زیب داستاں
ڈاکٹر لبنیٰ ظہیر
آئی۔اے۔رحمان اور ضیا شاہد بھی رخصت ہو گئے ۔آج کرونا کی تیسری لہر نے
قیامت بپا کر رکھی ہے۔ ناقص حکمت عملی کے باعث یہ لہر اب ایک بپھری ہوئی
آندھی کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ اس آندھی کی زد میں آنے والے درخت گرتے چلے
جا رہے ہیں۔ ان کی کوئی گنتی ممکن ہے نہ شمار۔ ہر روز کسی نہ کسی کے دنیا
سے گزر جانے کی خبر ملتی ہے۔ عزیزوں ، رشتہ داروں، جان پہچان کے لوگوں اور
معروف شخصیات میں سے ہر روز کوئی نہ کوئی اس جہان سے گزر جاتا ہے جہاں سے
ہم سب نے ایک نہ ایک دن گزر جانا ہے۔ وبا کے دنوں میں ہر موت، وبا کے کھاتے
ہی میں ڈال دی جاتی ہے جس کا سبب چاہے کچھ بھی ہو۔ ضیا شاہد اور آئی ۔ اے
۔رحمان بھی کرونا کی زد میں نہیں آئے لیکن یہ افسوس ناک خبریں سننے والے کا
پہلا دھیان ، اس موذی وبا ہی کی طرف گیا۔
صحافتی افکار و نظریات سے قطع نظر، ضیا شاہد پاکستان کی صحافت کا ایک معروف
نام تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی محنت اور مشقت سے بنائی۔ ان کا کمال یہ تھا
کہ مشکل تریں حالات میں بھی کسی اخبار کی بنیاد ڈالی تو اسے چلا کر دکھایا۔
" روزنامہ پاکستان" اور " روزنامہ خبریں" اس کی مثالیں ہیں۔ انہوں نے خبریں
اخبار کو، روایت سے ہٹ کر عوامی رنگ دیا، عوامی مسائل کو اجاگر کیا اور
لوگوں کی آواز اونچے ایوانوں تک پہنچائی۔ بہت کم وسائل سے انہوں نے ٹی۔وی
چینل بھی بنایا۔ ان کا شمار اچھے ایڈیٹروں میں ہوتا تھا۔ صحافت کے شعبے میں
ان کے بیسوں تربیت یافتہ صحافی موجود ہیں۔ ان کے ساتھ کام کرنے والے صحافی
بتاتے ہیں کہ وہ ایک سخت گیر، لیکن بہت اچھے استاد تھے۔ اﷲ پاک ان کی
لغزشوں سے صرف نظر فرمائے اور انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ عنایت فرمائے۔
آمین۔
معروف صحافی اور انسانی حقوق کے علم بردار آئی ۔اے۔رحمان بھی ہم میں نہیں
رہے۔ ان کی رخصتی کیساتھ ہی پاکستانی صحافت کا ایک روشن باب بند ہو گیا ہے۔
حقوق انسانی کے لئے بلند ہونے والی ایک نہایت توانا آواز خاموش ہو گئی ہے۔
سچ یہ ہے کہ آئی۔اے۔رحمان جیسے لوگ اس جہان فانی سے رخصت تو ہو سکتے ہیں،
مر نہیں سکتے۔ہمارے ہاں روایت ہے کہ کم وبیش ہر بڑی اور نامور شخصیت کی
وفات پر ہم یہ رسمی جملہ دہراتے ہیں کہ اس شخصیت کا خلا کبھی پر نہیں ہو
گا۔ ر حمان صاحب پر یہ جملہ واقعتا صادق آتا ہے۔ ان کی کمی تادیر محسوس کی
جائے گی۔مدتوں تلک ان کا خلا پر نہیں ہو سکے گا۔ آپ کا تعلق اسی قافلے اور
