سَفرِ مُوسٰی و مُلاقاتِ مردِ بزرگ { 1 }
(Babar Alyas , Chichawatni)
#العلمAlilm علمُ الکتاب ((( سُورةُالکہف ،
اٰیت 60 ))) ازقلم مولانا اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیت و مفہومِ اٰیت !!
و
اذ قال موسٰی
لفتٰہ لا ابرح حتٰی
ابلغ مجمع البحرین
او امضی حقبا 60
تاریخِ رَفتہ کے واقعاتِ رَفتہ میں تاریخ کا وہ واقعہِ رَفتہ بھی ایک قابلِ
ذکر واقعہ ھے جب مُوسٰی نبی اپنے ایک نوجوان ساتھی کے ساتھ ایک طویل
دورانیۓ کے سفر میں مَحوِ سفر تھے کہ اُن کے اُس نوجوان ساتھی نے اِس طویل
سفر کی طوالت سے تَھک ہار کر کُچھ دیر کے لیۓ سَستانے اور تازہ دَم ہونے کی
خواہش ظاہر کی تو مُوسٰی نے اُس کو سَستانے کی اجازت دینے کے بجاۓ اپنے اِس
عزم کا اظہار کیا کہ مَیں تو دَم لیۓ بغیر دو دریاؤں کے اُس سنگم تک مُسلسل
چلتا رہوں گا جس تک مُجھے جانا ھے اور اگر مُجھے اُس سنگم تک پُہنچنے میں
برس ہا برس بھی چلنا پڑے تو میں پھر بھی چلتا رہوں گا !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
سفرِ مُوسٰی و مُلاقاتِ مردِ بزرگ سُورةُالکہف میں بیان ہونے والے پانچ
واقعات میں سے چوتھا تاریخی واقعہ ھے لیکن اِس واقعے کا آغاز اپنے مقامِ
آغاز کے بجاۓ وسطِ سفر کے اُس مقام سے ہوا ھے جہاں پر اُن کے نوجوان رفیقِ
سفر نے اُن سے تَھک کر کُچھ دیر سَستانے کی درخواست کی ھے جس کو سُن کر
اُنہوں نے اِس عزم کا اظہار کیا ھے کہ میں تو دَم لیۓ بغیر دو دریاؤں کے
اُس سنگم تک چلتا رہوں گا جس تک مُجھے پُہنچنا ھے ، چاھے وہاں پُہنچنے تک
مُجھے برس ہا برس تک ہی کیوں نہ چلنا پڑے ، قُرآنِ کریم کے اِس بیان سے ایک
بات تو یہ معلوم ہوتی ھے کہ قُرآنِ کریم نے مُوسٰی علیہ السلام کے جس سفر
کا ذکر کیا ھے اُس سفر کا آغاز اِس مقام سے پہلے شروع ہو چکا تھا جس مقام
سے قُرآنِ کریم نے اِس سفر کو موضوعِ بحث بنایا ھے اور قُرآنِ کریم کے اِس
بیان سے جو دُوسری بات معلوم ہوتی ھے وہ یہ ھے کہ قُرآنِ کریم نے مُوسٰی
علیہ السلام کے اِس سفر کو ایک نقلِ واقعہ کے طور پر نقل کیا ھے ایک اَمرِ
واقعہ کے طور پر بیان نہیں کیا ھے اور اسی بنا پر قُرآنِ کریم نے اِس سفر
کی غیر ضروری تفصیلات کو چھوڑ کر اِس سفر کے اُس مقام سے اِس کا ذکر شروع
کیا ھے جہاں سے اِس سفر کے نتائجِ سفر کا آغاز ہوا ھے اور تیسری بات جو
مُوسٰی علیہ السلام کے اِس جواب سے یقین کے ساتھ معلوم ہوتی ھے وہ یہ ھے کہ
مُوسٰی علیہ السلام کی منزلِ مقصود دو دریاؤں کا وہ مقامِ اتصال تھا جس کو
قُرآنِ کریم نے"مجمع البحرین" کہا ھے اور جو کسی جگہ کا نام نہیں ھے بلکہ
صرف دو دریاؤں کا ایک مقامِ اتصال ھے اور جس زمانے کے حوالے سے یہ واقعہ
بیان کیا جا رہا ھے اُس زمانے میں "مجمع البحرین" کا ایک مقام "باب المندب"
تھا جہاں پر بحرِ احمر اور بحرِ ہند باہَم ملتے تھے ، دُوسرا مقام "دَرہ
دانیال" تھا جہاں پر بحیرہِ رُوم اور بحیرہِ مامُورہ ایک دُوسرے کے ساتھ
ملتے تھے اور تیسرا مقام "البحرین" تھا جو خلیجِ فارس اور بحرِ ہند کا مقامِ
اتصال تھا اور اُس زمانے میں یہ تینوں مقامات اُن تمام مقامات سے کم و بیش
ایک ایک ہزار میل کے فاصلے پر تھے جن مقامات پر مُوسٰی علیہ السلام عُمر
بھر رھے ہیں یا پھر جن جن مقامات پر مُوسٰی علیہ السلام کبھی آۓ ہیں یا گۓ
ہیں تاہَم اُس زمانے میں مُوسٰی علیہ السلام کے رہائشی علاقے سے دو دریاؤں
کا جو مقامِ اتصال قریب تر تھا وہ دَرہِ دانیال کا مقام تھا لیکن مُوسٰی
علیہ السلام کا سنِ ولادت چونکہ 1571 قبل مسیح اور مقامِ ولادت مصر ھے اور
40 برس تک آپ مصر ہی میں رھے ہیں اور عُمر کے 40 برس پُورے ہونے کے بعد
1531 - 1491 قبل مسیح تک کا زمانہ آپ نے مدین میں شعیبِ مدین کی نگرانی میں
گزارا ھے اور 1491 میں جب آپ مصر سے بنی اسرائیل کو لے کر نکلے تھے تو اُس
ہجرت کے بعد آپ نے 1491 - 1454 تک کا سارا زمانہ صحراۓ تیہہ میں بنی
اسرائیل کے ساتھ گزار ھے اور اِس سارے عرصے میں آپ نے بنی اسرائیل سے الگ
ہو کر صرف 40 روز ہی دامنِ طُور میں گزارے ہیں ، ان چالیس دنوں سے پہلے یا
اِن چالیس دنوں کے بعد آپ نے کبھی بھی کسی "مجمع البحرین" کا کوئی سفر نہیں
کیا ھے ، یہی وجہ ھے کہ بعض مُسلم اہلِ روایت نے اِس واقعے کے بارے میں یہ
خیال بھی ظاہر کیا ھے کہ قُرآنِ کریم نے سُورہِ کہف کے اِس مقام پر جس
مُوسٰی کا ذکر کیا ھے اُس سے قُرآنِ کریم کی بنی اسرائیل کی طرف بہیجھے
جانے والے موسٰی نبی مُراد نہیں ہیں بلکہ یہ کوئی اور مُوسٰی ہیں جو نبی
نہیں ہیں لیکن یہ بات قُرآن کی شان سے ایک بعید تر بات ھے کہ وہ ایک
نامعلوم مُوسٰی کا اِس طرح پر ذکر کرے کہ ایک انسان آسانی کے ساتھ معلوم
مُوسٰی اور نامعلوم مُوسٰی کے درمیان کوئی فرق ہی قائم نہ کر سکے ، کیونکہ
قُرآنِ کریم کے بیان کا مقصد انسان کے ذہن کو اُلجھانا نہیں ھے بلکہ انسان
کے اُلجھے ہوۓ ذہن کو صحیح سمت پر لانا ھے !!
|
|