس نے قانون خداوندی کے اتباع سے‘ سکونِ گہر کی طرح دل کا صحیح اطمینان حاصل کر لیا ہو گا (13 :28) ۔یعنی جس کی ذات میں‘ صحیح نشوونما سے‘ پور اپور ا توازن پید اہو چکا ہو گا۔

علامہ اقبال نے روح اور جسم کے بارے میں فرمایا ہے کہ
" روح نہ تو جسم کے اندر قید ہے اور نہ اس سے باہر ہے نہ متصل ہے نہ منفعل مگر اس کا جسم کے روئیں روئیں سے تعلق حقیقی ہے۔

علامہ اقبال اپنے خطبات میں روح کے متعلق مزید فرماتے ہیں

" ہم ایک خالص روحانی توانائی کا تصور نہیں کر سکتے ماسواے ایک متعین محسوس عناصر کی ترتیب کے تعلق سے جن کے زریعے وہ خود اپنا اظہار کرتی ہے۔ ہمارے لیے یہی موزوں ہے کہ ہم اس کی روحانی توانائی کی حتمی اساس کے طور پر قبول کر لیں۔"

امام غزالی کے مطابق
خودی(روح)
سادہ
ناقابل تقسیم
ناقابل تغیر ہے

علامہ اقبال نے اپنے ایک شعر میں زندگی اور موت کی وضاحت فرمائی ہے

"زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب

موت کیا ہے انہیں اجزا کا پریشاں ہونا"

اوپر بیان کی گئی وضاحت کے مطابق جسم ایک الگ شے ہے اور روح الگ اور علامہ اقبال نے روح کو ہی خودی یا وجود کا مرکز کہا ہے۔
ہمارا جسم مادے سے بنا ہے اور اس مادے میں ہر آن تغیرات کا ایک سلسلہ جاری ہے اور یہ جسم ہر آن تغیر پذیر ہوتا رہتا ہے۔ جب ہم پیدا ہو کر بڑے ہوتے ہیں تو ہمارے جسم کے تمام خلیات مسلسل تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور ان عناصر کی ترتیب ہی کو زندگی کہتے ہیں جب جسم پر موت آتی ہے تو یہ ترتیب ختم ہو جاتی ہے اور ہمارے خلیات بکھرنا (Decompose) ہونا شروع ہو جاتے ہیں اس کو موت کہتے ہیں اور ہمارا شعور جسم سے معطل ہو جاتا ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ روح پرواز کر جاتی ہے لیکن یہ ایک قیاس آرائی ہے
روح کی ماہیت صرف اور صرف اللّه ہی جانتا ہے۔
جب ہم سو رہے ہوتے ہیں تو اس وقت بھی ہمارا شعور معطل ہو جاتا ہے جب ہم جاگ جاتے ہیں تو ہمارا شعور بحال ہو جاتا ہے یہ سب کچھ اللّه کی حکمت سے ہوتا ہے۔
اگر سونے یا بیہوش ہونے کے بعد جب شعور معطل ہو جاتا ہے تو اگر اس دوران موت آ جائے تو شعور واپس بحال نہیں ہوتا اور ہمارے جسم کے خلیات ٹوٹنا Decompose
ہونا شروع ہو جاتے ہیں جس کا ذکر قرآن پاک میں اس طرح ہے اور علامہ پرویز کے مفہوم القرآن میں اس طرح مذکور ہے

اَللّٰهُ يَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا وَالَّتِيْ لَمْ تَمُتْ فِيْ مَنَامِهَا ۚ فَيُمْسِكُ الَّتِيْ قَضٰى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْاُخْرٰٓى اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّــقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ
(سورة الزمر , آیت 42)

