ملک میں تشدد کا ذمہ دار کون؟

فطرت اور ماحول یا نیچر اور نرچر ماہرین نفسیات کا ایک بڑا اور دلچسپ موضوع ہے۔ ماہرین نفسیات کے درمیان یہ جاننے کے لیے ابھی تک اتفاق رائے قائم نہیں ہو سکا کہ ایا فطرت اور ماحول میں سے انسانی مزاج اور رویوں پر کس کا زیادہ عمل دخل ہے لیکن فلسفہ ری انفورسمنٹ پر اتفاق ہے یعنی یہ کہ جس مزاج فکر اور رویے کی حوصلہ افزائی کی جائے گی وہ مضبوط ہو گا۔ اس پر بھی اتفاق ہے کہ انسان کی کچھ خصوصیات فطری ہیں اور کچھ ماحول سے جنم لیتی ہیں۔ پودوں، جانوروں اور انسانوں پر کی جانے والی تحقیق سے یہ ثابت ہے کہ اچھی فطری خصوصیات کی پرورش کے لیے بھی اچھے ماحول کی ضرورت ہے ورنہ وہ بھی دب کے رہ جاتی ہیں۔ نفسیات ہمارے اندر موجود ہے لیکن ہمیں اسکا اسی طرح احساس نہیں جس طرح ہمیں اپنے جسم کے اوپر جمڑی کا احساس نہیں۔ ہمارے رویے ایک دوسروں ہر کتنے اثر انداز ہوتے ہیں اس پر ہم بہت کم سوچتے ہیں۔ اس کی کیا وجہ یے؟ میرے خیال کے مطابق اس کی وجہ ہماری خود غرضی بے رحمی اور اخلاقی کمزوری ہے جو معاشرے کے اندر غیر انسانی رویے پیدا کرتی یے۔ یوں تو بے شمار علمی اور تحقیقی رپورٹس موجود ہیں لیکن میں آپ کے ساتھ اپنے گھر کا ایک دن پرانا ذاتی تجربہ و مشاہدہ شئیر کرتا ہوں۔ کورونا پابندیوں کے باعث سکول بند ہونے کی وجہ سے ہم اپنی 8 سالہ بچی سلویہ کو ایک دینی ادارے میں بھیجتے ہیں جہاں وہ قرآن پاک سیکھتی یے۔ آج کسی وجہ سے اس نے جانے سے انکار کر دیا تو میں نے اسے ڈانٹ دیا اور وہ آنسو بہاتے ہوئے چلی گئی ۔ بعد میں مجھے بھی تکلیف ہوئی اور یوں تو گائوں کے بچوں کے لیے گاڑی لگی ہوئی ہے میں اپنے ضمیر کو مطمئن کرنے کے لیے چھٹی کے وقت اسے خود لینے چلا گیا۔ جوں ہی سلویہ نے مجھے دیکھا تو وہ دوڑ کر آئی اور مجھ سے لپٹ گئی۔ میں نے دیکھا کہ اس 8 سالہ بچی کے اندر بھی اپنی غلطی کا احساس موجود ہے اور معصوم ہونے کی وجہ سے اس کی سنا ابھی جوان نہیں ہوئی میرے وہاں چلے جانے سے اسکا رویہ مثبت ہو گیا۔ گھر ا کر وہ اپنی ماں سے بھی لپٹ گئی اور دوسری صبح وہ وقت پر تیار ہو کر گھر کے سامنے دوسرے بچوں کے ساتھ سٹاپ پر چلی گئی۔ یہ باپ اور بیٹی کا رشتہ تھا جس میں درد احساس اور ہمدردی کا جزبہ پایا جاتا تھا لیکن اس میں ہم انسانوں کے لیے ایک سبق یے۔ کیا ہم سارے انسان ایک دوسرے کے ساتھ اسی طرح ہمدردانہ اور مشفقانہ طور پر پیش آتے ہیں یا انا پرستی کا مظاہرہ کر کے ایک دوسرے کو شکست دینے کی کوشش کرتے ہیں؟ ہم سوچتے ہیں کہ دوسروں کی بات سن اور مان کر ہم زیر ہو جائنگے لیکن حقیقت میں ہم جتنا ایک دوسرے سے تعاون کریں گے مضبوط ہوں گے۔

