دنیا کی دوسری بڑی معیشت کی حیثیت سے چین کی معاشی
پالیسیاں عالمی سطح پر بھی نمایاں اہمیت رکھتی ہیں۔چین کی زبردست معاشی
منصوبہ سازی کے ثمرات وبائی صورتحال میں مزید عیاں ہوئے ہیں ، جب پوری دنیا
میں بدترین کساد بازاری اور اقتصادی گراوٹ دیکھی گئی وہاں چین مثبت شرح نمو
کی حامل واحد بڑی معیشت بن کر ابھرا ہے۔ چین کی جی ڈی پی کی مجموعی مالیت
تاریخ میں پہلی مرتبہ 100ٹریلین یوان کی حد پار کرچکی ہے جو اقتصادی میدان
میں چین کی کامیابیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
ملکی معاشی ترقی کو برقرار رکھنے کے لیے چین "دوہری گردش" پر مبنی ترقیاتی
نمونے پر توجہ مرکوز کر رہا ہے ، جسے آئندہ پانچ سے پندرہ سالوں میں چین کی
معاشی ترقیاتی سمت کو برقرار رکھنے میں نمایاں اہمیت حاصل رہے گی۔یہ ایک
ایسا خاکہ ہے جو عالمی کساد بازاری اور وبائی اثرات کو ممکنہ حد تک کم کرنے
میں انتہائی معاون ثابت ہو گا۔مئی 2020 میں چینی قیادت نے پہلی مرتبہ
"دوہری گردش" کے ایک نئے ترقیاتی ماڈل کا تصور پیش کیا جس میں قومی اور بین
الاقوامی سطح پر مارکیٹس ایک دوسرے کو طاقت فراہم کرتی ہیں جبکہ مقامی
مارکیٹ کی ترقی اس کی بنیاد ہے۔نئے ترقیاتی نمونے کی تعمیر کی کلید غیر
متوقع معاشی گردش اور مربوط صنعتی ترقی ہے۔چین میں ملکی سطح پر بنیادی" طلب
رسد سسٹم" تخلیقی صلاحیت اور روابط کو بڑھا رہا ہے ، ترقی کے عمل میں مختلف
رکاوٹوں کو دور کررہا ہے اور قومی معیشت کی گردش کو ہموار کررہا ہے۔وبائی
صورتحال کے تناظر میں یہ نیا ترقیاتی نمونہ ملک کی ترقیاتی صورتحال میں
رونما ہونے والی تبدیلیوں اور طویل المدتی اعلیٰ معیار کی نمو کے لیے ایک
فعال پالیسی انتخاب ہے۔
چین کی دور اندیش قیادت نے 2008 کے عالمی مالیاتی بحران کے بعد سے ملکی سطح
پر طلب اور رسد کی ساختی اصلاحات کو فروغ دیا اور مربوط حکمت عملیوں کو آگے
بڑھایا گیا ہے۔عالمی تناظر میں اس وقت تحفظ پسندی اور عالمگیریت مخالف
رجحان عروج پر ہے ۔اس صورتحال میں چین کے نئے ترقیاتی نمونے کے لئے بنیادی
محرک عناصر ایک ارب چالیس کروڑ کی بڑی ملکی منڈی اور سستی افرادی قوت
ہے۔چین کا ملکی مارکیٹ پر توجہ مرکوز کرنا ایک فطری انتخاب ہے کیونکہ چین
کی فی کس جی ڈی پی 10،000 امریکی ڈالر سے زیادہ ہے جبکہ متوسط آمدنی کی
حامل آبادی 400 ملین سے زائد ہے ، جس سے ملکی سطح پر وسیع مواقع پیدا ہوتے
ہیں۔
یہاں اس حقیقت کو بھی سمجھنا لازم ہے کہ چین کی جانب سے ملکی منڈی کو مضبوط
بنانے کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ اس سے بیرونی منڈیاں متاثر ہوں گی یا اُن
کے لیے مواقعوں میں کمی واقع ہو گی ۔درحقیقت چین کھلے پن پر قائم ہے اور
بیرونی منڈیوں کو بھی ترقی کے سفر میں ہمیشہ ساتھ لے کر چلا ہے۔چین بیرونی
منڈیوں کے لیے اپنے دروازے مزید کھولتے ہوئے اپنی معیشت کو ترقی دے رہا ہے۔
ملکی اور غیر ملکی دونوں منڈیوں کی مضبوط اور پائیدار ترقی ،چین کی معاشی
پالیسی سازی کا اہم نکتہ ہے۔
چین کی جانب سے کھلے پن کو مزید فروغ دینے کے لیے عملی اقدامات کا جائزہ
لیا جائے تو گذشتہ سال کووڈ ۔19 کے اثرات کے باوجود ، چین نے تین نئے پائلٹ
فری ٹریڈ زونز سے دنیا کے لیے اپنی مارکیٹ کے دروازے مزید کھولے ہیں۔ چین
نے نومبر 2020 میں علاقائی جامع اقتصادی شراکت داری معاہدے پر دستخط کیے ،
جس سے تاریخی اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا آزاد تجارتی بلاک تشکیل دیا گیا
ہے۔
چین آئندہ پانچ سالوں میں با سہولت تجارت اور سرمایہ کاری کے لیے کوشاں
ہے۔اس مقصد کی خاطر ایک ایسے ادارہ جاتی کھلے پن کو مستحکم کیا جائے گا جو
موئثر گورننس پر مبنی ہو ، شفاف ریگولیٹری ماڈل اور سازگار کاروباری ماحول
کی حوصلہ افزائی کرئے اور بین الاقوامی اصولوں کے ساتھ بہتر طور پر مطابقت
رکھتا ہو۔ گذشتہ 40 سالوں میں چین کی معاشی ترقی نے ملک کو ایک نئی ترقیاتی
راہ پر گامزن کرنے کے لیے مضبوط بنیاد فراہم کی ہے۔
چین کے پاس دنیا کا سب سے جامع صنعتی نظام موجود ہے ، صارفی اشیاء کی خرید
و فروخت اور درآمدات و برآمدات کے لحاظ سے چین دنیا میں نمایاں ترین درجے
پر فائز ہے۔ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال چین کی کاروباری
سہولت کی درجہ بندی میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور یہ ان 10 معیشتوں میں شامل
ہے جنہوں نے اصلاحات کے نفاز سے کاروبار کرنے کے عمل میں سہولیات فراہم کی
ہیں ۔چین اس وقت ٹیکنالوجی کا بھی مرکز ہے جس سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ
کاروبار کو جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرتے ہوئے آسان بنایا جائے گا اور
آنے والے وقت میں مزید بیرونی کمپنیاں چین کی بڑی منڈی اور سازگار کاروباری
ماحول سے فائدہ اٹھا سکیں گی۔
|