(42) (لیکن اختیار وارادہ بھی تو اُسی کا روبہ عمل آسکتا ہے جو اپنے شعور سے کام لے ۔ شعور کے معطل یا سلب ہوجانے کی حالت میں ‘انسان اپنے اختیار وارادہ سے کام ہی نہیں لے سکتا۔ اس کا مشاہدہ تم اپنی طبیعی زندگی میں ہر روز کرتے ہو۔ مثلاً) نیند کی حالت میں‘ یا موت کی صورت میں‘ انسانی شعور باقی نہیں رہتا.... نیند کے بعد‘ جب انسان بیدارہوجاتا ہے تو اس کا شعور واپس آجاتا ہے۔ (اِس کا مطلب یہ ہے کہ اِس انسان کا شعور کچھ وقت کے لئے معطل ہو گیاتھا)۔ لیکن موت کی صورت میں‘ و شعور‘ اُس کے طبیعی جسم کی طرف لوٹ کر نہیں آتا۔ (یعنی جہاں تک اُس کی اِس دنیا کی زندگی کا تعلق ہے‘ وہ سلب ہوجاتا ہے) ۔ اِن دونوں حالتوں میں‘ جب شعور کا ر فرما نہیں ہوتا‘ انسان اپنے اختیار وارادہ کو کام میں نہیں لا سکتا۔
(یہی شکل انسان کی اخلاقی دنیا میں بھی ہے۔ جب اُس پر اس کے جذبات غالب آجائیں۔ یا اس نے اندھی تقلید کی روش اختیار کررکھی ہو‘ تو اس کا شعور بیکار ہوجاتا ہے۔ اس صورت میں‘ اگروہ ضد اور تعصب سے کام نہیں لیتا‘ تو اس کے شعور کے کارفرما ہونے کا امکان ہوتا ہے جس سے وہ صحیح راستہ اختیار کر لیتا ہے۔ لیکن اگر وہ ضد اورتعصب میں آگے ہی آگے بڑھتا جائے‘ تو اس کی شعوری صلاحیتیں سلب ہوجاتی ہیں اور ان کی بازیابی کا امکان ہی نہیں رہتا۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے متعلق کہا گیا ہے کہ ان کے دلوں پر مہریں لگ جاتی ہیں۔( 2 :7 )۔
ان حقائق میں‘ ان لوگوں کے لئے جو غوروفکر سے کام لیں‘حقیقت تک پہنچنے کی واضح نشانیاں ہیں۔

متذکرہ بالا وضاحت سے اب تک میں نے کوشش کی ہے کے اپنے موضوع روح نفس اور وجود کے مرکز کا قرآن کی روشنی میں احاطہ کر سکوں
اب میں انسانی عقل کے علوم سے کوشش کروں گا کہ آپ لوگوں کو انسانوں کی اب تک تحقیق اور نظریات کے سفر کے بارے میں آگاہ کروں۔
انسانوں کے عقلی علوم میں جو روح نفس کی وضاحت میسر ہے وہ ہم اس ترتیب سے جانیں گے۔
فلسفہ
نفسیات
حیاتیات
سب سے پہلے میں نفس یا ذہن کے بارے میں فلسفہ کے مختلف مفکرین کا ذکر کروں گا جو ہر کوئی اپنا ایک الگ ذہن کے بارے میں نظریہ رکھتا ہے جس کو قاضی قیصر الاسلام نے اپنی کتاب فلسفہ کے مسائل میں کچھ ایسے مذکور کیا۔

*ذہن(نفس) کے مختلف نظریات

ذہن کا ابتدائی قدیم نظریہ
ذہن کا جوہری نظریہ
ذات یا روح کا تجربی نظریہ یا ہیوم(فلاسفر) کا نظریہ روح و ذات
کانٹ(فلاسفر) کا ماورائی نظریہ ذہن یا روح
روح یا ذہن کا معاصر تصوراتی نظریات
ذہن یا روح کا مادی نظریہ
ذہن کا جدید نظریہ
ذہن کا نتائجی نظریہ
فلسفہ میں روح کی لافانیت کا مسلہ