ریاست اور حکومت بھی عوام کے لیے ماں باپ کی حیثیت رکھتی یے لیکن وہ عوام کے مطالبات اور اپنی زمہ داریوں پر توجہ دینے کی بجائے آنا پرستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے طاقت کا غلط استعمال کر کے معاشرے کے مزاج اور رویوں کو بگاڑتی یے۔ جو لوگ ہر امن جد و جہد کرتے ہیں انکو نظر انداز اور جو ڈنڈے لے کر میدان میں اتر آتے ہیں انکی بات پر فوری توجہ دیتی ہے جسکی ایک تازہ مثال یہ ہے کہ ڈڈیال جھنڈا کیس کے اسیران تنویر احمد اور سفیر احمد کی سزائوں کے خلاف مقبول بٹ شہید چوک میں کچھ نوجوانوں نے ایک ماہ احتجاجی دھرنا دیا مگر حکومت کے کسی نمائندے نے ایک بار بھی انکے پاس جا کر دھرنے کی وجہ نہیں ہوچھی جبکہ اسی ڈڈیال میں تحریک لبیک ڈنڈے لے کر سڑکوں پر آئی تو حکومت حرکت میں ا گئی۔ توئین رسالت کے معاملہ پر تو حکومت کو خود کوئی قدم اٹھانا چاہیے تھا۔ عوام کو سڑکوں پر آنے پر کیوں مجبور کیا جاتا یے۔ ایک سال قبل بھی توئین رسالت کے اشو پر تحریک لبیک نے سڑکیں بند کیں تو ہم کسی کو ہسپتال لے جا رہے تھے۔ میں نے گاڑی سے اتر کر تحریک لبیک کے نمائندے کو کہا کہ آپ عدالتی فیصلے کے خلاف اگر احتجاج کرتے ہیں تو پھر عدالت کے سامنے جائیں یہاں عوام کو تنگ کر کے آپ عوام کو اپنے خلاف کر رہے ہیں۔ اس ہر تحریک لبیک کے نمائندے نے کہا جناب عوام کو تکلیف ہو گی تو شور شرابہ ہو گا اور پھر حکومت توجہ دے گی ورنہ کون پرواہ کرتا ہے۔ یہ ہے حکومت کی وہ پالیسی جو معاشرے کے مزاج اور رویوں کو خراب کرتی اور تشدد کو جنم دیتی یے۔ اگر معاشرے کے اندر امن قائم کرنا ہے تو حکومت کو پر امن احتجاج کرنے والوں کے جائز مطالبات پر توجہ دینی ہو گی ورنہ لوگ وہی اقدامات کریں گے جو ناگزیر ییں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ عمران حکومت جو خود دھرنوں کی پیداوار ہے وہ آج دھرنوں کے خلاف ہے۔ ریاست پاکستان کی یہ پالیسی بن چکی ہے کہ پہلے وہ خود کچھ گرو پیدا کرتی ہے پھر انکے ساتھ جبر کرکے انارکی پھیلا کر دنیا میں ملک کو بدنام کرتی ہے۔ عوام کے مزاج کو اگر درست کرنا ہے تو حکومت کو اپنے سیاسی رویوں میں مثبت تبدیلی لانی ہو گی اور جائز احتجاجی طریقوں کی حوصلہ افزائی کرنی ہو گی تاکہ معاشرے کے اندر تشدد کا رحجان کم ہو۔

 

Qayuum Raja
About the Author: Qayuum Raja Read More Articles by Qayuum Raja: 55 Articles with 47540 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.