نوجوانوں کی فکری رہنمائی کیسے کی جائے؟

ثوبیہ احمد،کراچی
نوجوانوں کے ذہنوں میں پرورش پانے والے رجحانات اور باغیانہ روئیے کا خاتمہ کرنے کے لیے سب سے پہلے تو ان کے معاشی مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سے پہلے کہ ان کے ذہنی خلشار سے فائدہ اٹھا کر مفاد پرست اور سماج دشمن عناصر انہیں اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کریں، حکومتی سطح پر ان کو روزگار کی فراہمی کے لیے جامع منصوبہ بندی کرنی چاہئے۔ذہنی یکسوئی کے لیے غیر نصابی سرگرمیوں کی ضرورت ہوتی ہے، نوجوانوں نے خود کو موبائل فون ، نیٹ اور سوشل میڈیا تک محدود کرلیا ہے۔نیٹ کا استعمال اگر مثبت طور سے کیا جائے تو اس میں دنیا کے بارے میں معلومات کا خزانہ موجود ہے، لیکن منفی استعمال اخلاق و کردار کی تباہی کے راستے پر لے جاتا ہے۔

ماں کی گودبچے کی اصل تربیت گاہ ہوتی ہے۔ والدین بچوں کو اچھی باتیں سکھائیں، بزرگوں کا ادب و احترام کرنے کی تلقین کریں۔ بزرگوں کے تجربات و مشاہدات کسی خزانے سے کم نہیں۔جنرشن گیپ کا خاتمہ بہت ضروری ہے تاکہ نسل نو بزرگوں کے درمیان حائل فاصلے ختم ہوں اور وہ ایک دوسرے کے قریب آسکیں۔ نوجوان زندگی کے ہر معاملے میں اپنے بزرگوں سے مشاورت کرکیرہنمائی حاصل کریں، انہیں اپنے معاملات میں شامل رکھیں اور ان کے مشوروں کو فوقیت دیں۔

اس طرح بزرگوں کو اپنی اہمیت کا بھی احساس ہو گا۔ اخلاق و کردار کی تعمیر کا بہترین زمانہ بچپن کا ہوتا ہے ، جب بچہ ایک نازک شاخ کی مانند ہوتا ہے کہ اسے جس طرف موڑنا چاہو مڑ جاتی ہے۔یہی وہ عمر ہوتی ہے جس میں جسمانی نشو و نما کے ساتھ ساتھ کردار کی بھی نشو ونما ہوتی ہے۔اگر اس دور میں اولادکی صحیح تربیت نہ کی جائے تو وہ مستقبل میں والدین کی کوتاہی بڑا ہونے پر ایک ناکام انسان ہوتے ہیں۔اسلام میں حسن اخلاق کی بڑی اہمیت ہے۔ اخلاق حسنہ کو نیکی اور بھلائی کا درجہ حاصل ہے۔ انسان کے اخلاق سے ہی اس کی شخصیت کا پتہ چلتا ہے۔ اس کا اٹھنا، بیٹھنا، بول چال، پہننا اوڑھنا، کھانا پینا اس کے اخلاق و تہذیب کی ترجمانی کرتا ہے۔

اچھے اخلاق کا مالک اور معاشرے میں ایک کامیاب انسان کے طور پر سامنے آتا ہے۔ باکردار، بااخلاق اور بہتر تعلیم و تربیت سے آراستہ نوجوان ہی ملک و ملت کا سرمایہ ہوتے ہیں اور ملکی ترقی میں ہراول دستے کا کردار ادا کرتے ہیں۔انہیں سماجی و معاشی تحفظ فراہم کیا جائے اور سماج کے غلط رویوں کے خلاف جدوجہد کرنے کے لیے پلیٹ فارم مہا کیے جائیں۔ یہ کام حکومتی ادارے سماجی تنظیموں کے تعاون سے کرسکتے ہیں۔انسان کی سب سے بڑی قوت، قوت برداشت ہے۔

جس انسان میں تکالیف اور مصائب کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے وہ دنیا میں ہمیشہ کامیاب زندگی بسر کرتا ہے۔ صبر و تحمل انسان کاسب سے بڑا ہتھیار ہے۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوان نسل تمام شعبہ ہائے حیات میں صبر و تحمل اور حسن اخلاق کو بروئے کار لائیں تاکہ ان کے ساتھی بھی ان کے کاموں میں ہنسی خوشی ان کی معاونت کریں۔


 

Imran Afridi
About the Author: Imran Afridi Read More Articles by Imran Afridi: 13 Articles with 12377 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.