مولانافخرالدین کھوسہ
ناظم تعلیمات مدرسہ مظہرالعلوم حمادیہ اتحادٹاؤن کراچی
تخلیق اور ترقی کے لیے دو چیزیں نہایت اہم کردار ادا کرتی ہیں ، اول استاد
اور دوم ادارہ۔ان کے ذریعے انسان کے رویوں اور کردار کی تنقیح ہوتی
ہے۔تعلیم وتربیت کی ذمہ داری والدین کے بعد اساتذہ پر عائد ہوتی ہے۔یہ
پیغمبرانہ شیوہ ہے۔استاد کا فریضہ محض اپنے مضمون پر توجہ مرکوز رکھنا نہیں
بلکہ اس پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ انسان کی شخصیت کو متوازن
بنانے کے لیے وہ اس کی اخلاقی تربیت کرے۔ پیشہ ورانہ مہارت کے چکر میں ہم
نے انسان کی کردار سازی اور اخلاقی تربیت کے معاملات کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
زیادہ سے زیادہ نمبروں کے حصول کے لیے والدین اپنے بچوں کو اچھے سے اچھے
اداروں میں بھیجتے ہیں ،اکیڈمیوں میں داخلہ دلواتے ہیں تاکہ ان کے بچوں کو
امتحانات میں اچھے نمبر ملیں اور معاشرے میں ان کی بدولت بہتر مقام حاصل
کیا جاسکے۔ گویا اساتذہ اور والدین دونوں اپنے فرائض سے سبکدوش ہو گئے ہیں
اور ان کا مطمح نظر انسان سازی کی بجائے محض پیشہ ورانہ مہارت کا حصول رہ
گیا ہے۔
جب انسان سازی کے فریضہ سے سبکدوشی اختیار کر لی جائے تو یہ توقع رکھنا کہ
سماج میں رواداری اور ہم آہنگی نظر آئے تو یہ کافی مشکل ہے۔ ہمارا معاشرہ
ایک متنوع معاشرہ ہے۔اس میں سماجی تنوع کی طرح مذہبی تنوع بھی وجود رکھتا
ہے۔ہمیں دنیا میں سوائے ایک دو مسلم ممالک کے اس قدر تنوع کہیں اور نہیں
ملتا۔اس قدرمتنوع معاشرے میں اساتذہ پر ذمہ داریاں زیادہ بڑھ جاتی ہیں۔
استاد کی زبان سے نکلا ہوا کوئی بھی جملہ طالب علم کے ذہن پر نقش ہوجاتا
ہے۔اسی لیے جب اساتذہ اپنی مسلکی یا فکری وابستگیاں ظاہر کرتے ہیں تو یہ
اظہار طلبہ کے اذہان پر اپنے اثرات ضرورمرتب کرتا ہے۔ بدقسمتی سے اساتذہ کا
مقصد صرف اپنے مسلک یا مذہب کے حلقے کو وسعت دینا ہوتا ہے اور پڑھنے آنے
والے طلبہ کو تبلیغ کرکے اپنے حلقے میں شامل کرنے کو وہ اپنا فرضِ منصبی
سمجھتے ہیں تاکہ اپنے ہم خیال یا ہم مسلک افراد کی تعداد میں اضافہ ممکن
بنایا جاسکے۔ اپنی شناخت کو باقی رکھنے کے لیے اساتذہ اپنے طلبہ کو شکار
بناتے اور انہیں اپنی خواہشات کا ایندھن بناڈالتے ہیں۔
مقامِ افسوس ہے کہ اساتذہ اخلاقی تربیت نہیں کر رہے اور اس پر مستزاد یہ کہ
وہ اپنے مسالک کے مبلغ بھی بنے ہوئے ہیں۔ اس کا ایک سبب یہ ہے کہ اساتذہ وہ
لوگ بن رہے ہیں جنہیں کوئی اور نوکری نہیں ملتی۔ نظریہ ضرورت انہیں استاد
بنا تا ہے اور یہ رویہ کسی طور اس پیشے کے شایانِ شان نہیں ہے۔سوال یہ ہے
کہ اساتذہ کی اتنی اہمیت کیوں ہے؟آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ’’
میں تمہارے لیے والد کی طرح ہوں اور میں تمہیں تعلیم دیتا ہوں جس طرح ایک
والد اپنے بچے کو تعلیم دیتا ہے۔‘‘ امام ابویوسف ؒ کہتے ہیں کہ اگر ایک
استاد کو جانچنا ہے کہ وہ کتنا اچھا ہے تو دیکھو کیاوہ دوسروں کے بچوں کو
اسی طرح پڑھاتا ہے جیسے اپنے بچے کو پڑھایا جاتا ہے یا نہیں۔ اگر وہ ایسے
پڑھاتا ہے تو سمجھو وہ ایک اچھا استاد ہے ورنہ نہیں۔نبی کریمﷺ کی ایک حدیث
کا مفہوم ہے کہ جس آدمی کو مسلمانوں کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنایا گیا
اور اگر اس نے اپنی تمام تر کاوشیں صرف کرکے اس میں بہتری کی کوشش نہ کی تو
اسے قیامت کے روز منہ کے بل جہنم میں گرایا جائے گا۔ یہ حدیث عمومی ہے لیکن
اس میں اساتذہ بھی شامل ہیں۔ اساتذہ کو نظر ثانی کرنی چاہیے کہ وہ کتنی خیر
خواہی کے جذبات کے ساتھ تعلیم کے پیشے کو اپنائے ہوئے ہیں۔ مقصد اساتذہ
کرام کی حوصلہ شکنی کرنا ہرگزنہیں ہے۔ یہ بھی قطعاًمقصود نہیں کہ وہ اس
پیشے سے الگ ہوجائیں۔ بلکہ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم نظرثانی کریں کہ ہمارے
کردار اور عمل میں کوئی کجی تو موجود نہیں ہے۔ اگر ایسی کوئی بات ہے تو
اساتذہ کو اپنے مقصدِ حقیقی کا اعادہ کرنا چاہیے۔ |