بڑے مُجرموں پر بڑے دن کا بڑا عذاب !!

🌹🌹 علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !! 🌹🌹https://chat.whatsapp.com/K1y9OCjZ6U5G3DkkGGjqJz
🌹🌹

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَہَ مَریم ، اٰیت 35 تا 40 ازقلممولانا اخترکاشمیری
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
ما
کان للہ ان
یتخذ من ولد
سُبحٰنہ اذاقضٰی
امرا فانما یقول لہ کن
فیکون 35 وان اللہ ربی
و ربکم فاعبدوہ ھٰذا صراط
مستقیم 36 فاختلف الاحزاب من
بینھم فویل للذین کفروا من مشھد
یوم عظیم 37 اسمع بھم وابصر یوم
یاتوننا لٰکن الظٰلمون الیوم فی ضلٰل مبین
38 وانذرھم یوم الحسرة اذقضی الامر وھم
فی غفلة وھم لایؤمنون 39 انا نحن نرث الارض
و من علیھا والینا یرجعون 40
اے ھمارے رسُول ! عیسٰی ابنِ مریم کے بعد آپ بھی مُشرکینِ جہان پر یہ بات پُوری طرح واضح کر دیں کہ اللہ تعالٰی کی ذاتِ عالی کے لیۓ کسی کو بیٹا بنانا ہمیشہ سے ہمیشہ کے لیۓ ناروا ھے کیونکہ اللہ تعالٰی کو اپنے کارِ جہان کی اَنجام دہی کے لیۓ انسان کی طرح اَولاد کی قطعاً ضرورت نہیں ھے ، اُس عالی شان کی شان تو یہ ھے کہ وہ جب اپنی اِس بیکراں سلطنت کا کوئی چھوٹا یا بڑا کام اَنجام دینے کا ارادہ کرتا ھے تو صرف ایک لفظ "ہوجا" کہتا ھے اور وہ کام ہوجاتا ھے ، اُس کی اسی عظمت و شان کو ظاہر کرنے کے لیۓ عیسٰی ابنِ مریم نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ میری ذات اور تُمہاری ذات کو پالنے اور سَنبھالنے والا صرف اللہ تعالٰی ھے جو وحدہٗ لاشریک ھے اِس لیۓ تُم سب پر لازم ھے کہ تُم سب اللہ تعالٰی کی فرماں روائی کو تسلیم کرو ، تسلیمِ حق کا یہی وہ سیدھا راستہ ھے جو ہر عبدِ فرماں دار کو اپنے اُس عظیم پالنہار تک پُہنچاتا ھے لیکن عیسٰی کی قوم عیسٰی کی اِس تعلیم کے باوجُود بھی فرقوں میں تقسیم ہوگئی ، یقین جانو کہ حق کے جن جَری مُجرموں نے حق کا انکار کیا ھے وہ موت کے بعد ملنے والی حیات میں جب ھمارے سامنے حاضر ہوں گے تو اُن کو اُن کے اِس انکارِ حق کی پاداش میں ایک بڑے دن کی بڑی باز پرس کا سامنا کرنے کے بعد ایک بڑے دن کی بڑی سزا کو بھی سہنا ہوگا ، یہ ظالم لوگ جن کے کان آج حق کے اعلانات کو سُننے کے لیۓ تیار نہیں ہیں اور جن کی آنکھیں حق کے نشانات کو دیکھنے کے لیۓ آمادہ نہیں ہیں لیکن اُس روز اُن کے کان ھماری عدالت سے جاری ہونے والے سارے فیصلےسُن رھے ہوں گے اور ھماری مُتشکل ہو کر سامنے آنے والی ساری سزاؤں کو بھی اپنی کُھلی آنکھوں سے دیکھ رھے ہوں گے اور اے ھمارے رسُول ! اِس وقت جو غافل لوگ ایمان لانے کے بجاۓ اپنے کُفر پر قائم ہیں آپ اُن سب کو اُس دن کی باز پرس کا خوف دلائیں اور اُن کو بار بار بتائیں کہ اُس روز جب اُن کے خلاف ھمارا بڑا فیصلہ جاری ہو جاۓ گا تو اُن کے دامن میں ایک حسرتِ مافات کے سوا کُچھ بھی نہیں ہوگا کیونکہ اُس روز ساری کی ساری زمین بھی صرف ھمارے قبضے میں ہو گی اور سارے کے سارے اہلِ زمین بھی صرف ھماری گرفت میں ہوں گے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