قبیلے سے تھا ، جس سے عاصمہ جہانگیر وابستہ تھیں۔سنتے ہیں کہ ہر دور آمریت
میں آئی۔اے۔رحمان آمروں کیخلاف لکھتے اوربولتے رہے۔ اپنے جمہوری اور آئینی
نظریات کی وجہ سے جیلیں بھگتتے رہے۔ 1987 میں ، ہیومن رائٹس کمیشن آف
پاکستان کی بنیاد پڑی تو عاصمہ جہانگیر اور دیگر شخصیات کیساتھ
آئی۔اے۔رحمان بھی اس کار خیر میں پیش پیش تھے۔ سچ یہ ہے کہ ابھی تک ہم
عاصمہ جہانگیر کی کمی کو بھی محسوس کرتے ہیں۔ کچھ برسوں سے پاکستان کی
سیاست، صحافت اور جمہوریت پر جو افتاد ٹوٹی ہوئی ہے، اس میں اکثرو بیشتر
عاصمہ جہانگیر کی یاد ستاتی ہے۔ سماج میں دن بدن گھٹن بڑھتی جا رہی ہے۔
صحافت بانجھ ہو چکی ہے۔ جمہوری اور آئینی افکار کی حامل آوازیں مدھم اور
معدوم ہوتی جا رہی ہیں۔ ایسے میں اب آئی۔ اے۔رحمان کی آواز خاموش ہو جانے
سے اس ویرانی میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔
رحمان صاحب سے میری کچھ ذیادہ میل ملاقات نہیں تھی۔ کئی برسوں میں یہی کوئی
نصف درجن ملاقاتیں رہی ہوں گی۔وہ بھی کسی ٹیلی ویژن پروگرام ، یا کسی
صحافتی یا علمی بیٹھک میں ۔ روز اول سے تاثر میرا یہ تھا کہ وہ تصویر اور
تشہیر سے بے نیازی کی حد تک گریز اں رہتے ہیں ۔ غالبا یہی وجہ ہے کہ ٹیلی
ویژن پروگراموں میں بھی شاذ و نادر ہی دکھائی دیتے۔ سیمیناروں اور دیگر
علمی نشستوں میں وہ نسبتا زیادہ نظر آیا کرتے۔ دھیمے لہجے میں تلخ حقائق
کہہ ڈالتے۔ بغیر کسی خوف کے اپنی بات پر ڈٹے رہتے ۔سال بھر پہلے ان کیساتھ
ہونے والی آخری ملاقات اور انکی نصیحت مجھے ہمیشہ یاد رہے گی۔ یہ لاہور میں
ہونے والی ایک علمی نشست کا قصہ ہے۔آئی ۔اے۔رحمان کیساتھ وجاہت مسعود بھی
موجود تھے۔رحمان صاحب نے جمہوریت اور آزادی صحافت کی اہمیت پر نہایت عمدہ
گفتگو کی تھی۔ وجاہت صاحب نے اپنے مخصوس انداز میں آزادی صحافت کا نوحہ
پڑھا تھا ۔ مائیک میرے ہاتھ لگا تو میں نے عرض کیا کہ آپ نہایت سینئر
شخصیات ہیں۔ ہمارے استاد ہیں۔ آپ کو سن کر اور پڑھ کر مجھ جیسوں نے چند حرف
لکھنا بولنا سیکھے ہیں۔ لیکن مجھے معاف کیجئے ، یہ تقاریر سن کر اب ہماری
تسلی نہیں ہوتی۔ مجھ سمیت ہر ایک کو معلوم ہے کہ صحافت مشکلات کا شکار ہے۔
صحافت ہی نہیں ، ہر طرز کے ابلاغ کو مشکلات درپیش ہیں۔ آج کل ہر مجلس اور
محفل میں گفتگو کرتے ہم انتہائی سہمے رہتے ہیں۔ بقول نو ر الہدیٰ شاہ ، خوف
ہماری جیبوں میں ڈال دیا گیا ہے۔
میں نے اس زمانے میں سفر نامے لکھنا شروع کر رکھے تھے۔ عرض کیا کہ میں
سیاسی تجزیہ لکھا کرتی تھی، مگر آج کل طوطے مینا کی کہانیاں (سفر نامے)