آگے مزید
*جسم اور ذہن کے تعلق کے نظریات کے فلسفہ میں مختلف مکاتب فکر ہیں*

نظریہ تعامل( ڈیکارٹ)
Interactionism
نظریہ موقعتیت
Occasionalism
پیش ثابت ہم آہنگی کا نظریہ
Pre- Established Hormony
نظریہ متوازیت
parallelism
ھمہ نفسیت
Pan- Psychism
تبع مظہریت کا نظریہ
Epiphenomenalism

*آزادی ارادہ کے نظریات*
متذکرہ بالا کی وضاحت یہاں ممکن نہیں اس کے لیے ایک الگ کتابچہ لکھا جا سکتا ہے۔
فلسفہ سے آگے نفسیات میں نفس کی وضاحت اس طرح کی گئی ہے

نفسیات (psychology) بنیادی طور پر رویۓ (behavior) اور عقلی زندگی کے سائنسی مطالعے (scientific study) کو کہا جاتا ہے۔ چونکہ بات یہاں صرف عقل اور اس کے حیاتیاتی افعال انجام دینے کی نہیں بلکہ عقلی زندگی کی ہے یعنی جسمانی اور عقلی کا مجموعہ؛ اس لیے نفسیات کو یوں بھی کہ سکتے ہیں کہ نفسیات دراصل نفس (soul) کے مطالعے کا نام ہے اور اسی لیے اس کو نفسیات کہا جاتا ہے یعنی نفس کا مطالعہ۔ انگریزی میں اس کو psychology کہنے کی وجہ بھی یہی ہے کہ psych تو نفس کو کہتے ہیں اور logy مطالعہ کو اور یہ انکا مرکب لفظ ہے۔انگریز سائنسدان ولیم ہاروے نے سب سے پہلے انگریزی زبان میں لفظ سائیکالوجی کو استعمال کیا۔ (وکیپیڈیا)

نفسیات کے بعد حیاتیات میں انسانی جسم کا مطالعہ کیا جاتا ہے جس کی وضاحت کچھ اس طرح ہے


*انسانی جسم*
*جسم انسانی کی مکمل ساخت*

انسانی جسم انسان کے مکمل جسمانی، عضوی، خلوی اور ذہنی اعضاء کے مجموعے کو کہا جاتا ہے۔ انسانی جسم سر، گردن، دھڑ، دو ہاتھ اور دو ٹانگوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ بلوغت کی عمر کو پہنچنے تک ایک انسانی جسم میں تقریباً دس کھرب خلیات حیاتیاتی اکائی کی صورت میں ہوتے ہیں۔ ان خلیوں کے ٹوٹ پھوٹ کے عمل سے بافت یا نسیج بنتے ہیں جو مل کر ایک عضو بناتے ہیں، عضو آپس میں مل کر نظام اعضاء تشکیل دیتے ہیں۔ (وکی پیڈیا)

انسانی جسم میں کافی نظام ہیں لیکن میں یہاں پر صرف
Endocrine system
کا ذکر کروں گا جس کا تعلق انسانی ارادہ سے ہے سب سے پہلے اس نظام کو سمجھتے ہیں کہ اصل میں یہ نظام کیا ہے

Endocrine system
The body's hormone-producing glands

The endocrine system is a chemical messenger system comprising feedback loops of the hormones released by internal glands of an organism directly into the circulatory system, regulating distant target organs. In vertebrates, the hypothalamus is the neural control center for all endocrine systems. In humans, the major endocrine glands are the thyroid gland and the adrenal glands. The study of the endocrine system and its disorders is known as endocrinology. Endocrinology is a branch of internal medicine.
( Wikipedia)

اس نظام میں جو ہارمونز ہماری شعوری کفیت کی وجہ سے خارج ہوتے ہیں ان کی تفصیل کچھ اس طرح ہے

Dopamine
Produce when feel proud
Serotonin
Produce when mood is good
Oxytocin
Produce when feel love
Melatonin
Produce and help in sleep
Endorphins
Produce during pain
Adrenaline
Produce in kidney gland during adventure mood.
Norepinephrine
Produce in glands when life is in dangerous or thretnig situation.