زمین کا ہر ایک انسان کسی پر گرفت پانے اور کسی سے در گزر کرنے کا ایک مناسب حوصلہ ہمیشہ ہی اپنے آپ میں موجُود پاتا ھے کیونکہ اللہ تعالٰی نے ہر ایک انسان کی فطرت میں ایک دُوسرے کی گرفت کرنے اور ایک دُوسرے سے درگزر کرنے کا ایک ایسا حوصلہ پیدا کیا ہوا ھے جس حوصلی کی بنا پر ہر ایک انسان بقدرِ ضروت ایک دُوسرے کی گرفت بھی کرسکتا ھے اور بقدرِ ظرف ایک دُوسرے سے دَر گزر بھی کر سکتا ھے تاہَم انسان کے جسم و جان میں موجُود رہنے والی گرفت و در گزر کی اِن دو قوتوں کا دار و مدار عموما اِس بات پر ہوتا ھے کہ انسان کے مقابلے میں آنے والا انسان اپنے مَدِ مقابل انسان کے ساتھ ایک بھر پُور مقابلہ کرکے اُس پر اپنی گرفت قائم کرنا چاہتا ھے یا اُس حیوانی مقابلے سے دست بردار ہو کر خود در گزر سے گزرنا اور دُوسرے کو درگزر سے گزارنا چاہتا ھے لیکن سُوۓ اتفاق یہ ھے کہ گرفت و دَرگزر کے بیشتر مواقع پر انسان کی جو انسانی فطرت دُوسرے انسان سے در گزر کی اُمید وار ہوتی ھے انسان کی وہی انسانی فطرت دُوسرے کے ساتھ در گزر کرنے پر تیار نہیں ہوتی اور درگزر کی یہی وہ یکطرفہ انسانی خواہش ہوتی ھے جو عموما انسان کے ساتھ انسان کے دو طرفہ جدال کا باعث بنتی ھے اور اسی سے زمین پر عموما وہ غیر ضروری فتنہ و فساد یا خُون خرابہ ہوتا رہتا ھے جو انسانی معاشرت میں ایک مُہلک وبا کی طرح پھیل کر انسانی حیات کو کبھی سُست روی کے ساتھ اور کبھی تیزروی کے ساتھ کھاتا اور مٹاتا چلا جاتا ھے ، انسانی فطرت میں اللہ تعالٰی کی طرف سے گرفت و در گزر کی یہ قوت ایک تو اِس غرض سے رکھی گئی ھے کہ انسان گرفت کے وقت اپنے جذبہِ گرفت کو انصاف کے مطابق استعمال میں لاۓ اور درگزر کے وقت اپنے جذبہِ دگزر کو بھی انصاف کے مطابق استعمال میں لاۓ اور اپنے تجربہِ ذات کی مدد سے اپنی بے اعتدال قُوتِ صبر و بے اعتدال طاقتِ جبر کو دائرہِ اعتدال میں لاۓ اور گرفت و در گزر کی اِن قُوتوں کو انسانی فطرت میں رکھنے کی دُوسری وجہ یہ ھے کہ انسان اپنے تجربہِ ذات سے یہ بات پُورے یقین کے ساتھ جان جاۓ جب ایک انسان بار بار جبر کے مقابلے میں صبر سے کام لیتا رھے لیکن دُوسرا انسان اصول شکنی سے باز ہی نہ آۓ تو اُس وقت صبر و برداشت اور عفو و درگزر کرنے والے کے غیض و غضب کا عالَم کیا ہوتا ھے اور جب اِس انسان صبر و جبر کے اِن نتائج کو یقین کے ساتھ جان لیتا ھے تو وہ یہ بات بھی پُورے یقین کے ساتھ جان لیتا ھے کہ اللہ تعالٰی کی ذات ہی وہ واحد ذات ھے جو ہر روز انسان کی اَن گنت نافرمانیوں سے چشم پوشی کرتی ھے ، اگر اللہ تعالٰی کی ذات یہ چشم پوشی نہ کرے تو زمین پر کوئی بھی انسان زیادہ دیر تک زندہ ہی نہ رہ سکے بلکہ زندگی چند بے ترتیب سانسیں لینے کے فورا بعد ہی موت کے گھاٹ اُتار دیاجاۓ ، قُرآنِ کریم کے جس بے میل نظریۓ کا نام توحید ھے اور جس بے میل نظریۓ کا اٰیاتِ بالا میں بیان ہوا ھے اُس کا مقصد اللہ تعالٰی کے اسی اختیار پر ایمان لانا ھے جو انسان کو اللہ تعالٰی کی گرفت سے بچاتا ھے اور ترکِ توحید کے بعد اختیارِ شرک کا مطلب اللہ تعالٰی کے اسی اختیار کو چیلنج کرنا ھے جو انسان کو اللہ تعالٰی کی گرفت میں لاتا ھے تاہَم جب تک انسان زندہ رہتا ھے شرک سے توبہ کرکے توحید کی طرف آنے کے لیۓ اُس کا راستہ کُھلا رہتا ھے لیکن موت کے وقت جب آخرت کی کُچھ جَھلک نظر آجاتی ھے تو اُس جھلک کو دیکھنے کے بعد انسان پر توبہ کا یہ دروازہ یومِ قیامت تک بند ہوجاتا ھے اسی لیۓ اٰیاتِ بالا میں پہلے توبہ و رجوع الی اللہ کے بارے میں عیسٰی علیہ السلام کے اُس اعلان کا ذکر ھے جو اعلان انہوں نے اللہ تعالٰی کے خالق اور اپنے مخلوق ہونے کے بارے میں اپنی قوم کے سامنے کیا ھے اور اُس کے بعد سیدنا محمد علیہ السلام کو بھی یہی حُکم دیا ھے کہ آپ انسان کو قیامت کے اُس بڑے دن کی بڑی گرفت اور بڑی سزا سے ڈرائیں تا کہ انسان اُس سزا کا خیال کرکے اللہ کی توحید پر ایمان لاۓ اور شرک کی تاریکی سے باہر آجاۓ اور دُنیا و عُقبٰی دونوں میں نجات کا حق دار بن جاۓ !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 457857 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More