لکھنے لگی ہوں۔ اخبار میں لکھ نہیں سکتے۔ ٹیلی ویژن پر بول نہیں سکتے۔
یونیورسٹی کے کمرہ جماعت میں بات کرتے ہوئے بھی محتاط رہنا پڑتا ہے۔پہلے
مذہب پر بات کرنا منع تھا۔ آج کل جمہوریت اور آئین پاکستان پر بات کرنے پر
بھی پابندی ہے۔آپ جیسے سینئر ہمیں یہ بتائیں کہ اس ساری صورتحال میں ہم کیا
کریں؟ کوئی حل تجویز کریں۔ مجھے یاد ہے رحمان صاحب نے تحمل سے یہ باتیں
سنیں۔ پھر طویل جواب دیا۔ لب لباب ان کی گفتگو کا یہ تھا کہ ہم نے مارشل
لاء ادوار بھی دیکھے ہیں۔ مگر چند برس سے اظہار رائے کی آزادی واقعتا بہت
زیادہ سکڑ(Shrink)گئی ہے۔ کہنے لگے کہ ایسی صورتحال میں خاموش اور لاتعلق
ہو کر بیٹھ رہنا ٹھیک عمل نہیں۔ آپ دس باتیں نہیں لکھ بول سکتے تو نہ سہی،
جتنی باتیں کہہ سکتے ہیں وہ ضرور کہہ ڈالیں۔ کہنے لگے کہ ہم نے فوجی آمروں
کا دور بھی دیکھا ہے۔طریقہ کار ہمار ا یہ تھا کہ ہم اپنی بات کہہ دیتے اور
پھر رد عمل دیکھ کر اگلا قدم اٹھاتے۔لہذا دو قدم آگے، کبھی ایک قدم پیچھے۔
یہی ہماری حکمت عملی تھی۔
مجھے یاد ہے اس دن ان کی طبیعت کچھ ناساز تھی۔ وہ تاخیر سے آئے تھے۔ اور
اپنی گفتگو کے فورا بعد حاضرین محفل سے معذرت کر کے گھر جانے کیلئے اٹھ
کھڑے ہوئے۔ عامر رانا صاحب بصد احترام انہیں دروازے تک چھوڑنے گئے۔ دروازے
تک پہنچ کر رحمان صاحب واپس پلٹے اور میری نشست کی طرف چلے آئے۔ چند منٹ رک
کر مجھے کچھ نصیحتیں کیں۔کہنے لگے کہ بے شک آپ طوطے مینا کی کہانیاں لکھنا
جاری رکھیں، مگر اصل بات کہنا مت چھوڑیں۔ اپنے جمہوری اور آئینی نظریات پر
قا ئم رہیں۔ خوف اور ڈر کسی مسئلے کا حل نہیں۔حکمت عملی یہی ہونی چاہیے جو
میں نے بتائی ہے۔ اپنی بات کہہ کر سامنے والے کا ردعمل دیکھیں۔ سخت ردعمل
آئے تو کچھ دیر کو ٹھہر جائیں۔ایک قدم پیچھے کر لیں۔ اسکے بعد پھر قدم قدم
چلتی رہیں۔ مگر اپنے خیالات کا اظہار کرنا کبھی ترک مت کریں۔ جوابامیں نے
عرض کیا کہ انشااﷲ اس اچھی نصیحت پر عمل کرنے کی کوشش کروں گی۔
آئی ۔اے۔رحمان تو اب اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے۔ نجانے اب ان کے نظریاتی
پیروکاروں کو علمی اور فکری راہنمائی کہاں سے فراہم ہو گی؟ سینکڑوں ،
ہزاروں لوگوں کو انہیں دیکھ کر حق سچ کیلئے آواز بلند کرنے کا حوصلہ ملتا
تھا، نجانے اب وہ لوگ یہ حوصلہ کہاں سے حاصل کریں گے۔ دعا ہے کہ اﷲ پاک
آئی۔اے۔رحمان صاحب کی مغفرت فرمائے۔ ان کے درجات بلند فرمائے۔ پیچھے رہ
جانے والوں کو توفیق اور طاقت عطا فرمائے کہ وہ ان کے افکار و نظریات کی
ترویج کر سکیں ۔ آمین۔
|