یہ ہارمونز اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب ہم مختلف کیفیات میں ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ جسم میں ایک nervous system بھی ہے جس میں نیوران جسم کے مختلف حصوں سے پیغامات ہمارے دماغ تک پہنچاتا ہے اور دماغ سے یہ پیغام وجود کے مرکز (نفس) تک پہنچتے ہیں۔

انسان اپنے حواس خمسہ سے بیرونی دنیا کا ادرک کرتا ہے اور اپنے مشاہدات سے جو علم حاصل کرتا ہے اس علم کو ادراکی علم یا
Perceptual knowledge
کہتے ہیں یہ ادراکی علم ہمارے شعور سے لاشعور اور تحت الشعور میں محفوظ ہو جاتا ہے۔ پھر ہم اپنے تصورات میں اس ادراکی علم کی مدد سے نئے نئے تصورات پیدا ہوتے ہیں۔ اس تصوراتی علم کو
Conceptual knowledge
کہتے ہیں۔
اس علم کے بعد ایک علم وجدان کا بھی ہے جس کو علامہ اقبال نے اپنے خطبات میں خاص طور پر اس کا ذکر کیا ہے اور برگساں کا حوالہ دے کر بتایا ہے کہ
"وجدان عقل ہی کی ایک برتر صورت ہے"

*حاصل بحث*
میں نے اپنے موضوع " روح، نفس اور وجود کا مرکز" میں ایک حقیر سے کوشش کی ہے کہ انسانوں کے عقلی علوم اور قرآن حکیم کی روشنی میں آپ کو روح اور نفس کے فلسفہ کے بارے میں سمجھا سکوں ۔
میں وحی قرآن حکیم کو انسانی عقل کے علوم پر فوقیت دیتا ہوں۔ قرآن پاک کے تمام قضیے صادق ہیں۔ اگر ہم روح اور نفس کو قرآن کی روشنی میں سمجھیں گے تو ہم روح اور نفس کی حقیقت کے قریب ہو جائیں گے۔

علامہ اقبال کا فلسفہ خودی بھی اس اس موضوع کی وضاحت کی ترجمانی کرتا ہے۔ قرآن حکیم کے علم کے مطابق جب روح جسم سے الگ تھی تو قرآن نے اس کو روح کہا ہے جب یہ روح جسم میں پھونک دی گئی تو قرآن نے اس کو نفس کہا ہے۔ جب جسم پر موت آتی ہے تو ہمارا شعور معطل ہو جاتا ہے اور جسم کے خلیات ٹوٹنا شروع ہو جاتے ہیں تو اس وقت اس کو نفس نہیں کہیں گے بلکہ قرآن حکیم یہ بتاتا ہے کہ روح برزخ میں ہوتی ہے نہ کہ نفس برزخ میں ہوتا ہے۔
اسی روح یا نفس کو علامہ اقبال خودی یا وجود کا مرکز کہا ہے۔ موت صرف جسم پر آتی ہے اور نفس یہ ذائقہ چختی ہے۔ روح جب جسم میں ہوتی ہے تو جسم میں ہونے والے تغیرات کا ذائقہ نفس چکھتا رہتا ہے اور اسی طرح جب جسم پر موت آتی ہے تو نفس اس کا ذائقہ چکھ لیتا ہے اور جسم سے رابطہ معطل ہو جاتا ہے۔


*کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَتُہ المَوت*

آخر میں امید کرتا ہوں کہ روح، نفس اور وجود کا مرکز کے موضوع جو میں نے جو لکھا یہ میری ایک حقیر سی کاوش ہے۔ اللّه ہم سب کو حقیقت مطلقہ سے آشنا کرے۔ آمین!

اللّه ہم سب کا حامی و ناصر هو!

واسلام،

عبدالباسط
ایم اے فلسفہ
 

Abdul Basit
About the Author: Abdul Basit Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.