بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
اسلامی علم و دانش کو عقلی تناظر جہاں بیرونی خطرات جیسے کیپٹل ازم،
سوشلزم،سیکولرزم اور لبرلزم جیسے ملحدانہ نظریات سے لاحق ہے تو دوسری طرف
اندرونی خطرات جیسے غالیت، صوفیت، نصیریت، وہابیت سے بھی ہے۔ بیرونی خطرات
میں ایک خطرہ وہ مذاہب بھی ہیں جو روحانی اور نفسانی ریاضتوں کے تناظر میں
صوفیت سے مشابہ ہیں جیسے ہندوازم، بدھ ازم، شنٹو ازم، زرتشت ازم وغیرہ
البتہ وسیع معنوں میں کوئی خطرہ نہیں ہے۔ کیوں کہ عقل ومنطق نیز فطری
احساسات پر مبنی رسوم اور ثقافتی و روحانی اعمال انسان کو خود اس کے باطن
(عقل و قلب) سے اپیل کرتے ہیں۔ لہذا انسانی ضمیر وہ سب سے بڑی کسوٹی ہے جس
کو دنیا اور تاریخ کا ہر انسان قبول کرتا ہے۔ لہذا وہ فطری عقائد اور اعمال
ریاضتیں جو فطرت سے اپیل ہوں۔ کبھی کسی خطرے سے دوچار نہیں ہوسکتے ہاں کچھ
عرصے کیلئے ذاتی کوتاہیوں، بداعمالیوں اور بےوقوفیوں نیز دشمنان حق و حقیقت
کی سازشوں کے سبب پردے میں جاسکتی ہیں، معدوم نہیں ہوسکتیں۔ ہر دور میں کچھ
حق شناس افراد ہوتے ہیں جو حق و حقیقت پر پڑا پردہ ہٹا دیتے ہیں اور کرہ
زمین اس سے ضوفشاں ہوجاتا ہے۔ البتہ نہ تو بالکل ہی بے اعتنائی برتی جانی
چاہیے اور نہ ہی حد سے زیادہ جذباتیت ہونی چاہیے کیونکہ یہ دونوں افراط و
تفریط کے زمرے میں آتی ہیں جو کامیابی اور کمال کے حصول میں رکاوٹ ہوتی
ہیں۔ یہ سسٹم کا حصہ ہے اور سسٹم کی رفتار سے نہ تو پیچھے رہنا چاہیے اور
نہ ہی آگے بڑھنا چاہیے۔ اس لئے کہ حق و حقیقت کسی کے نہ تو آگے نکلنے سے
اور نہ کسی کے پیچھے رہ جانے سے اپنی رفتار تبدیل کرے گی اور نہ فنا کرے
گی۔ حق کے ساتھ باطل کی موجودگی ایک فطری امر ہے البتہ حق کے غلبہ کیلئے
مناسب رفتار جس کے ساتھ صبر و انتظار ہو نہایت ضروری ہے۔ نہ جبر و اکراہ ہو
نہ ہی آرام طلبی و عیش کوشی و لاپرواہی۔۔۔۔قرآن کریم کے مطابق اس کی آیتوں
کی حفاظت کی ذمہ داری خداوند کریم نے خود لی ہوئی ہے۔۔۔ اور کائنات بھی
قران کریم کی مماثلت قوانین کے تحت خدا کی حفاظت میں ہے، خواہ سماجی قوانین
ہوں، خواہ سیاسی و معاشی یا الہٰی تہذیب و تمدن وغیرہ۔۔۔۔ ان سب کی ذمہ
داری خداوند قدوس نے ہر دور میں الہٰی نمائندے کے وسیلے لی ہوئی ہے۔۔۔۔
الہٰی جتھے الہٰی رہبران ہر دور میں دین و شریعت ، قانون اور تہذیب کو ترو
تازہ رکھتے ہیں۔۔۔۔بس اپنی استطاعت کے مطابق ذمہ داری ادا کرتے رہیں |